اسلام آباد(نمائندہ جنگ)چیف جسٹس آف پاکستان،مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ قانون کی باربارتشریح کی وجہ سے تنازعات جنم لیتے ہیں، انہوں نے ان خیالات کا اظہار ہفتہ کے روز سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)کے زیر اہتمام منعقدہ سمینار کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا، فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ایک قانون کی دو تشریحات مسائل پیدا کرتی ہیں، ماہرین کوقانون کی تشریح کے ذریعے تنازعات کو ختم کرنا چاہیے،انہوں نے ملک کے اندر کاروبار کو ریگولیٹ کرنے میں ریگولیٹر کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگربزنس کواٹھانا ہے توبزنس مین کو سرپرائز نہ دیں بلکہ سازگار ماحول دیں، اجارہ داری ختم کریں اورسرمایہ کاروں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دیں۔انھوں نے کہا کہ ملک میں کاروبار کے لیے ساز گار ماحول بنانے میں تمام اداروں اور محکموں کو شفافیت کے ساتھ کام کرنا ہوگا ، ہرشعبہ سبسڈی مانگ رہا ہے، لیکن آئین کا آرٹیکل 25 وسائل کی منصفانہ تقسیم اور یکساں سلوک کی بات کرتا ہے ،سبسڈی حکومت دیتی ہے سپریم کورٹ صرف یہ دیکھ سکتی ہے کہ یہ سبسڈی بلا امتیاز ہے یا نہیں ؟ سپریم کورٹ میں بیٹھ کر ہم قانون کو آئین کے مطابق دیکھتے ہیں، کیا ہمارا قانون کاروبار کے مواقع فراہم کرنے میں مددگار ہے کہ نہیں ، کمرشل سا لمیت اور ریگولیٹری اقدامات درست ہونے چاہئیں، ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی لگائی جاتی ہے اور لوگوں کو پتا نہیں ہوتا، حکومت کو چاہیے کاروباری افراد کی مشاورت سے معاملات چلائے، آئی پی پیز کو طویل مدت سرمایہ کاری کے لیے یقین دہانی کرائی گئی تھی، طویل مدت سرمایہ کاری کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ کاروں کو سہولیات دی جائیں، ملک میں پرائیویٹ بزنس کو سپورٹ اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے،بہتر ریگولیٹری سسٹم کے ساتھ ساتھ کمرشل اداروں کا وقار بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے ،کاروباری تنازعات کو ختم کرنے کے لیے قانون کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت ہے ، قانون کی تشریح کے ذریعے تنازعات کو ختم کرنا چاہیے، کاروباری تنازعات کے لیے ٹریبونل کے نہ بننے سے عدالتوں پر بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے، جو بھی ریگولیٹر ہے اس کو ایک ٹریبونل بھی بنانا چاہیے، جیسے سروس کے معاملات پر سروس ٹریبونل بنے ہوئے ہیں، نیب کو ایسی ہاؤسنگ اسٹیٹ کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے جن کے پاس زمین نہیں ہے، عوام کے لیے ریگولیشنز کو آسان بنانا ضروری ہے، ہائی کورٹس کی استعداد کار بہتر بنانے کی ضرورت ہے، ہمیں ہائی کورٹس پر بوجھ کم کرنا ہوگا، الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک آئینی ادارہ ہے اور سپریم کورٹ اس ادارے کو سپورٹ کرتا ہے، آڈیٹر جنرل آف پاکستان ایک آئینی ادارہ ہے اور ہم اسے مضبوط کرتے ہیں ۔