کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز پروگرام ’جر گہ‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے شاعر و مزاح نگار سید سلمان گیلانی نے کہا ہے کہ اٹھارہ بیس سال پہلے میں نے محسوس کیا کہ لوگوں نے حالات کی وجہ سے ہنسنا چھوڑ دیا ہے اور ہم نے ادب کو بھی زندہ رکھنا تھا اس لئے مزاح کی طرف زیادہ توجہ دینا شروع کردی۔ پہلے جیسے بزرگ اب نہیں رہے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں ضرور ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمن سے بچپن سے دوستی ہے۔ عشق بہت ضروری ہے لیکن ہوس ملوث ہونے کی وجہ سے عشق کی روح مجروح ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد ہندوستان کے مشہور شاعروں میں سے تھے آل انڈیا مشاعرے بھی پڑھے فلموں کے گیت بھی لکھے اُن کا اٹھنا بیٹھنا بھی علماء کے ساتھ زیادہ تھا تو وہ اس لائن سے ہٹ گئے لیکن انقلابی شاعری ساتھ ساتھ کہتے رہے مجھے بھی یہ سب ورثے میں ملا،مجھے زیادہ تر کالجز اور یونیوسٹیز میں مدعو کیا جاتا ہے۔ جب ہم یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اس وقت بھی طنزو مزاح کا یہی ماحول تھا لیکن موبائل ہونے کی وجہ سے بات عام نہیں ہوتی تھی لیکن موبائل یا اس قسم کی ڈویس آنے سے تمام طنز و مزاح عام ہوجاتا ہے۔ شاعر حضرات اپنی شاعری کے ذریعے مختلف طبقوں کی نمائندگی کرتے ہیں ہم لوگ اپنے اوپر رکھ کر ان لوگوں کی بات کررہے ہوتے ہیں جو چار شادیاں کرنا چاہتے ہیں اور کئی اشعار میں کنواروں کی بھی نمائندگی کی ہے۔ سلیم صافی نے پوچھا کہ نوجوان نسل آپ سے بہت متاثر نظر آتی ہے جس کے جواب میں سید سیلمان گیلانی نے کہا کہ ہر مقام کے لئے ایک کلام ہوتا ہے اور کلام کے لئے ایک مقام ہوتا ہے ایک آدمی کی مختلف جہتیں ہوتی ہیں اس کی شاعری کی پرتھ ہوتے ہیں ہر شخصیت میں ایسا ہوتا ہے بعض دفعہ مجھے پرائمری لیول کے بچوں کے پاس لے جاتے ہیں کہ انہیں انٹرٹین کریں تو ہم اسی لیول پر جا کر ان سے بات کرتے ہیں اشعار بھی اسی سطح کے بناتے ہیں جب نوجوانوں میں جاتے ہیں تو ان کے فہم کے مطابق بات ہوتی ہے۔