حافظ بلال بشیر
کسی بھی قوم کی طاقت کا سرچشمہ اس قوم کے نوجوان ہوتے ہیں۔ جب کسی قوم کے نوجوان بلند حوصلہ، باہمت، باصلاحیت اور امنگوں اور ولولوں سے بھر پور ہوں تو سمجھ لیجئے کے وہ قوم بساط عالم پر اپنا لوہا منواتی ہے لیکن مایوس، پژمردہ اور راہ سے بھٹکے ہوئے نوجوان جس قوم میں ہوں وہ تنزلی کی طرف گامزن اور تباہی و بربادی کی الٹی گنتی ہے۔ جس انقلاب یا تحریک کا ہر اول دستہ نوجوان ہوں، اسے تاریخ کا دھارا موڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ کیوں کہ نوجوان جب کسی پیغام کو اپنا لیتے ہیں تو پھر اس کے نافذ کرنے میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرتے۔
آج کے دور میں تعلیم خوشنما کیرئیر کا زینہ بن کر رہ گئی ہے ۔ تعلیم کا مقصد اچھی نوکری یا اچھے پروفیشن تک محدود ہوگیا ہے۔ اخلاق سے عاری نصاب تعلیم، جو طالب علم کو ایک اچھا مینیجر تو بنا دیتا ہے لیکن ایک اچھا انسان بنانے میں ناکام ہے ۔ نوجوانی کے جوش میں کئی مرتبہ اچھے اور برے کی تمیز کرنا اس کے لئے مشکل ہوجاتا ہے اور اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کب اور کس طرح کسی برائی میں مبتلا ہوچکا ہے۔ نوجوان نسل سوشل میڈیا کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہی ہے۔
یہ ایک ایسا جنون ہے، جس میں کھو کراپنے آپ کو فراموش کربیٹھتے ہیں۔ انگلیاں اچھے برے ،جھوٹے سچے غرض ہر قسم کے تجربات سے چند سیکنڈوں میں سیر کروادیتی ہے اور اسی کو حقیقی تصور کرتے ہوئے اپنے گرد و پیش کے حالات جو بالکل فطری ہیں کو بھو ل کر سوشل میڈیا کے مصنوعی دنیا کو ہی حقیقی سمجھنے لگتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ موجودہ ملکی حالات سے نوجوان بہت زیادہ مایوسی کا شکار ہیں۔ ایسے حالات میں نہ تو جذبات کی رو میں بہہ کر غلط قدم اٹھائیں اور نہ ہی مایوس ہو کر امید کا دامن چھوڑیں بلکہ اپنے آپ کو بلند ترین مقاصد کے لیے تیار کریں ۔نوجوانوں کو جفاکش اور بہادر ہونا چاہیے۔
محنتی اور جفاکش نوجوان ہی اس قوم کی زبوں حالی کو پھر سےاونچا مقام دلا سکتے ہیں۔ انہیں اپنے اندر کی عقابی روح بیدار کرنے کی ضرورت ہے،تاکہ وہ آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرسکیں۔ بلندیوں پر پرواز ضرور کریں لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ خود اعتمادی اچھی اور اہم چیز ہے، مگر اس میں حقیقت پسندی بھی شامل ہونی چاہیے۔ کبھی کبھی چیزیں ادھر ادھر بھی ہوجاتی ہیں کیونکہ ہر چیز پر ہمارا کنٹرول تو نہیں ہوتا نا؟ اس لیے ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔
اپنی قابلیت، کامیابی اور کارکردگی کو نمایاں کرنے سے شرمائیں نہیں، کیونکہ، تب ہی لوگ جانیں گے کہ آپ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ مادیت کے اس دور میں معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہوکر ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔معاشرے کی عدم دلچسپی اور عدم توجہ کی وجہ سے اپنے ارادوں اور مقاصد کو کمزور نہیں ہونے دیں۔آج کے نوجوانوں کو اپنی اہمیت و طاقت کو پہچانا ہوگا۔موجود نسلی، لسانی اور طبقاتی اونچ نیچ سے بالا تر ہو کر ناانصافیوں کو دور کرنے کا باعث بنیں۔
نوجوان ساتھیو !آپ کو اپنی زندگی میں نظم و ضبط اور اپنے کام میں حسن و ترتیب بھی ضرور پیدا کرنی ہوگی۔ آپ کتنی ہی محنت سے کوئی کام کریں لیکن اگر اس میں بےترتیبی ہوگی تو نتیجہ وہ نہیں حاصل ہوگا جو حاصل ہونا چاہیے، اگر آپ اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو نہ صرف محنت کرتا ہوا تو تقریباً ہر شخص نظر آئے گا بلکہ محنت کرکرکے ہلکان ہوتا بھی نظر آئےگا۔ لیکن اس محنت کا کوئی قابل ذکر نتیجہ دکھائی نہیں دیتا، اس کی وجہ یہی ہے کہ محنت اور توانائی کا زیادہ حصّہ بے ترتیبی اور ناقص منصوبہ بندی کی نذر ہو جاتا ہے نیز اپنے آپ کو بھی ایک اچھے نمونے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اس احساس کے ساتھ گزاریں گے تو کوئی وجہ نہیں ہم ترقی نہ کرسکیں۔
اس نظام کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے، آئیے خود کو تبدیل کرنے اور بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ یہ وہ چیز ہے جو ہمیشہ ہمارے اختیار رہتی ہے،تو پھر وہاں سے شروع کیوں نہ کریں؟ اگر آپ واقعی خود کو تبدیل کرلیتے ہیں، تب ہی آپ میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کی ہمت اور طاقت پیدا ہوسکتی ہے۔