اسلام آباد ( صالح ظافر)امریکی صدر جوبائیڈن نے بھارت کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کو اکیسویں صدی کے سب سے معنی خیز رشتوں میں سے ایک قرار دیکر جب امریکا کے تین ر وزہ دورے پر آئے بھارتی وزیراعظم نریندار مودی کو الوداع کیا تو اس پر دو نوں فریق اپنے اپنے زاویئے سے بے حد مسرور تھے۔بھارت اور امریکا نے ایک دوسرے کے خلاف ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں 6 تنازعات ختم کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے جبکہ بھارت نے 28 امریکی مصنوعات پر بدلے میں لگائی گئی ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔امریکا جو ٹیکنالوجی کسی کو نہیں دیتا وہ بھارت کو فراہم کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے ،تعاون کےلیے دونوں ممالک میں 33 شعبوں کی نشاندہی ہوئی ہے، بھارت کو سلامتی کونسل کا رکن بنانے کےلیے امریکا زیادہ سرگرم کردار ادا کرےگا، سرمایہ کاری کےلیے بھی امریکیوں نے تجوریوں کے منہ کھول دیے، امریکی مبصرین اس امر پر بے حد مطمئن تھے کہ انہیں مغرب کی سرکردگی میں اپنے نظام کے لئے چین کے خطرے سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ایک ایسا ساتھی مل گیا ہے جو آبادی کے اعتبار سےدنیا کا سب سے بڑا ملک ہے بھارتیوں کے اطمینان یوں قابل دید تھا کہ امریکا نے ان کے ہاں سرمایہ کاری کے لئے اپنی تجوریوں کے منہ ہی نہیں کھول دیئے بلکہ امریکا کی وہ خاص ٹیکنالوجی جسے وہ کسی دوسرے ملک کو دینے کے لئے آمادہ نہیں ہوا اب بھارت کو فراہم کررہاہے۔ سفارتی مبصرین نے بتایا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے امریکی صدر کی خو اہش کےباوجود یوکرائن پر روس کے حملے کی مذمت سے اجتناب کیا ہے نریندا مودی نے امریکی قیادت کو قائل کرلیا ہے کہ وہ اقوا م متحدہ میں اصلاحات کے نصب العین کو حاصل کرنے کی غرض سے اس کی کوششوں میں پہلے سے زیادہ سرگرم کردار ادا کرے گا تاکہ بھارت عالمی ادارے کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن کر چین کے ہم پلہ ہوسکے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا آئندہ ستمبر میں ہونےو الا اجلاس اور اس کے بعد کے ہفتوں میں ہونے والی سرگرمیاں قابل لحاظ سے اہمیت کی حامل ہونگی۔ اپنے دورہ امریکا کے آخری دن عشائیے میں جو وائٹ ہاؤس میں ترتیب دیا گیاتھا 380؍ ایسے مہمان مدعو کئے گئے تھے جو امریکی اور بھارتی کارپوریٹ اور سرمایہ کار شخصیات تھیں جن میں مکیش امبانی ، گوگل کارپوریشن کے سندرپیچائی ، مائیکروسافٹ کے ستیانڈیلا،اور ایڈوب کارپوریشن کے شانتانرائن بھی شامل تھے۔اس موقع پر بھارتی تاجر راج پٹیل کی ناپا ویلی کی شراب بھی مہمانوں کی تواضع کےلیے رکھی گئی تھی۔ امریکا کے بھارت کے ساتھ تعلقات کی تاریخ میں نریندرا مودی کو جس گرمجوشی کےساتھ خوش آمدید کہا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ بھارت اور امریکا کے حکام اور اعلی ترین سطح پر طویل صلاح مشوروں کے بعد ان 33؍ شعبوں کی نشاندہی ہوگئی ہے جن میں دونوں ممالک کے درمیان غیر معمولی تعاون کا آغاز ہوگا۔ امریکی نے بھارت کے خلاف عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) میں چھ تنازعات سے دستبرداری اختیار کرلی ہے جس سے بھارت کے لئے امریکی سیبوں پر برآمد جیسے معاملات طے پاگئے ہیں اور بھارت ان 38؍ امریکی مصنوعات پر اضافی کسٹمز محصولات ختم کردے گا جو اس نے امریکی پابندیوں کے خلاف جوابی کارروائی کے طور پر عائد کر رکھے تھے۔ امریکا نے بھارت کو وہ ڈرونز بھی فراہم کرنے کا اعلان کردیا ہے جو ہمالیہ کے دامن میں چین کے ساتھ متنازعہ علاقے میں چین افواج کی نقل و حرکت کی نشاندہی کرینگے امریکا طیارہ ساز بوئنگ کمپنی بھارت میں ہوا بازوں کی تربیت اور انفرا اسٹرکچر کی تعمیر پر ایک سو ملین ڈالر خرچ کرے گی۔ دورے کے اختتام پر امریکا اور بھارت کے مشترکہ علامئے پر پاکستان کے حوالے سے جو زبان استعمال کی گئی ہے اسے برداشت کرنا پاکستان کے لئے ممکن نہیں ہوگا اس میں پاکستان کے خلاف جوالزامات عائد کئے گئے ہیں وہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف طویل عرصے سے جاری ہرزہ سرائی سے عبارت ہیں دونوں ممالک نے چین کے تذکرہ سے گریز کیا ہے حالانکہ امریکا کی بھارت کے لئے حد سے متجاوز خوشدلی کا دکھائی دینے والا مقصد چین کے روز افزوں اثر و رسوخ کی راہ روکنا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے امریکی کانگریس کے ایوانوں سے خطاب کرتے ہوئے امریکا کےساتھ اپنے ملک کے تعلقات کو دو عظیم جمہوریتوں کااتحاد قرار دیا ہے حالانکہ بھارت میں جمہوریت کا احوال ایک روز قبل امریکا کےسابق صدر بارک اوباما یہ کہہ کر بیان کردیا تھا کہ بھارت میں اقلیتوں پر جس طرح مظالم ہورہے ہیں وہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کردینے کا باعث بن سکتے ہیں بھارتی وزیراعظم وائٹ ہاؤس اور بعد ازاں کیپٹل ہلز میں جب امریکیوں کےسامنے اپنے جمہوری کردار کو بڑھا چڑھا کربیان کررہے تھے ان کے خلاف بھارتی سکھ اقلیتوں اور دوسرے نمائندے مودی کی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج بنے نعرے لگارہےتھے جن کی آواز ان دونوں عمارتوں کے اندر بھی پہنچ رہی تھی یہ مظاہرین مودی حکومت کی جمہوری آزادیوں اور نسانی حقوق کے خلاف سرگرمیوں پر صدائے احتجاج بلند کررہے تھے ان احتجاجی آوازوں نے پورے دورہ امریکا میں مودی کا تعاقب کیا۔ کانگریس میں ان کے خطاب کا بائیکاٹ کرنے والوں میں برسراقتدار امریکی جماعت کے بعض سرکردہ ارکان بھی شامل تھے جو ان کی جمہوریت کش پالیسی کے خلاف سراپا احتجاج تھے ان کا کہنا تھا کہ کسی ایسے غیر ملکی سربراہ حکومت کو اس عدیم المثال پروٹوکول سے کیوںاس کی عزت افزائی کی گئی جس کا انسانی حقوق کے ضمن میں ریکارڈ پریشان کن ہے۔ امریکی مبصرین سوال اٹھارہے ہیں کہ امریکی مفادات کے لئے بھارت اس تمام تر خیرمقدم کے باوجود اسے ان مقاصد کی آبیاری میں مدد دے سکے گا جن کے لئے خوشامد از حد تک اس کی تعریف و توصیف کی گئی ہے ان کے خیال میں اس کا جواب ہاں میں نہیں مل سکتا کیونکہ بھارت کے لئے امریکا کا حلیف بننا ممکن نہیں ہوگا۔ امریکا نے جنگی سازو سامان کے سلسلے میں بھارت کو فراخدلانہ مراعات دی ہیں اور نصف سے زیادہ معاہدے اسی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں اس کا واضح مقصد چین کے خلاف اس کی پیٹھ ٹھونکنا ہے حالانکہ بھارت کو جب بھی فوجی قوت میں کھلا ہاتھ ملا ہے اسکا نشانہ پاکستان ہی بنا ہے۔ صدر بائیڈن نے اس توقع کا بھی اظہار کیا ہے کہ عالمی نظام کے تحفظ کی خاطر امریکا نے جس حکمت عملی کو اختیار کر رکھا ہے بھارت اس میں معاونت کا کردار ادا کرے گا اس حکمت عملی کا ہدف معاشی اور سیاسی مفادات ہیں۔ معدنیات، اطلاعاتی ٹیکنالوجی، سیمی کنڈیکٹرز، ٹیلی کمیونی کیشنز، دفاعی تعاون کو اگلی نسل کی معاونت میں بھی شامل کرلیا گیا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹرائزنگ بھی وہ شعبے ہیں جن میں معاونت کی جائے گی۔ ویزا کےشعبے میں ان بھارتیوں کو نئی سہولتیں فراہم کی جائیں گی جنہیں ازسرنو ویزا درکار ہوگا امریکا بنگلور اور احمد آباد میں نئے قونصل خانے کھولے گا جبکہ بھارت سیٹل میں نیا قونصل خانہ بنائے گا اس کےعلاوہ امریکا میں دو نئے مقامات کی نشاندہی کی جائے گی جہاں امریکی قونصل خانے کھولے جائیں گے۔ عالمی معاملات کو چلانے میں بھارتی کردار میں اضافہ کیا جائے گا۔ دونوں ملکوں کا تعاون اب ڈیجیٹل پارٹنر شپ کے دور میں داخل ہوگا منشیات کے خلاف دونوں ممالک میں تعاون بڑھایا جائے گا کینسر اور ذیابطیس کے خلاف جنگ میں دو نوں ملک باہم نئی کوششوں کی داغ بیل ڈالیں گے۔ عالمی تعاون کے ضمن میں بھارت کے کردار کو مزیداجاگر کرنے کے لئے امریکا بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا۔ یونیورسٹیوں میں تحقیقاتی کام میں امریکی معاونت بڑھائی جائے گی اسی طرح کلچر کے شعبے میں دو طرفہ تعاون کوفر وغ کے لئے نئی جہتوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر بارک اوباما کی تائید اور امریکی رائے عامہ میں تحفظات کے باوجود امریکی صدرنے بھارتی وزیراعظم کو مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف معاندانہ کارروائیوں اور انسانی حقوق کے احترم کے سلسلےمیں اپنے رویئے کو تبدیل کرنے کے لئے دباؤ استعمال نہیں کیا بلکہ اس کا سرسری حوالہ دیا گیا ۔ مودی جنہوں نے نو سال سے اقتدار میں آنے کے بعد کبھی پریس کانفرنس سے خطاب نہیں کیا وائٹ ہاؤس میں صدر بائیڈن سے مذاکرات کے بعد انہیں مجبوراً محدود نیوز کانفرنس کرنا پڑی جس میں پہلا سوال جو امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل کی نمائندہ نے کیا مسلمانوں کے بھارت میں احوال پر مودی سے باز پرس کی جس کا وہ کوئی واضح اور براہ راست جواب نہ دے سکے۔