اسلام آباد ( مہتاب حیدر )تمباکو کے شعبے سے تعلق رکھنے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے حکومت سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) میں 30 فیصد کمی کا مطالبہ کیا ہے ، تا کہ آئندہ مالی سال میں ایف بی آر کا ٹیکس ریونیو 243ارب روپے کے موجودہ تخمینے سے بڑھ کر 360 ارب روپے تک پہنچ جائے ۔ ایف بی آر مالی سال 2021-22 میں فنانس ایکٹ کے ذریعے سیکشن 40-ای کے تحت سیلز ٹیکس قانون میں شامل لائسنسنگ برانڈ نام پر عمل درآمد کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔ پاکستان ٹوبیکو کمپنی اور فلپ مورس سمیت صرف دو ملٹی نیشنل کمپنیوں نے لائسنسنگ برانڈز حاصل کیے لیکن دیگر تمام کمپنیوں نے ملکی قانون کی تعمیل نہیں کی۔ تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ ایف بی آر نے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ مقامی طور پر تیار کردہ کسی بھی برانڈ نے کبھی بھی اپنے مختلف برانڈز کا لائسنس حاصل کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی۔ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا بھی یہی حال ہے کیونکہ دونوں ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے تیار کردہ سگریٹوں پر مہر لگا کر اس پر عمل پیرا ہیں اور سالانہ بنیادوں پر 3 سے 4 ارب روپے خرچ کر رہی ہیں۔ تمباکو کی صنعت چوراہے پر ہے کیونکہ اسے اسمگل شدہ برانڈز اور غیر قانونی سگریٹوں سے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ رہا ہے۔ پاکستان ٹوبیکو کمپنی (پی ٹی سی) کے نمائندوں نے پیر کے روز صحافیوں کے ایک منتخب گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مقامی طور پر تیار کردہ ٹیکس چوری اور اسمگل شدہ سگریٹوں کی شکل میں غیر قانونی سگریٹوں کا حصہ اگلے مالی سال میں 40.7 ارب سٹکس سے بڑھ کر 53.4 ارب اسٹکس ہوجائے گا جبکہ قانونی صنعت کا حصہ 2022-23 میں 42.3 ارب اسٹک سے کم ہوکر مالی سال 2023-24 میں 29.6 ارب اسٹک ہوجائے گا۔ پی ٹی سی نمائندگان نے حکومت کو تجویز دی کہ ٹیئر ون سگریٹ کے لیے ایف ای ڈی کو 16500 روپے فی 1000 سے کم کرکے 11550 روپے اور ٹیئر ٹو کے لیے بجٹ کو حتمی شکل دیتے ہوئے اسے 5050 روپے سے کم کرکے 4000 روپے فی 1000 اسٹک کیا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ ایف بی آر کو تمباکو کے شعبے سے مطلوبہ ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرنے میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایف بی آر نے تمباکو کے شعبے سے ٹیکس وصولی کا ہدف 240 ارب روپے مقرر کیا ہے جبکہ اس کے بعد اس میں 200 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ ایف بی آر نے فروری 2023 میں منی بجٹ کے ذریعے ایف ای ڈی میں 154 فیصد اضافہ کیا تھا اور توقع کی تھی کہ اس سے 60 ارب روپے کا اضافی ٹیکس ریونیو حاصل ہوگا۔ اب اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایف بی آر 175 ارب روپے جمع کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لہذا ٹیکس مشینری کو رواں مالی سال میں صرف ایک بڑے ریونیو اسپنر سیکٹر سے 85 ارب روپے کے بڑے شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 175 ارب روپے کے ٹیکس محصولات میں سے پی ٹی سی سے 145 ارب روپے اور پی ایم آئی سے 27 ارب روپے جبکہ باقی تمام مقامی طور پر تیار کردہ سگریٹوں میں 3 ارب روپے کا اضافہ متوقع ہے۔ حال ہی میں کئے گئے آئی پی ایس او ایس سروے کا حوالہ دیتے ہوئے پی ٹی سی کے نمائندوں نے کہا کہ سگریٹ کی مارکیٹ ڈیوٹی چوری اور اسمگلنگ کا ایک پیچیدہ جال بن گئی ہے۔ فروخت ہونے والے سگریٹ کے صرف ایک تہائی پیکٹ پر ڈیوٹی ادا کی جاتی ہے۔ آئی پی ایس او ایس سروے میں پایا گیا ہے کہ 50 سے زیادہ برانڈز مقامی طور پر تیار اور ٹیکس چوری کرتے تھے جن کا مارکیٹ شیئر 38 فیصد تھا۔ یہ تشویشناک بات ہے کہ مارکیٹ میں اسمگل شدہ 51 سے زائد برانڈز صحت سے متعلق انتباہ کے بغیر فروخت کیے جا رہے ہیں جن کا مارکیٹ شیئر 10 فیصد ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر پاکستانی مارکیٹ میں غیر قانونی حصہ 48 فیصد ہے جس سے اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ کاؤنٹی میں 26 برانڈز ٹریک اور ٹریس اسٹیمپ کے حامل ہیں جبکہ 126 برانڈز ٹریک اینڈ ٹریس کے بغیر فروخت کیے گئے ہیں۔ دو تہائی سے زیادہ سگریٹ برانڈز حکومت کی کم از کم قانونی قیمت سے کم قیمت پر فروخت ہو رہے ہیں جس سے متعلقہ حکام کی ناکامی کا انکشاف ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں دستیاب تقریبا 61 فیصد برانڈز کم از کم قانونی قیمت سے کم قیمت پر فروخت ہو رہے ہیں۔ ایف بی آر نے فروری 2023 میں گزشتہ منی بجٹ کے موقع پر ایف ای ڈی میں 154 فیصد اضافہ کرتے ہوئے کم از کم قانونی قیمت میں اضافہ نہیں کیا تھا اور اس نے ایک ڈیڈ زون بنایا تھا لہذا اس بے ضابطگی کو رواں ہفتے 2023-24 کے بجٹ کو حتمی شکل دینے کے دوران درست کرنے ضرورت ہے۔