ارسلان خان، بن قاسم ٹاؤن، کراچی
ہم ہر سال اپنا یومِ آزادی انتہائی جوش و خروش، زور و شوراوربہت دھوم دھام سےمناتے ہیں اور کیوں نہ منائیں یہی وہ مبارک دن ہے، جب ہم نے اَن گنت قربانیوں کے بعد، اسلام کے نام پر ایک علیحدہ وطن حاصل کیا۔ پاکستان کے قیام کی بنیاد دراصل ’’دو قومی نظریہ‘‘ ہے، جو سب سے پہلے ابو ریحان البیرونیؒ نے پیش کیا، پھر حضرت مجدّد الف ثانیؒ المعروف شیخ احمد فاروقی سرہندیؒ نے دَورِ اکبری میں ہندوؤں کے اثر و رسوخ کو زائل کیا کرنے کے لیےاِسےزندہ کیا۔ اُس کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے مرہٹوں کے خلاف احمد شاہ ابدالیؒ کو خط لکھ کر جہاد کی دعوت دی اور ایک بار پھر دو قومی نظریہ پیش کیا۔ بعدازاں، 1857ءکی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد ہندوؤں نے اُردو کے مقابلے میں ہندی کی بات کی، تو اُردو، ہندی تنازع اُٹھ کھڑا ہوا۔
ایسے میں مسلمانوں کے سیاسی رہنما سر سید احمد خانؒ نے پہلی بار با قاعدہ مربوط انداز میں ’’دو قومی نظریہ‘‘پیش کیا۔ آگے چل کر علّامہ اقبالؒ نے سن 1930ء کے خطبۂ الہ باد میں پاکستان کا جغرافیائی نقشہ پیش کرکے اس کے قیام کی پیش گوئی فرمائی۔یوں، اقبالؒ، پاکستان کے مصوّر ومُبشّر ٹھہرے۔ پھر اقبالؒ ہی کے ایماء پر قائدِ اعظم نے پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر کر دکھایا۔بہرکیف، آج ہم ایک آزاد مملکت کے باسی ہیں اور پچھلے 75 برسوں سے مُلک کا جشنِ آزادی پورے تزک و احتشام سے منارہے ہیں۔
ایک زمانے میں یومِ آزادی کے موقعے پرتقریری و تحریری مقابلے منعقد کروانے کا چلن عام تھا۔ اسکولز ، کالجز کی سطح پرملّی نغموں، ٹیبلوز، بیت بازی اور کوئز وغیرہ کےمقابلوں کا انعقاد کیا جاتا۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ یومِ آزادی، ’’جشن ِآزادی‘‘ میں تبدیل ہوگیا اور پھر اس جشن میں ایسی ایسی خرافات شامل ہوتی چلی گئیں، جو قیامِ پاکستان کی رُوح ہی کے سراسر منافی ہیں۔ آج نسلِ نو کے لیے 14اگست(یومِ آزادی) کا مطلب ہی شور شرابا، ہلّا گُلّا، بےہودہ ناچ گانا،باجے بجانا رہ گیا ہے۔
کچھ مَن چلے نوجوان بائیکس سے سائلینسر نکال کر ریس لگاتے ہیں، تو تفریحی، تاریخی مقامات وغیرہ میں لڑکیوں کے ساتھ بدتمیزی کے واقعات بھی رُونما ہوتے ہیں، حالاں کہ جشنِ آزادی منانے کا حقیقی مقصدیہ ہے کہ ہم پاکستان سے سچّی محبت کا اظہار کریں۔ اِسے اسلام کا گہوارہ بنانے، دَورِ نبوّت ﷺ اور خُلفائے راشدین کے زمانے کی اسلامی ریاست، فلاحی مملکت بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کہا جاتا ہے کہ نوجوان کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن صد افسوس کہ آج ہماری نوجوان نسل کی اکثریت نے جشنِ آزادی کو محض سیر وتفریح ، آوارہ گردی اوربےہنگم اُچھل، کُودشور شرابےکا دن مان لیا ہے۔
اور…نوجوانوں کی اکثریت کی یہ غیر سنجیدگی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ہمارے یہاں نوجوان نسل کی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں۔ ہم صرف تعلیم کی بات کرتے ہیں، جب کہ قوموں کی اصلاح کا اصل میدان تربیت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے نوجوان ایک ایسے معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں، جہاں تعلیم سے عملی زندگی تک ہر جگہ دُہرا معیار پایا جاتا ہے۔ جیسے’’جھوٹ بولنا بُری بات ہے‘‘ ہر بچّے کو سکھایا جاتا ہے، مگر گھروں ہی میں اس کی عملی تصویر نظر نہیں آتی۔ لوگ دھوکا دینے کو غلط گردانتے ہیں، لیکن خود کسی کودھوکا دیتے وقت ایک بار بھی نہیں سوچتے، تو ایسے ماحول میں لا محالہ ہمارا نوجوان ذہنی اُلجھاؤ کا شکارہی ہوتا ہے۔
کوئی قوم خودانحصاری کے بغیر دُنیا میں اپنا مقام نہیں بنا سکتی اور نوجوانوں میں خود انحصاری کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے ہمیں علّامہ اقبالؒ کے کلام سے بہت مدد مل سکتی ہے۔ لیکن آج کے دَور میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ انٹرنیٹ،سوشل میڈیا اور اسمارٹ فونز نے ہماری حیات کو یرغمال بنا کر رکھ دیا ہے۔ امام شافعیؒ نے کہاتھا کہ ’’وقت تلوار ہے۔‘‘جب کہ آج ہمارے نوجوان کا سارا وقت موبائل کی نذر ہورہا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے، ایک طرف معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اورمنہگائی کے ساتھ پانی، بجلی، صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے، تو دوسری جانب کرپشن، اقربا پروری، ناقدری جیسے مسائل بھی عفریت بن کر کھڑے ہیں۔
ایسی صورتِ حال میں نوجوانوں میں مایوسی، نااُمیدی کے جذبات دَرآنافطری بات ہے، جسے اقبالؒ کے فلسفۂ خودی کے ذریعے اُمّید میں تبدیل کیا جاسکتا ہےکہ اقبال ؒ نے نوجوانوں کو ”شاہین“ قرار دیا۔وہ ضربِ کلیم میں کہتے ہیں ؎ شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گِرتا…پُر دَم ہے اگر تُو، تو نہیں خطرۂ اُفتاد۔اور شاہین کی پانچ خوبیوں کی وجہ سےاقبال ؒ نےمسلم نوجوان کو شاہین سے تشبیہہ دی۔ بُلند پرواز، تیز نگاہ،خلوت پسندی،آشیانہ نہ بنانا اور کسی اور کا کیا ہوا شکار نہ کھانا۔ علّامہ اقبال یہی پانچ خصوصیات ملّتِ اسلامیہ کے نوجوانوں میں بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان نوجوان شاہین صفت ہوں۔ یہ نوجوان ایسے ہوں، جنھیں دیکھ کر قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوجائے۔
وہ اس بات کے خواہاں تھے کہ ہماری نسلِ نو دوسری قوموں کے نوجوانوں کے مقابلے میں اپنے اعمال،اخلاق اور کردار سے نمایاں نظر آئے۔ ایک مسلمان نوجوان کی یہ شان نہیں کہ وہ تقدیر کا بہانہ بناکر تدبیر سے ہاتھ اُٹھالے۔ اقبالؒ کے فلسفۂ خودی کے مطابق نوجوانوں کی کام یابی عملِ پیہم، اپنے آپ پر بھروسے،اپنے مقصد سے عشق، کچھ کر دکھانے کے جنون اور آگے سے آگے بڑھنے کی جُستجو میں ہے اور جب جوانوں میں خودی کا جذبہ جنم لیتا ہے تو بقول اقبال؎ اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی…ہو جس کے جوانوں کی خودی صُورتِ فولاد۔
آیئے، اِس جشن ِ آزادی کے موقعے پر ہم یہ عہد کریں کہ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ فلاحی ریاست بنائیں گے۔ ایک ایساپاکستان، جہاں جہالت، غربت، انتہا پسندی نہ ہو، جہاں مسلک، زبان، قوم، قبیلے، مذہب یا فرقے کی بنیاد پر کسی کاخون نہ کیا جائے۔ جہاں تعلیم و تربیت کو اوّلین ترجیح حاصل ہو۔ جہاں مَردوں کے ساتھ خواتین کو بھی تعلیم و تربیت اور آگے بڑھنے کے یک ساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ جہاں ایک اُستاد کی ویسی ہی عزّت ہو، جیسی قرون ِ اولیٰ میں ہوتی تھی۔
جہاں اختلافِ رائے کا احترام کیاجائے۔ ہر مُسلمان کا یہ تصوّر، سوچ ہو کہ اُس کی ذات سے کسی دوسرے کو کوئی تکلیف نہ پہنچے،جہاں صرف کوئی مخصوص طبقہ نہیں بلکہ ہر فرد معتدل، منظّم اور مربوط انداز میں ترقّی کی راہ پر گام زن ہو۔ نوجوان خودی کے جذبے سے سرشار ہوں اور دنیا ایک ایسا پاکستان دیکھے، جسے دیکھ کر حقیقتاً اسلامی ریاست کا گمان ہو۔