• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حمیرا مختار

معاذ اور رخشی مقررہ وقت پر ایئرپورٹ پہنچ چکے تھے۔ ان کو رخصت کرنے کےلئے ان کے گھر والےآئےتھے۔ معاذ مکینیکل انجینئر اور اس کی بیوی رخشی نے سائیکالوجی میں ماسٹرز کیا تھا۔ معاذ کی ہمیشہ سے ہی ایک آرزوتھی کہ بیرون ملک سیٹل ہوجائے۔ اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے والدین اس کی خواہش کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کرتے تھے۔ وہ اسے اپنے سے جداکرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ 

شادی کے بعد رخشی کی صورت میں اس کو اپنا ہم خیال مل گیا تو اس نے اپنےاردے کوعملی جامہ پہنانے کے لئے کوششیں تیز کر دیں۔ ملک کے ابتر ہوتے معاشی، معاشرتی اور سیاسی حاالت نےانہیں اپنے ملک سے بدظن کر دیا تھا۔ والدین کی نگاہوں میں چھپے کرب اور بہتے آ نسوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے ،آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب سجائے ، اپنوں اور اپنےدیس کو خیر باد کہہ کر وہ دیار غیرروانہ ہو گئے۔

یہ کہانی صرف معاذ اور رخشی کی ہی نہیں ، آجکل ہردوسرا نوجوان اپنے ملک کےحالات سے خوفزدہ ، بیزار اور وہ یہاں سےفرار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دوسرے ممالک کی ترقی و کامرانی سے متاثر، بہتر طرز زندگی ، زیادہ آ مدنی، عزت کے حصول اور تحفظ کی خاطر وہ اپنے ملک کو چھوڑ کر جانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، اپنے وطن کی صورت حال سےمایوس ہوکرایک اونچی اڑان بھرنا چاہتے ہیں۔ پریشان کن بات یہ کہ 2023 کے صرف پہلے تین مہینوں میں دیارِ غیر جانے والوں کی تعدا میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ عمل تمام مسائل کا حل ہے؟

ہر انسان کی فطری خواہش ہوتی ہےکہ اس کے پاس اپنا گھر ہو جہاں سکون و راحت، آرام و آسائش ہو جس کے حصول کے لئے وہ جدوجہد کرتا ہے، اپنا وقت، صلاحتیں اور اپنی عمر کا بہترین دور صرف کرتا ہے۔ اس کی تعمیر سے لے کررہائش تک، اسے ضروریات زندگی سے مزین کرنے ، اس کی آ رائش و زیبائش کے لئے انتھک محنت کرتا۔ہے، پھر کہیں جا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے۔ کچھ نوجوان خوش نصیب ہوتے ہیں کہ انہیں اتنے پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے ۔ باپ، دادا کی محنت کا ثمر ان کو ملتا ہے۔ 

ان کا کام صرف اس کی بنیادوں کو مضبوط رکھنا اور وقت و ضروریات سے ہم آہنگ کرنا ہوتا ہے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ کیا 'پاکستان ہمارا گھر نہیں، کیا یہ ہمارے آباؤ اجداد کی جدوجہد اور قربانیوں کا ثمرنہیں؟ کیا ہم وہ خوش نصیب نہیں جن کو بغیر کسی تگ ودو کےایسا گلشن میسر آ یا ہے جس کو بس ہمیں سنوارنا اور اس کو قائم ودائم رکھنے کےلئے اپنا کردار ادا کرنا ہے؟ ایک گھر کی ہی مثال سے سمجھ لیں کہ افراد مل جل کراپنی ذمہ داریاں بانٹ کر گھر کا انتظام چلاتےہیں، تو پھر اپنے وطن کے لیے ایسا کیوں نہیں سوچتے، ذمہ داریوں کو کیوں بوجھ سمجھتے ہیں ، کیوں اس کو بہتر طور پر سرانجام دینے کی کوشش نہیں کرتے۔ 

گھر میں کسی قسم کا نقص نظر آنے یا ٹوٹ پھوٹ جانے کی صورت میں گھر کے مکین اس کی مرمت کرنے اور اس نقص کو دور کرنے کے لئےکوشاں نظر آتے ہیں۔ وہ گھر جو اتنی چاہتوں سے، قربانیوں کے بعد حاصل ہو، اس سے غفلت نہیں برتی جاتی، اس کو اس کے حال پر نہیں چھوڑ دیا جاتا۔ پاکستان بھی وہ گھر ہے جو آباؤ واجداد کی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔ آج کےنوجوانوں کو اس کا ادراک ہونا چاہئے۔ یہاں آپ پلے بڑھے، جوان ہوئے ہیں، آ پ کی قابلیت، صلاحیت اس ہی کی مرہون منت ہے۔ اب جب اس ملک کو آ پ کی ضرورت ہے تو بیرون ملک جانے کی ضد کر تے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ اس ملک کو آپ کی ذہانت، تعلیم ، تجربہ، ہنر اور مہارت کی اشد ضرورت ہے۔

وہ اس سے مستفید ہونے کے بجائے الٹا محروم ہو رہا ہے ۔ اب تو ہمارے اساتذہ بھی دیارِ غیر اپنا علم بانٹ رہے ہی ں،ان کو مشوروں اور قابلیت سے دوسرے مستفید ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹرز، نرسز اور دوسرے ہیلتھ ورکرز کی ملک میں عدم موجودگی کےباعث صحت کا نظام بھی بگڑتا چلاجا رہا ہے۔ اسی طرح ہمارے بہترین سائنسدان، انجینئر بھی ملک کو اپنی خدمت پیش نہیں کررہے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ جب ملک کا ہرشہری اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہو، انھیں سمجھے تب ہی تووہ ملک و قوم کے لئے مفید ثابت ہو گا ،اس کی ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کر سکے گا۔ یہ درست ہےکہ وسائل کی کمی ہے، روزگار کےمواقع میسر نہیں، ناانصافیاں بھی ہیں لیکن ان سب سے مایوس ہو کر اپنے گھر کو چھوڑ جانا کہاں کی دانشمندی ہے۔

بڑے پیمانے پرنہ سہی 'اپنی مدد آ پ کے تحت کم از کم گلی محلے سےہی کوئی کام شروع کیا جاسکتا ہےمثلاََ اپنے گھر میں یا علاقے میں کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں، کوچنگ سینٹر کھول لیں دیگر ایسے بہت سے کام شروع کر کے تو دیکھیں چھوٹے کام بڑے اثرات نہ بھی رکھیں، انسان کو شعوری اطمینان وتسکین تو فراہم کرتے ہیں۔ دیار غیرمیں مزاج کےخلاف کام کاج کرنے سے بہتر نہیں کہ انسان اپنے ملک میں ہی کوئی چھوٹا موٹا کام شروع کر کے عزت کی روٹی کمائے۔ بس ہمت کر کے آگے قدم بڑھانا ہے۔

تمھارے عزم سے دنیا بدل جائے گی

قدم بڑھاؤ کہ منزل قریب آئے گی

نوجوان اس باغ کی آبیاری کے لئے اپنے وجود کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں تو وہ وقت دور نہیں جب ان شاءاللہ حالات بدلنے شروع ہو جائیں گے۔ اپنی دھرتی ماں سے جڑے رہنے کا خوبصورت احساس کسی نعمت سے کم نہیں۔