میزبان: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
شرکاء: زبیر طفیل (سابق صدر، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی)
میاں زاہد حسین (سابق چیئرمین کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی)
الطاف تائی (چیئر مین ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد)
غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے "اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) قائم کی گئی ہے، دیر آید درست آید کے مصداق حکومت اور فوج کے ایک پیج پر آنے سے امکان ہے کہ شاید سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوجائے۔
یہ درست ہے کہ اگر معیشت میں آسانی فراہم کی جائے، بزنس فرینڈلی ماحول بنایا جائے، رکاوٹیں دور کی جائیں، ٹیکس،رولز ، این او سیز میں آسانیاں پیدا کی جائیں تو کاروبار ہو سکتا ہے اور ملک کی معیشت ترقی کی شاہراہ پر دوبارہ گامزن ہو سکتی ہے۔ حکومت فوری طور پر اپنے وسائل سے ڈالرز میں اضافہ نہیں کر سکتی، لیکن شارٹ ٹرم کے لئے ڈالر بچت پالیسی اختیار کر سکتی ہے جس سے ڈالرز میں اضافہ ہو گا، اور یہ بچت یا آمدن آٹھ بلین ڈالرز تک پہنچ سکتی ہے۔
زبیر طفیل
صنعتی شعبے کی لاگت کم کرنے پر توجہ نہیں دی گئی، اس لیے ایکسپورٹ اورمینوفیکچرنگ کے شعبے ہدف حاصل نہیں کر سکیں گے۔ بجٹ کے نتیجے میں زراعت، ایس ایم ایز، آئی ٹی، سولر اور کئی دیگر شعبے ترقی کریں گے۔ بجٹ میں کم از کم اجرات تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ، تاجر خواتین اور نوجوانوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینا قابل تعریف ہے۔
ڈالر کے سرکاری اور غیر سرکاری ریٹ میں فرق کو کم کرنا ہوگا، ورنہ ترسیلات کے ہدف کا حصول ناممکن ہے۔ بجلی، گیس کے نقصانات کی روک تھام، پرائیوٹائزیشن پروگرام اور امپورٹ متبادل کی عدم موجودگی میں، آئی ایم ایف کے بغیر چلنا ناممکن ہے۔ سیاسی جماعتوں کو، ملکی مفادات کو ہر دوسری چیز پرترجیح دینے کا فیصلہ کر کے چارٹر آف اکانومی پر دستخط کرنا ہوں گے۔
میاں زاہد حسین
تعمیراتی صنعت کو ریلیف نہ دینے کافیصلہ بہت مایوس کن ہے، حکومت اپنے شہریوں کو سستے گھر فراہم کرے۔ شہریوں کو سستے گھروں کی فراہمی کے لیے سریا کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور ایڈیشنل ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ کرے اور تعمیراتی مٹیریل میں کنسٹرکشن انڈسٹری کو سبسڈی دی جائے، تاکہ گھروں کی تعمیری لاگت میں کمی ہو اور کم آمدنی والے طبقے کو اپنا گھر کا خواب پورا کرنے میں مدد مل سکے۔
تعمیراتی منصوبوں کے لیے این او سی کی منظوری کے لیے آن لائن ون ونڈو آپریشن کا نظام پورے پاکستان میں نافذ کیا جائے۔ معیشت کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو صنعتی ملک بنایا جائے۔ بلڈرز اور ڈیولپرز کو صنعتی زونز بنانے کے لیے مراعات دی جائیں۔
الطاف تائی
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف ملک سیاسی انتشار اور عدم استحکام کا شکار ہے تو دوسری طرف معیشت تباہی سے دوچار ہے۔ رہی سہی کسر اس صورت حال نے پوری کر دی جس کے دوران نئے مالی سال کا بجٹ پیش کیا گیا۔ گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں قائم اسمبلیوں کی مدت اگست میں پوری ہو رہی ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں اور حکومت سب کے لئے یہ انتخابی سال ہے۔ ملک مالی طور پر دیوالیہ ہونے کے خطرات کا سامنا کر رہا ہے اور آئی ایم ایف کڑی شرائط پوری ہونے کے باوجود معاہدے پر دست خط کسی طرح کرنے کو تیار نہیں، حکومت کو نئے انتخابات کا سامنا ہے اور مہنگائی سے پریشان عوام بجا طور پر ریلیف اقدامات کی توقع رکھ رہے تھے۔
ایسے میں جون کی گرمی میں حکومت نے بجٹ پیش کر کے نئی گرما گرم بحث چھیڑ دی ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت نے ایک متوازن بجٹ پیش کیا ہے، ٹیکسوں میں زیادہ اضافہ نہیں کیا گیا۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط اور ریلیف کی توقع کے درمیان راستہ اپنایا گیا ہے۔ دوسری طرف کچھ ماہرین بجٹ کو نامکمل قرار دے رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے بجٹ کے اہداف خیالی ہیں اور وہ حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ نئے مالی سال 24۔2023 کا بجٹ کیسا ہے؟ عوام کی توقعات کتنی پوری کی گئی ہیں؟ کیا عوام کو مہنگائی سے نجات ملے گی یا ان کی مشکلات میں اضافہ ہو گا؟ کیا آئی ایم ایف اس بجٹ سے مطمئن ہو گا اور معاہدے پر دستخط خط ہو جائیں گے؟
حکومت ڈی فالٹ کے خطرات سے نکل سکے گی؟ روپے کی گرتی ہوئی قدر پر قابو پایا جا سکے گا؟ ملک میں سرمایہ کاری کی فضا بحال ہو گی اور صنعت سازی کے لئے صورت حال سازگار ہو گی؟ حکومت کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور بجٹ خسارے پر قابو پا سکے گی؟ یہ ان جیسے دیگر اہم سوالات کے جوابات جاننے کے لئے’’ بجٹ کیسا ہے‘‘؟ کے موضوع پر ٹیلی فونک پوسٹ بجٹ جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا، جس میں زبیر طفیل ( سابق صدر، ایف پی سی سی آئی) میاں زاہد حسین (سابق چیئرمین، کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری) اور محمد الطاف تائی (چیئرمین، آباد) نے اظہار خیال کیا۔ فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے:۔
زبیر طفیل
بجٹ پر بات کرنے سے پہلے میں ملک کی مجموی طور پر تباہ حال معاشی صورت حال پر بات کرنا چاہوں گا جس کی خاتمے، روپے کے استحکام، اور سرمایہ کاری اور صنعت کاری کے تحفظ اور ترقی کے لئے معاشی بحالی کے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے "اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) قائم کی گئی ہے، جس کا اجلاس وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہوا اور اس میں آرمی چیف، چاروں وزرائے اعلیٰ، متعلقہ وفاقی اور صوبائی وزرا اور اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔
حکومت کا ہدف ہے کہ اس کونسل کے ذریعے بیرونِ ملک سرمایہ کاری کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے، یہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا جب ملک میں کئی برسوں سے سیاسی عدم استحکام ہے اور معیشت مشکلات سے دوچار ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف بھی ہم پر اعتبار نہیں کررہا اور ہم ڈی فالٹ کے خطرات سے دوچار ہیں، ہمارے ڈونرز ہم پر یقین نہیں کر رہے۔ ملک میں نئی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی، صنعت کار کے لئے حالات سازگار نہیں، بلکہ صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔
پاکستان کی بزنس کمیونٹی کافی عرصے سے ایسے کسی اقدام کی ضرورت پر زور دے رہی تھی، دیر آید درست آید کے مصداق حکومت اور فوج کے ایک پیج پر آنے سے امکان ہے کہ شاید سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوجائے۔ یہ درست ہے کہ اگر معیشت میں آسانی فراہم کی جائے، بزنس فرینڈلی ماحول بنایا جائے، رکاوٹیں دور کی جائیں، ٹیکس،رولز ، این او سیز میں آسانیاں پیدا کی جائیں تو کاروبار ہو سکتا ہے اور ملک کی معیشت ترقی کی شاہراہ پر دوبارہ گامزن ہو سکتی ہے۔
اس وقت میرے نزدیک سب سے اہم مسئلہ عوام کو درپیش مہنگائی ہے، افراط زر سینتیس فی صد پر ہے، جو ملک کی تاریخ کی سب سے بلند شرح ہے، خطرناک بات یہ بھی ہے کہ خوراک میں یہ شرح چلیں فی صد سے بھی اوپر ہے جس کے سبب ملک سے مڈل کلاس کا خاتمہ ہو رہا ہے اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے، بجٹ میں بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ٹارگٹڈ سب سڈی فراہم کی جا رہی ہے، لیکن یہ کافی نہیں، ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں ملک سے مہنگائی میں تیزی سے اضافہ کو روکا جا سکے۔ بلند ترین افراط زر کو مدنظر رکھتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تن خواہوں میں اضافہ خوش آئند ہے، کم از کم تن خواہ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے، لیکن اس پر عمل درآمد میں مسائل ہیں، حکومت اسے یقینی بنائے کہ نجی شعبے میں کم از کم تن خواہوں پر عمل درآمد کیا جا سکے۔
دوسرا بڑا مسئلہ روپے کی قدر میں بڑی تیزی سے گراوٹ ہے جسے بنیاد بنا کر اسٹیٹ بینک شرح سود کو بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر لے گیا ہے، ایک برآمدی ملک ہونے کے ناطے ڈالر کی شرح مبادلہ سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے اور حکومت کا بجٹ خسارہ بھی قابو سے باہر ہے، یہ مسلسل پانچواں برس ہے ،جب بجٹ خسارہ ریکارڈ سطح پر دیکھا جا رہا ہے، آئندہ کا ہدف بھی زیادہ ہے رکھا گیا ہے۔ عوام کو میرا مشورہ ہے "آمدن بڑھائیں بچائیں کل کے لئے" گزشتہ دور حکومت سے ہی پاکستانی معیشت مشکلات کا شکار ہے جس کے فوری واپس ابھرنے کا کوئی امکان نہیں، آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی مسائل حل نہیں کرے گا ، معاشی مسائل میں اضافہ ہو گا۔
ملک کے بھی، لوگوں کے بھی، لوگ خاندان کی فکر کریں، ذرائع آمدن بڑھانے کی کوشش کریں، ایک نوکری ہے تو ڈیڑھ دو کریں، گھر کے زیادہ افراد کام کریں، اوور ٹائم لگائیں، ہنر بڑھائیں یا اسے استعمال کریں، کاروبار کو زیادہ وقت دیں، اشیاء فروخت بڑھانے کی سعی کریں، اضافی آمدن کے ذرائع استعمال کریں، گھر کا بجٹ کم کریں، غیر ضروری اخراجات کم یا بند کر دیں، بچتیں بڑھانے کی کوشش کریں، اس وقت شرح منافع تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اس کا فائدہ اٹھائیں، گھر کا کمرہ، پورشن کرائے پر دیں، طلبہ پارٹ ٹائم کام کر کے اخراجات پورے کریں، سوشل میڈیا کو آمدن کا ذریعہ بنا سکتے ہیں، زندگی میں سادگی کی طرف جائیں، شادی تقریبات کم، سادہ یا ختم کر دیں۔
حکومت کی آمدن بھی مسلسل مسئلہ بنی ہوئی ہے نئے مالی سال میں ٹیکس آمدنی کا ہدف کافی زیادہ قرار دیا جا رہا ہے۔ بانوے کھرب ٹیکس ہدف کو زیادہ کہہ کر تنقید درست معلوم نہیں ہوتی، سینتیس فی صد سے زائد افراط زر ہے۔ ہدف اکیس فی صد لانے میں بھی مہینوں لگیں گے، اس حساب سے تو ٹیکس ہدف کم لگتا ہے، زیادہ وصول ہونا چاہیے۔ پاکستان کے لئے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان ٹیکنکلی ڈی فالٹ کر گیا ہے، یا کر جائے گا اس کی وجہ ڈالر کے حصول میں مشکلات اور قرضوں کی ادائی ہے، ایسے میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے وہ یہ کہ "ڈالرز بچا کر کمائیں" علم معاشیات سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ بچتیں، سرمایہ کاری کے برابر ہوتی ہیں، دوسرے مفہوم میں ہم انہیں اپنی اضافی آمدنی بھی سمجھ سکتے ہیں۔
پاکستان اس وقت ڈالرز کی کمی کا شکار ہے، حکومت فوری طور پر اپنے وسائل سے ڈالرز میں اضافہ نہیں کر سکتی، لیکن شارٹ ٹرم کے لئے ڈالر بچت پالیسی اختیار کر سکتی ہے جس سے ڈالرز میں اضافہ ہو گا، اور یہ بچت یا آمدن آٹھ بلین ڈالرز تک پہنچ سکتی ہے، حکومت فوری طور پر توانائی امپورٹ بل کم کرے ،جس کے لئے پورے ملک میں یکساں پالیسی کے تحت بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ کی جائے، بڑی گاڑیوں کی درآمد اور انہیں چلانے پر پابندی عائد کی جائے، پٹرول ڈیزل کی راشننگ کا بھی سوچا جا سکتا ہے، بازار اور کاروبار سورج کی روشنی تک لازمی کریں، دکانیں جب چاہیں کھولیں ،لیکن مغرب کی اذان کے ساتھ بازار بند کرنا ہوں گے، بیرون ملک تفریح اور مذہبی سفر صرف سیلف فنانس پر کرنے کی اجازت دی جائے، جو ڈالرز کا بیرون ملک سے بندوبست کر سکتا ہے، وہ ہی باہر جا سکتا ہے۔
ڈالرز کی خرید و فروخت صرف بینکوں کے ذریعے یقینی بنائی جائے، خلاف ورزی پر کڑی سزا کا قانون نافذ کیا جائے،ایکسپوٹرز کے لئے ڈالرز بیرون ملک سے منگوانے کے قانون کی مدت میں کمی کی جائے، جس سے تقریبا ڈھائی ارب ڈالرز فوری طور پر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کا سبب بنیں گے، ان اقدامات سے آٹھ ارب ڈالرز کی بچت ہو گی جو یقیناً زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہو گا،یہ تمام شارٹ ٹرم اقدامات آج سے ہی ہو سکتے ہیں، جو حکومت کی مڈٹرم اور لانگ ٹرم پالیسیوں کا حصہ ہوں۔ ساتھ ہی آئی ایم ایف سے معاہدہ کسی بھی صورت میں کیا جائے۔ آئی ایم ایف کے بغیر پاکستان کی معیشت نہیں چل سکے گی، متبادل کی باتیں خوش کن ضرور ہیں، لیکن عملاً ممکن نہیں۔
صنعتیں اور کاروباری طبقہ شدید مشکلات سے دوچار ہے، کاروبار کے لئے حالات بالکل بھی موافق نہیں ہیں، کاروباری لاگت میں بےتحاشا اضافہ ہو گیا ہے اور مزید ہوتا جارہا ہے، بجلی گیس کی عدم دستیابی کے ساتھ ان کی قیمتوں کی بلند ترین سطح صنعت کے لئے زہر قاتل ثابت ہو رہی ہیں، ایکسپوٹرز کے لئے بھی دنیا کی مارکیٹ میں مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا، ایسے میں ایکسپورٹ کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا، ڈالر کی کمی کے سبب بھی کاروبار متاثر ہو رہا ہے، ایل سیز نہ کھلنے یا محدود کرنے کے سبب مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
ایکسپورٹ ریمنٹینس اور بیرونی سرمایہ کاری ہی ڈالر میں اضافہ کے سبب ہیں، تینوں شعبوں میں اس وقت مشکلات ہیں، جس کے سبب ہی کیا جا رہا ہے، ڈی فالٹ کے خطرات ٹلے نہیں ہیں۔ پاکستان اپنے وسائل میں بھی اضافہ کرنے میں ناکام ہے ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح دس فی صد کے قریب ہی رہتی ہے، جو نہایت ہی کم ہے، حکومت جہاں آمدنی وہاں ٹیکس کی پالیسی پر عمل کرے، ٹیکس نیٹ کے پھیلاؤ میں ناکام ہے، زرعی انکم، رئیل اسٹیٹ، ریٹیل کی سطح پر ٹیکس کے مواقع موجود ہیں، جس پر ٹیکس نافذ کر کے حکومت بجٹ خسارہ میں قابو پا سکتی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ بازار دن کی روشنی تک کھلنے کے لئے سخت اقدامات کرے، جس کے سبب فیول اور بجلی کی بچت بھی ممکن ہو گی۔ دنیا بھر میں دن کی روشنی کا استعمال کیا جاتا ہے، پاکستان میں بھی کاروبار دن کی روشنی تک محدود رکھا جائے۔ حکومت سرکاری تقریبات اور شادی اور دیگر تقریبات کو سادہ بنائے، صرف ون ڈش کی اجازت ہو، اخراجات میں کمی کے لئے نکاح کی تقریب مسجد میں منعقد کی جائے۔ شادی ہالوں ہوٹلوں میں پرتعیش تقریبات ختم کی جائیں۔
موجودہ معاشی اور سیاسی صورت حال میں حکومت کا بجٹ پیش کرنا کسی کڑی آزمائش سے کم نہیں ہے، سیاسی انتشار اور عدم استحکام، انتخابی سال، آئی ایم کی سخت شرائط، تباہ حال معیشت، ایسے میں ایک گزارے کا عارضی بجٹ ہی ممکن تھا، بنیادی اصلاحات نہیں کی جا سکتی تھیں، حکومت کی پالیسی ہے کہ "کام چلاو، آگے دیکھیں گے"۔
میاں زاہد حسین
بجٹ مجموعی طور پر متوازن ہے، جس میں صنعتی شعبے کےعلاوہ ہراہم شعبے کو توجہ دی گئی ہے۔ صنعتی شعبے کی لاگت کم کرنے پر توجہ نہیں دی گئی، اس لیے ایکسپورٹ اورمینوفیکچرنگ کے شعبے ہدف حاصل نہیں کر سکیں گے۔ بجٹ کے نتیجے میں زراعت، ایس ایم ایز، آئی ٹی، سولر اور کئی دیگر شعبے ترقی کریں گے۔ بجٹ میں کم از کم اجرات تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ، تاجر خواتین اور نوجوانوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینا قابل تعریف ہے، جبکہ نان فائلرز پر ٹیکس کی شرح میں مزید اضافے کی ضرورت تھی۔ بجٹ میں معیشت کو ترقی دینے کے لئے کئی اہم شعبوں کو مراعات دی گئی ہیں جو قدرےکم ہیں، لیکن ان سے معیشت کو واضح اور درست سمت ملے گی۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا تھا کہ بجٹ آئی ایم ایف کی سفارشات کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے ،مگرآئی ایم ایف نے وفاقی بجٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ وزیراعظم کی توقعات کے برعکس عالمی ادارے سے پاکستان کے تعلقات بہتر ہونے کے بجائے کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں جس پر کاروباری برادری کو تشویش ہے اور ان کا اعتماد متاثر ہو رہا ہے۔
بجٹ میں ٹیکس ریونیو میں 26 فیصد اضافہ کر کے اسے 9200 ارب روپے رکھا گیا ہے جس کا حصول موجودہ ٹیکس گزاروں سے مشکل ہوگا۔ اس ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لیے نئے ٹیکس گزارتلاش کرنے ہوں گے کیونکہ نان فائلرز سے دو ہزار ارب روپے ٹیکس اکٹھا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ نان ٹیکس ریونیو کا تخمینہ تین کھرب روپے لگایا گیا ہے۔ موجودہ بجٹ میں تقریباً سات ہزارارب روپے خسارہ ہے۔ حکومت کی آمدنی سے صوبوں کا حصہ 5276 روپے اور سود کی ادائیگی 7300 ارب روپے نکالنے کے بعد کچھ نہیں بچے گا اور بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے قرض کا حصول ضروری ہو گا۔
آئی ایم ایف نصف فیصد پرائمری بجٹ سرپلس چاہتا ہے جس میں ڈیڑھ سو ارب روپے کی کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ تنخواہوں میں اضافے پر ایک سو ارب روپے لگے گا۔ یہ ڈھائی سو ارب روپے کا فرق عالمی اداروں کو قبول نہیں ہو گا جس کے لئے منی بجٹ کا سہارا لیا جانا ضروری ہوگا۔
ڈالر کے سرکاری اور غیر سرکاری ریٹ میں فرق کو کم کرنا ہوگا، ورنہ ترسیلات کے ہدف کا حصول ناممکن ہے۔ بجلی، گیس کے نقصانات کی روک تھام، پرائیوٹائزیشن پروگرام اور امپورٹ سبسٹیٹوشن کی عدم موجودگی میں، آئی ایم ایف کے بغیر چلنا ناممکن ہے۔ اگر آئی ایم ایف پروگرام بحال نہ ہوا تو مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا ۔اس لیے بنیادی اقتصادی اصولوں اور آئی ایم ایف کی شرائط کی پابندی ضروری ہے، ورنہ حکومت کو سات ہزارارب روپے کے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے مقامی مہنگے قرضوں پرانحصار کرنا پڑے گا جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سے انھیں فائدہ ہوگا۔ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے ہمیں ناکام سرکاری اداروں کی نجکاری،امپورٹس سبسٹیٹیوشن کرنا ہوگی اور بجلی و گیس کے شعبوں میں نقصانات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ہمیں دفاعی، ترقیاتی اور دیگر حکومتی اخراجات کے لیے کمرشل بینکوں سے مہنگے قرضے لینا ہوں گے جس کا سارا بوجھ عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا جو پہلے ہی مہنگائی کے سبب زندہ درگور ہو چکے ہیں۔ حکومت نے درآمدات کو محدود کرکے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو فی الحال کنٹرول کر لیا ہے جس سے پاکستان ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے لیکن اس سال پاکستان کو 20 ارب ڈالر کے قرضے واپس یا رول اوور کرنے ہیں اتنی بڑی رقم کی ادائیگی اور رول اوور آئی ایم ایف کے بغیر ناممکن ہے۔
موجودہ بجٹ کو آئی ایم ایف سیاسی بجٹ سمجھ رہا ہے جس میں عالمی ادارے کے خیال میں انرجی سیکٹر میں سخت اصلاحاتی اقدامات کو نظر انداز کیا گیا ہے، ٹیکس بیس کو وسیع کرنے کے اقدامات نہیں کیے گئے، اور ایک لاکھ ڈالر سالانہ کی ترسیلات زر کی اجازت ایمنسٹی اسکیم کے مترادف ہے۔
بہت سے ممالک نے پاکستان سے بھی زیادہ برے حالات دیکھے ہیں مگر سخت اقدامات کی وجہ سے وہ بحران سے نکل آئے۔ پڑوسی ملک بھارت کے پاس 1991 میں ایک ارب بیس کروڑ ڈالر رہ گئے تھے اور یہ دیوالیہ ہو رہا تھا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے بھی منہ پھیر لیا تھا، مگر اسکی سیاسی قیادت نے چیلنج قبول کیا اوراب وہ ملک ایک اقتصادی قوت بن چکا ہے۔ بھارت میں 1991 کے بعد بہت سی حکومتیں بدلی ہیں مگر کسی نے بھی معاشی پالیسیوں سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جس کی وجہ سے وہ تیسری بڑی قوت بن گیا ہے۔
اس وقت ملک میں پیداوار برآمدات، ترسیلات اور روزگارمسلسل کم ہو رہا ہے جبکہ مہنگائی اور بے چینی بڑھ رہی ہے اور سنگین معاشی و سماجی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ بجٹ میں ریوینو اہداف کا حصول ٹیکس بیس میں اضافے کے بغیرناممکن ہے۔
ملک پرائیوٹائزیشن، امپورٹ سبسٹیٹیوشن، انرجی اصلاحات، زراعت، مائنگ، ٹورزم کاروباری لاگت میں کمی سمیت بڑے اور اہم فیصلوں سے بچے گا ورنہ موجودہ حکومت کے بعد آنے والی حکومت کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا اورعوام کو مزید مہنگائی کا عذاب بھگتنا پڑے گا۔
معیشت کے ٹیکس گزار شعبوں پر بوجھ کم کئے بغیر سرمایہ کاری، روزگار اور محاصل بڑھانا ناممکن ہے۔ ٹیکس گزار شعبوں پر مسلسل ٹیکس کا بوجھ بڑھانا انھیں ملک سے بھگانے کے مترادف ہے۔ ملکی جی ڈی پی میں زراعت 23 فیصد جبکہ ہول سیل، ریٹیل 18 فیصد، کنسٹرکشن اور ٹرانسپورٹ کا حصہ 19 فیصد ہے ان شعبوں پرڈایریکٹ ٹیکس کا بوجھ نہ ہونے کے برابر ہے ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔
اہم شعبوں سے ٹیکس نہ لینے کی وجہ سے ٹیکس کا سارا بوجھ مینوفیکچرنگ، ٹیکس ادا کرنے والے دیگر شعبوں اورعوام پر پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف کے عدم تعاون کے باعث دیگرعالمی اداروں اور ذرائع سے سستے قرضوں کا حصول بھی نا ممکن ہوچکا ہے اور ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں بےبنیاد سیاسی الزامات کی بوچھاڑ سے بھی عالمی، مالیاتی برادری کوپاکستان کے بارے میں بہت منفی پیغام مل رہے ہیں اس لئے اس سلسلے کو ختم کرنا ضروری ہوگیا ہے۔
ہمارا ملک موجودہ معاشی صورتحال سے بہتر انداز میں نمٹ سکتا ہے بشرطیکہ کاروباری لاگت میں کمی کر کے خطے کے دوسرے ممالک کے برابر لائی جائے ،تاکہ برآمدات میں اضافہ ہو سکے، اس سلسلے میں ایک کاسٹ اکاؤنٹنگ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے جو مستقل بنیادوں پر پاکستانی مصنوعات کی کاروباری لاگت کا دوسرے ممالک کے ساتھ موازنہ کرکے صنعتوں کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں کا تعین کرے۔ ہمیں ماضی کی غلطیاں نہ دہرانے کا عزم کرنا ہوگا، اور سیاسی جماعتوں کو، ملکی مفادات کو ہر دوسری چیز پرترجیح دینے کا فیصلہ کر کے چارٹر آف اکانومی پر دستخط کرنا ہوں گے اوراس پر قائم رہنا ہو گا، ورنہ ملکی تاریخ کا بدترین معاشی بحران سب کچھ نگل جائے گا۔
الطاف تائی
تعمیراتی صنعت کو ریلیف نہ دینے کافیصلہ بہت مایوس کن ہے، کسی بھی ملک میں تعمیراتی شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ،کیوں کہ تعمیراتی شعبہ متحرک ہو تو سو سے زائد دیگر صنعتوں کا پہیہ بھی چلنے لگتا ہے۔ تعمیراتی شعبہ نہ صرف معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیتا ہے، بلکہ روزگار فراہم کرنے والا دوسرابڑا صنعت ہے جو مجموعی طور پر 35 فیصد روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ 2021-22 میں تعمیرات صنعت کو ریلیف پیکج دیا گیا جس سے پاکستان کی جی ڈی پی میں گروتھ ہوئی۔تعمیراتی پیکج کے اعلان کے بعد ملک میں تعمیراتی سرگرمیاں بلند ترین سطح پر پہنچیں۔
پاکستان کی تاریخ میں سیمنٹ اور سریا کی پیداوار اور ٹائلز سمیت دیگر تعمیراتی مصنوعات کی فروخت پاکستانی تاریخ میں ریکارڈ اضافہ ہوا تھا۔ننے حکومت کو تجویز دی ہے کہ شعبے کے لیے فکس ٹیکس ریجیم کا نظام مستقل بنیاد وںپر نافذ کیا جائے۔ تعمیراتی صنعت کو ریلیف پیکج دینے کا مطلب عوام کو ریلیف دینا ہے ۔اس سے کم آمدنی والے طبقے کا اپنا گھر کا خواب پورا ہو سکتا ہے ،اس پیکج سے بلڈرز اور ڈیولپرز کوئی استفادہ حاصل نہیں کرسکتے، تاہم آباد کا لوکاسٹ ہاؤسنگ اسکیم کا ویژن تھا۔ اس پیکج سے آباد کم آمدنی والے طبقے کو سستے گھروں کی فراہمی میں کردار ادا کرسکتی ہے۔
سیمنٹ اور سریا تعمیرات کا اہم جزو ہے۔ آباد ہمیشہ سستے گھروں کی فراہمی کے لیے جدوجہد کرتا رہا ہے ، جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت اپنے شہریوں کو سستے گھر فراہم کرے۔ شہریوں کو سستے گھروں کی فراہمی کے لیے سریا کی درآمد پرریگولیٹری ڈیوٹی اور ایڈیشنل ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ کرے اور تعمیراتی مٹیریل میں کنسٹرکشن انڈسٹری کو سبسڈی دی جائے، تاکہ گھروں کی تعمیری لاگت میں کمی ہو اور کم آمدنی والے طبقے کو اپنا گھر کا خواب پورا کرنے میں مدد مل سکے۔
سیمنٹ،سریا،ٹائلز اور دیگر تعمیراتی مٹیریل کی قیمتوں کو کم از کم 3 سال کے لیے فکس کیا جائے ،تاکہ تعمیراتی منصوبوں کی تعمیر کے دوران مذکورہ مٹیریل کی قیمتوں میں اضافے سے ان منصوبوں کو نقصان سے بچایا جاسکے۔ دوسری صورت میں بجٹ 2023-24 میں سیمنٹ ،سریا،ٹائلز اور دیگر تعمیراتی مٹیریل پر 3 سال کے لیے مقامی ٹیکسوں سمیت تمام ٹیکسز ختم کیے جائیں۔ سیمنٹ اور سریا کی قیمتوں کو برآمد ی قیمتوں کے مساوی کیا جائے۔ اس وقت سیمنٹ ،سریا اور دیگر تعمیراتی سامان کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جس سے تعمیراتی لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ تعمیراتی لاگت میں اضافے کا بوجھ براہ راست گھر خریدنے والوں پر پڑتا ہے اور کم آمدنی والے طبقہ ایسے حالات میں گھر خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
اپنے شہریوں کو رہائشی سہولت کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے۔اگر حکومت تعمیراتی مٹیریل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانا چاہتی ہے تو اسے تعمیراتی مٹیریل کی درآمد پر آرڈی اور اے آرڈی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ تعمیراتی مٹیریل پر سبسڈی کا اعلان کرنا ہوگا۔ حکومت کے اس اقدام سے حکومت اپنے شہریوں کے لیے اپنے گھر کا حصول ممکن بنا سکتی ہے۔ اس سے شہریوں میں خوشحالی آئے گیا اور عوام کا حکومت پر اعتماد بڑھے گا۔ آباد کا تعمیراتی صنعت کے لیے ریلیف پیکج کا مطالبے کا مقصد نہ صرف اقتصادی ترقی کو فروغ دینا ہے بلکہ کم آمدنی والے طبقے کو رہائشی سہولت بھی فراہم کرنا ہے۔ تعمیراتی سرگرمیاں بڑھنے سے لاکھوں افراد کو روزگار ملنے کے ساتھ ساتھ بحرانوں میں گھری معیشت کو بھی سہارا ملے گا۔
تعمیراتی منصوبوں کے لیے این او سی کی منظوری کے لیے آن لائن ون ونڈو آپریشن کا نظام پورے پاکستان میں نافذ کیا جائے اور تعمیرات کے حوالے سے تمام بائی لاز پورے ملک کے لیے یکساں کیے جائیں۔ تعمیراتی منصوبے کے لیے بلڈرز کو درجنوں متعلقہ سرکاری محکموں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں اور این او سی کے لیے بھی سال سے زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے۔
آن لائن ون ونڈو آپریشن کا نظام نافذ کرکے 15 روز میں تعمیراتی منصوبے کے لیے این او سی جاری کی جانی چاہیے۔
قانونی طور پر رہائشی منصوبوں کو منظوری میں بڑے پیمانے پر رکائوٹو ں کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے غیر قانونی تعمیرات کا اضافہ ہورہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ کراچی کے 54 فیصد رہائشی کچی آبادیوں میں رہائش پزیر ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ قانونی تعمیرات میں ہونے والی رکائوٹوں کو ختم کیا جائے تاکہ شہریوں کو معیاری رہائشی سہولت میسراور کچی آبادیوں میں کمی آسکے۔
پاکستان کی معیشت کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو صنعتی ملک بنایا جائے۔ بلڈرز اور ڈیولپرز کو صنعتی زونز بنانے کے لیے مراعات دی جائیں۔ ان صنعتی زونز میں ورکرز کو معیاری رہائش، صحت کی سہولتوں کے لیے اسپتال، اسکولز اور پارکس وغیرہ سمیت بنیادی سہولتیں میسر آسکیں۔