کراچی (ٹی وی رپورٹ) تحریک انصاف کے رہنما اور ماہر قانون حامد خان نے کہا ہے کہ نواز شریف کو نااہل کرنے کا فیصلہ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی ہوچکا تھا، اس معاملہ میں عدلیہ کو صرف استعمال کیا گیا
نواز شریف سمجھتے تھے کہ وہ عدلیہ کو ہینڈل کرلیں گے مگر انہیں بعد میں احساس ہوا کہ معاملات ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں، نواز شریف کو نااہل کرنے کا فیصلہ کہیں اور ہوچکا تھا۔
جیوکے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے حامد خان کا کہنا تھا کہ چیئرمین تحریک انصاف کو لوگوں کی پہچان نہیں ہے، آج دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوچکا ہے، اتنی بڑی پارٹی جہاز کے ہاتھوں ہائی جیک ہوگئی، جو جہاز سے آئے انہیں واپسی کیلئے جہاز کی ضرورت نہیں پڑی،جسٹس وجیہہ الدین نے جہانگیر ترین، علیم خان اور پرویز خٹک کو پارٹی سے نکالنے کی تجویز دی تھی، عمران خان اگر جسٹس وجیہہ الدین کی تجاویز منظور کرلیتے تو پی ٹی آئی صحیح معنوں میں جمہوری پارٹی بن جاتی۔
میزبان حامد میر نے کہا کہ جب سے پاکستان بنا ہے یہاں جمہوریت کیخلاف سازشیں ہورہی ہیں، یہاں بار بار مارشل لاء لگایا جاتا ہے، آئینی و قانونی ماہر حامد خان نے کہا کہ سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کا تجربہ پہلی دفعہ ایوب خان نے کیا جو ناکام ہوگیا تھا
ملک چلانے کیلئے آئین ضروری تھااور اس کیلئے سیاسی جماعتیں بنانا ضروری تھیں، ایوب خان کے دور میں عوام براہ راست اراکین صوبائی و قومی اسمبلی منتخب نہیں کرتے تھے، قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین بی ڈی ممبرز منتخب کرتے تھے
1962ء کا آئین اسی لیے ناکام ہوا کہ اسے بنانے میں لوگوں کا عمل دخل نہیں تھا، مشرقی پاکستان میں احساس پیدا ہوا انہیں کالونی بنا دیا گیا ہے۔ حامد خان کا مزید کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو میں بھی آمرانہ رجحانات تھے وہ پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی تھے، پہلی دفعہ ایوب خان کے دور میں جماعت اسلامی پر پابندی لگائی گئی تھی مگر سپریم کورٹ نے اسے بحال کردیا تھا، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نیپ پر پابندی لگائی گئی جس کی سپریم کورٹ نے توثیق کردی تھی
جنرل ضیاء الحق کے دور میں جونیجو کی مسلم لیگ جبکہ پرویز مشرف کے دور میں ق لیگ اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی گئی۔
حامد خان نے بتایا کہ میری کتاب میں 2018ء کی سیاسی انجینئرنگ کا ذکر ہے،نیوز لیکس کے بعد نواز شریف کو فارغ کرنے کا فیصلہ ہوگیا تھا، نواز شریف کو نااہل کرنے کا فیصلہ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی ہوچکا تھا، اس معاملہ میں عدلیہ کو صرف استعمال کیا گیا، نواز شریف سمجھتے تھے کہ وہ عدلیہ کو ہینڈل کرلیں گے مگر انہیں بعد میں محسوس ہوا کہ معاملات ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں
نواز شریف کو نااہل کرنے کا فیصلہ کہیں اور ہوچکا تھا۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کیخلاف 2022ء میں تحریک عدم اعتماد روکنے کیلئے ڈپٹی اسپیکر کے ذریعہ تحریک ڈس مس کردی گئی، اسی دن عمران خان کی ایڈوائس پر صدر مملکت نے اسمبلی تحلیل کردی ، ان کے نزدیک تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے بچنے کیلئے اسمبلی تحلیل کرنا بہتر راستہ تھا۔
حامد خان نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اندر سے بہت کمزور ہیں، سیاسی جماعتوں میں تمام بڑے عہدے انٹرا پارٹی الیکشن کی بنیاد پر نہیں دیئے جاتے، صرف پی ٹی آئی نے 2011-12ء میں حقیقی انٹراپارٹی الیکشن کروائے، اس الیکشن کو سبوتاژ کرنے میں جہانگیر ترین ، پرویز خٹک اور علیم خان سب سے آگے تھے
اس وقت جسٹس وجیہہ الدین نے جہانگیر ترین، علیم خان اور پرویز خٹک کو پارٹی سے نکالنے کی تجویز دی تھی، عمران خان اگر اس وقت جسٹس وجیہہ الدین کی تجاویز منظور کرلیتے تو پی ٹی آئی صحیح معنوں میں جمہوری پارٹی بن جاتی۔