اسلام آباد(فاروق اقدس/جائزہ رپورٹ) دہشت کی علامت اٹک جیل میں جب نواز شریف قید ہوئے تو ان کیلئے یہاں اذیتیں تھیں جبکہ ‘‘عمران کیلئے یہاں B کلاس کی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں، میاں شہباز شریف اور حسین نواز سمیت متعدد سیاستدان اٹک جیل میں اسیر رہے ، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور پشاور کے وسط میں جی ٹی روڈ پر واقع دریائے سندھ( اٹک)کے کنارے پر واقع’’ اٹک کا قلعہ‘‘ ماضی بعید کی تاریخ کے حکمرانوں سےمنسوب کہانیوں اور داستانوں سے آراستہ ہے جبکہ عہد حاضر میں اس قلعے کی دہشت بالخصوص ملک سے غداری کے مرتکب اور افواج پاکستان کیخلاف سازشوں اور بغاوتوں کی منصوبہ بندی کرنیوالوں کو گمنام کر کے اس قلعہ میں اذیتیں دیئے جانے کے حوالے سے معروف ہے جبکہ بعض محب وطن سیاستدانوں کو سزائیں دینے کے حوالے سے بھی کئی واقعات موجود ہیں۔ جن میں2000 میں جب جنرل پرویز مشرف نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تو میاں نواز شریف کو M.I.8 ہیلی کاپٹر کیس میں سزا سنا کر انہیں اٹک قلعہ میں پابند سلاسل کردیا گیا جہاں وہ ہفتوں دن کی روشنی دیکھنے سے بھی محروم رہتے تھے اور حد تو یہ تھی کہ ان کیخلاف مقدمہ چلانے کیلئے احتساب عدالت بھی اٹک قلعہ میں قائم کردی گئی تھی۔ اوراب اٹک کا تذکرہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان جنہیں سانحہ 9 مئی کے بعد مسلسل عدالتوں کا سامنا ہے انہیں توشہ خانہ کیس میں سزا سنا کر اٹک کی ایک جیل میں بھیج دیا گیا اطلاعات کے مطابق جہاں انہیں بی کلاس دی گئی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو گرفتاری کے بعد کہاں منتقل کیا جائے گا،گو کہ اس حوالے سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں تمام انتظامات مکمل تھے اور ان خصوصی انتظامات کو ہنگامی طور پر مطلوبہ انداز میں فعال کرنے کے حکم ملنے پر محض چند گھنٹے درکار تھے کیونکہ عام تاثر یہی تھا کہ پاکستان کے ممتاز سیاستدان جو اس سے قبل راولپنڈی کی سنٹرل جیل کے مہمان رہ چکے ہیں۔