شاہین اقبال اثر
ہے یہ دو بکروں کا قصہ کیا تمھیں معلوم ہے
عید الاضحی پر برائے طفل جو منظوم ہے
ایک بکرا کہہ رہا تھا دوسرے بکرے سے یوں
آدمی ظالم ہے اور بکرا بہت مظلوم ہے
عید کے دن کتنے بکرے ذبح کر دیتے ہیں یہ
اس تصور ہی سے میرا دل بہت مغموم ہے
صرف قربانی پہ ہی کرتے نہیں ہیں اکتفا
میں نے پچھلے سال دیکھا بکرائے مرحوم ہے
کھال اتاری پہلے، پھر گردن جدا کی جسم سے
ٹانگ کاٹی، ہاتھ کاٹے، پھر تمھیں معلوم ہے
رکھ دیا سب بوٹی بوٹی کر کے بکرے کا وجود
پھر پکا کر کھا گئے اس کو، وہ اب معدوم ہے
دوسرا بکرا ہوا گویا جو تھا دانا فہیم
بھائی بکرے تو بھی کتنا سادہ و معصوم ہے
حق تعالیٰ کا خلیفہ آدمی ہے دہر میں
ساری دنیا اس کی خادم آدمی مخدوم ہے
آدمی ہی وجہِ تخلیقِ جہاں ہے اصل میں
سارے عالم میں فقط اک آدمی کی دھوم ہے
ہم تو پیدا ہی ہوئے ہیں جان دینے کے لئے
کون کہتا ہے کہ قربانی عمل، مذموم ہے
عید الاضحیٰ پر بہاتے ہیں بہائم کا جو خوں
درحقیقت حکم یہ قرآن میں مرقوم ہے