تحریر…ملک شاہد نذیر ایڈووکیٹ (ڈپٹی انفارمیشن سیکرٹری پیپلزیوتھ وسطی پنجاب) اگر کسی نے اپنے غم و مصائب کو طاقت میں بدلنا ہو تو وہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی زندگی کا مطالعہ کر لے! ایک انسان اتنا مضبوط کیونکر ہو سکتا ہے؟ وہ کیا ایسی روحانی ایسی اخلاقی ایسی معاشرتی اور مافوق الفطرت چیز تھی بی بی کے ذہن میں جس نے انکو اتنی مضبوط اعصابی قوت بخشی؟ ہم جب انکا روشن چمکتا ہوا چہرہ دیکھتے ہیں انکو سنتے ہیں تو اندازہ ہی نہیں لگا سکتے کہ اس خاتون نے اپنے عظیم باپ کو پھانسی کے بعد دفن ہوتا بھی نہیں دیکھا اور اپنے بھائیوں کی لاشوں کو اپنے سامنے بے بسی سے پڑے دیکھا ہو گا،اس قدر طمانیت و سکون میں نے انسانی تاریخ میں کبھی نہیں پڑھا کبھی نہیں سنا!شہید محترمہ بینظیر بھٹو کون تھیں؟؟ ایک ایسی لڑکی جس کی پرورش ناز و نعم میں ہوئی،جس نے ابتدائی تعلیم مایہ ناز اداروں سے حاصل کی اور جو آکسفورڈ میں جب پڑھ رہیں تھیں تو محض قابلیت سے بھرپور طالبہ ہی نہیں تھیں بلکہ طلبا یونین کی ایشیاء کی پہلی خاتون صدر بھی منتخب ہوئیں تو انکی قائدانہ صلاحیتیں آشکار ہوئیں،جو تعلیم حاصل کر کے لوٹیں تو اپنے عظیم باپ کو دنیا کی سربراہی کرتے دیکھا،اور پھر جلد ہی ریاستی غیر آئینی عناصر کی جانب سے اپنے باپ کو وزیراعظم ہاؤس سے نظربندی کی جانب اور اپنے خاندان کو زیر عتاب ہوتے مشاہدہ کیا حتیٰ کہ غیرانسانی مظالم،حقارت اور بدنیتی کو محسوس کیا مگر کمال ہے اس چوبیس/پچیس سالہ لڑکی کا عزم اتنا بلند تھا کہ ہر چیز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باپ کی پنکی نے باپ سے عوام کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پھر سکھر جیل کی پچاس ڈگری کی گرمی اور جواں سال بھائی کی موت بھی اسے نا پگھلا سکی! جلاوطنی سے لے کر وطن واپسی تک کا صبر آزما دورانیہ اور پھر قوم کا والہانہ استقبال انکے عزم کو مزید جِلا بخش گیا،آمریت کے سیاسی تابوت میں آخری کیل تو ٹھونک دیا مگر ایک اور دریا کا سامنا تھا ایسا دریا جو کردار کشی اور الزام تراشیوں سے بھرپور تھا جس میں مذہب کا چورن نمایاں تھامگر بھٹو کی جمہوریت کی شہزادی نے ان سب کا مدلل اور جراٗت مندانہ مقابلہ بھی کیا اور خبردار بھی جا بجا کیا کہ وقت سب کاانتقام لے گا آج میرے ساتھ کررہے ہو کل کو خود بھگتو گے،شوہر کی جدائی کو سہہ کر اپنے بچوں کی تربیت کیلئے جلاوطنی اختیار تو کر لی مگر کارکنان سے غفلت ہرگزنابرتی،ایک اور آمریت کے مسلط ہونے کے باوجود 2002 کے انتخابات میں اکثریت حاصل کر کے دنیا کو دکھا دیا کہ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں!‘‘ بالآخر زندگی کی آخری جلاوطنی کا دور بھی اختتام کو پہنچا تو 2007 اکیسویں صدی کے ابتدائی دور نے دیکھا کہ جمہور کی دیوی کے استقبال کیلئے لاکھوں لوگ اُمڈ آئے،شہید رانی اس والہانہ عوامی محبت کا مشاہدہ کر کے آبدیدہ ہو گئیں اور عوامی خدمت کا عزم لئے بہبود و فلاح کے نئے منصوبوں سے لیس ہو کر عوام میں آنے کا سوچ ہی رہیں تھیں کہ “کارساز” کے مقام پہ آمریت نے سامراج نے بم دھماکوں سے خواب توڑنے کی ناکام کوشش کی مگر وہ تو بہادری کا مجسمہ تھی ڈرنے والی کہاں تھی۔ چنانچہ ایک نئے مزید ولولے کے ساتھ اگلے ہی دن کارکنان کے درمیان جا پہنچیں اور پھر ملک بھر کے ایسے طوفانی دورے کئے کہ آمرِ وقت کو جان کے لالے پڑ گئے،کبھی خودکش دھماکوں کا ڈر تو کبھی نظربندی مگر جمہور کی دیوی ہر دفعہ ایک نئے جوش کے ساتھ ان عوام دشمن قوتوں کو للکارتی آگے بڑھتی گئی۔ مجھے شہید بی بی کا وہ لمحہ آج تک سورج کی روشنی کی طرح یاد ہے جب پرویز مشرف نے ایمرجنسی کم مارشل لاء لگایا تو شہید رانی اُسی رات دبئی سے واپس لوٹیں ائیرپورٹ سے باہر آنے ولا انکا وہ بہادرانہ انداز آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے آہ…وہ شام وہ سال 2007 کی آخری ایام کی شام جب ریاستی آمرانہ عناصر نے اس جمہور کی دیوی کو جسمانی طور پہ ختم کرنے کا ناپاک منصوبہ تکمیل کو پہنچایا تو ملک سوگ میں ڈوب گیا ہم سیاسی طور پہ یتیم ہو گئے کہ اب نا کسی بینظیر نے آنا ہے نا ہی ہم کارکنان کو وہ سایہ شفقت نصیب ہونا ہے جسکی چھاؤں میں سیاسی کارکنان کی پرورش ہوا کرتی تھی جو کارکنان کو بلاامتیاز جانچا کرتیں تھیں۔۔۔!!