اسلام آباد (محمد صالح ظافر) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض احمد نے اعلان کیا ہے کہ وہ نگراں وزیراعظم کے تقرر کے حوالے سے صلاح مشورے میں اپنی مرضی کرینگے اور باہر سے کسی کی رائے نہیں لیں گے۔ فیصل آباد سے جنگ کے خصوصی رپورٹنگ سیل کے ساتھ پیر کی شام بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ آج (منگل) اسلام آباد پہنچ رہے ہیں ۔ قائد ایوان وزیراعظم شہباز شریف دستیاب ہوئے تو ان سے ملاقات ہوجائے گی اور نگراں حکومت کے بارے میں تبادلہ خیال ہوسکتا ہے۔ ایک استفسار کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ارکان سے اس معاملے میں لازماً گفتگو ہوگی فی الوقت یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ نگراں وزیراعظم کی حیثیت سے نامزدگی کے لئے ان کی سفارشات کیا ہوگی۔ اس دوران پتہ چلا ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس پرسوں جمعرات (20جولائی)کو طلب کیا جارہا ہے اس سلسلے میں وزیراعظم کے لئے سمری ارسال کردی گئی ہے جس کی بنیاد پر وہ صدر مملکت کوایڈوائس جاری کرینگے۔ قومی اسمبلی کی مدت پورا ہونے تک یہ اجلاس جاری رہے گا اس طرح یہ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کا الوداعی اجلاس ہوگا۔ پارلیمانی ذرائع نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اس امر کا یکساں امکان موجود ہے کہ قومی اسمبلی 13اگست کو اپنا آخری اجلاس منعقد کرکے معدوم ہوجائے یا اس سے دو تین دن پہلے تحلیل کردی جائے اس سلسلے میں معاملہ صلاح مشوروں سے مشروط ہے تیرہ اگست تک اجلاس جاری رہا تو الیکشن کمیشن ساٹھ روز میں عام انتخابات کرانے کا مکلف ہوگا بصورت دیگر اس پر نوے دن میں عام انتخابات کرانے کی پابندی ہوگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیاں بھی قومی اسمبلی کی طرح انجام کو پہنچیں گی دونوں صوبوں میں بھی نگراں حکومتوں کے قیام کی خاطر اسمبلیوں کےقائد ایوان جو بلحاظ منصب وزیراعلی ہیں اپنے اپنے قائد حزب اختلاف سے آئندہ ہفتے مشاورت کرینگے۔ بتایا جاتا ہے کہ وفاق اور صوبوں میں پیش آمدہ ایام میں ہونے والے صلاح مشورے غیر رسمی نوعیت کے ہونگے غالب امکان یہی ہے کہ باضابطہ مشاورت اگست کے پہلے ہفتے میں ہوگی۔ ذرائع نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اگر وزیراعظم یا کسی وزیراعلیٰ نے صوبائی اسمبلی میعاد پورا ہونے سے پہلے توڑ دی تو پھر نگراں حکومت کا تقرر اسمبلی ٹوٹنے کے فوری بعد بھی مکمل کیا جاسکتا ہے۔ مبصرین کی رائے میں قومی اور صوبائی سطح پر حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے کےساتھ اس قدر شیروشکر ہیں کہ کسی تنازعے کے پیدا ہونے کا اندیشہ موجود نہیں تاہم حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ’’فاصلوں‘‘ کو طبعی رنگ دینے کے لئے مشاورتی عمل میں ’’طوالت‘‘ کو جنم دیا جاسکتا ہے۔