• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ قومیں خوش نصیب ہوتی ہیں جن کے نوجوان فولادی ہمت اور بلند عزم و استقلال کے مالک ہوتے ہیں، جن کے نوجوان مشکلات سے گھبرانے کے بجائے دلیری سے مقابلہ کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ذیل میں ایسے ہی ایک پر عزم،باہمت اور حصول علم کے لیے جہد مسلسل کرنے والے طالب علم محمد جواد بھٹی کی بابت پڑھیے۔

محمد جواد بھٹی نے ملتان کے نواح میں واقع چھوٹے سے قصبے شجاع آباد کے ایک مزدور کے گھر میں آنکھ کھولی۔ پیدائش کے وقت وہ بالکل تندرست تھا لیکن تین سال کی عمر میں اسے بخار ہوا ، جس میں اس کی دونوں ٹانگوں میں جان نہ رہی۔ غریب باپ نے ملتان ،فیصل آباد اور لاہور سمیت کئی شہروں میں علاج کروایا، بعد ازاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ، آپ کا بچہ پولیو سے معذور ہوگیا اور پھر رینگنا اس کا مقدر بن گیا ،اس کے بہن بھائی اسکول جاتے اور وہ گھر میں بے بس پڑا رہتا۔ 

جب وہ سات سال کا ہوا تواس نےا سکول میں داخلہ لینے کی خواہش کی لیکن اسےا سکول میں داخل کروانے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ کوئی اسے اسکول چھوڑنے اور واپس گھر لانے والا نہیں تھا۔ جب جواد کا جب اصرار بڑھتا گیا تو اسے گھر کے قریب ایک نجی ا سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ کوئی مددگار نہ ہونے کی وجہ سے جواد کی ٹانگوں کے نیچے ٹیوب کا ٹکڑا با ندھا جاتااور وہ گود میں بستہ رکھ کر رینگتا ہوا اسکول جاتا۔اسکول انتظامیہ نے بھی اسے ہر ممکن مدد فراہم کی اس کی فیس آدھی کردی ، آٹھویں جماعت تک اسی اسکول سےپڑھا۔

نویں جماعت میں گورنمنٹ ا سکول میں کرداخلہ دلا دیا گیا۔یہاں بھی اساتذہ نے تعاون کیا، ا س کے جذبہ حصول علم اور قابلیت کو بے حد سراہا ۔ ایک مہربان استاد نے محمد جواد بھٹی کو سائیکل پر گھر سے لانے اور لے جانے کی ذمہ داری جواد کے ایک ہم جماعت کو سونپ دی، دوسرے استاد نے اسےا سکول اوقات کے بعد بلامعاوضہ پڑھایا۔ اس طرح اس نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا تو سب بہت خوش ہوئے۔

اس کے دوست، ایف ایس سی کرنے ملتان جارہے تھے جب کہ معذوری کی بناء پر اسے گھر سے اجازت نہیں مل رہی تھی تو دوستوں نے اُس کے والدین کو ہر ممکن مدد کی یقین دھانی کروائی اور اسے اپنے ساتھ ملتان لے گئے۔

گھر سے دور رہ کر تعلیم حاصل کرنے میں اسے بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے جذبے میں کمی نہ آئی۔ ایف ایس سی کے امتحان سے فراغت کے بعد اس کے دوستوں نے میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لیے ٹیوشن سینٹر جانا شروع کردیا لیکن اس کے لیے ٹیوشن سنٹر کی فیس ادا کرنا ممکن نہیں تھا۔ وہ کئی دن پریشان رہا پھر ایک دن اس نے ہمت کی اور ملتان کی ایک معروف اکیڈمی میں چلا گیا وہاں اس نے اپنے معاشی حالات بتائے تو اکیڈمی کی انتظامیہ نے کہا، ہم تمھیں بلامعاوضہ تیاری کرادیں گے۔ 

ڈاکٹر بننا محمد جواد بھٹی کا خواب تھا ۔وہ روزانہ اٹھارہ گھنٹے پڑھتادل لگا کرامتحانات کی تیاری کی، انٹری ٹیسٹ میں اس نے اتنے نمبر حاصل کرلیے تھےکہ اُسے خصوصی طلبہ کے کوٹے پر داخلہ مل سکتاتھا۔با لآ خرکنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور میں خصوصی طلبہ کےکوٹےاپلائی کیااسے انٹر ویو کال موصول ہوئی تو اسے اپنی منزل قریب آتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ملتان سے لاہور تک کا سفر اس نے روشن مستقبل کے خواب بُنتے طے کیا۔

انٹر ویو کے لیے وہ رینگتا ہوا جب کمرے میں داخل ہوا تو بورڈ کے اراکین نے اسے یہ کہہ کر داخلہ دینے سے انکار کردیا کہ تم اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہوسکتے،ر مریضوں کا علاج کرنے کے لیے تمہارا فعال ہونا بے حد ضروری ہے۔ بورڈ کا فیصلہ سن کر وہ رونے لگا تو۔ بورڈ اراکین میں ایک آرتھو پیڈک سرجن بھی شامل تھا، اُس نے اسی وقت جواد کی ٹانگوں کا معائنہ کیا اور ساتھی اراکین کو بتایا کہ آپریشن سے محمد جواد بھٹی اپنے قدموں پر کھڑا ہوسکتا ہے۔

بورڈ نے اس سے وعدہ کیا کہ اگر وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوگیا تو اسے داخلہ دے دیا جائے گا۔انہوں نے محمدجواد بھٹی کے تقریباً پانچ ماہ میں چھ آپریشن کیے، وہ نشتر میڈیکل کالج میں داخل رہا۔ اس دوران میڈیکل کالجز میں داخلے ہوچکے تھے،اب اسے دوبارہ انٹری ٹیسٹ دینا تھا۔ انتہائی تکلیف دہ آپریشن کے باوجود وہ اسپتال کے بستر پر بھی پڑھتا رہا۔ ٹیسٹ سے دودن پہلے اس کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ اتنے بڑےصدمے اور پلستر چڑھی ٹانگوں کے ساتھ اس نے انٹری ٹیسٹ دیا اور دوبارہ بورڈ کے سامنے بیساکھیوں کے سہارے چل کر پیش ہوالیکن پھر اسے یہ کہہ کر داخلہ دینے سے انکار کردیا گیا کہ اس کے دونوں ہاتھ بیساکھیاں پکڑے ہوئے ہیں مریضوں کا علاج کیسے کرے گا۔

محمد جواد بھٹی پر وہ لمحہ قیامت بن کرٹوٹا اس نے بورڈ کو اپنی جدوجہد اور آپریشن کے تکلیف دہ حالات سنائے تو انہوں نے کہا کہ اگر تم ایک بیساکھی کے سہارے چل کر دکھادو تو ہم تمھیں داخلہ دے دیں گے۔ اس نے دو ہفتے مشق کی اور دوبارہ بورڈ کے سامنے پیش ہوگیا۔ اس کی کوششیں ثمر آور ہوگئیں اور اسے علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ مل گیا۔

محمد جواد بھٹی کے اہل خانہ میڈیکل کالج میں داخلے پر خوش تو تھے لیکن اخراجات کے حوالے سے پریشان بھی تھے۔ گھر میں ایک گائے تھی وہ بیچ کراس کا داخلہ کروا دیا گیا۔ ان تلخ لمحات میں وہ سوچنے لگا کہ جسمانی مشکلات پر تو قابو پالیا ہے، مگر مالی مشکلات کو کیسے مات دوں۔ لگن سچی ہو تو اللہ کہیں نہ کہیں سے مدد بھیج دیتا ہے، اسی دوران اسے ایک علم دوست ادارے کے بارے میں معلوم ہوا،اس نے اپنے حالات بتاکر تعلیمی وظائف کی درخواست دی۔اس کے عزم و ہمت کو سراہتے ہوئے اسے نہ صرف تمام تعلیمی اخراجات فراہم کیے گئے بلکہ خرچ طعام، کتب، آمدورفت اور علاج معالجے کے لیے بھی مالی اعانت فراہم کی گئی۔ اس کے عزم اور ہمت کی کہانی میڈیا پر نشر ہوئی تو علامہ اقبال کے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی تنظیم نے اسے ایک آٹو میٹک گاڑی بھی فراہم کردی۔

محمد جواد بھٹی کو اللہ تعالی نے اس کی جہد مسلسل اور جذبہ حصول علم کا اجر دے دیا۔ اس نے علامہ اقبال میڈیکل کالج میں پانچ سال مکمل اطمینان اور یکسوئی سے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا۔ اب وہ ڈاکٹر بن چکا ہے، اس کا خواب شرمندہ تعبیر ہوچکا ہے۔

محمد جواد بھٹی کی زندگی مایوسی کے شکار نوجوانوں کے لیے ایک مثال ہے۔ اس کی زندگی نوجوان نسل کو جہدِ مسلسل کی ترغیب دیتی ہے۔ مقصد حیات کو پانے کے لیے عزم و ہمت اور جہد مسلسل ہی آپ کی نیا پار لگا سکتے ہیں۔