راولپنڈی(اپنے رپورٹرسے)لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کے جسٹس انوار الحق پنوں نے شہر یار آفریدی کے نظربندی کے احکامات اسلام آباد سے جاری ہونے پر اور ان کے بھائی فرخ جمال آفریدی کو رہا کرنے پر دونوں کی رٹ پٹیشنز نمٹا دیں۔عدالت عالیہ نے سماعت میں وقفہ کرکے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل اسد وڑائچ کوطلب کیا تھا جہنوں نے پیش ہوکر بتایا کہ شہر یار آفریدی اڈیالہ جیل میں ہیں۔عدالت عالیہ نے دیگر نظر بند درخواست گزاروں عصمت اللہ،عاشر محمود،سکندر اقبال کے نظر بندی کے احکامات ختم کرتے ہوئے ہدایت کی کہ درخواست گزار رہا ہونے کے تین دن کے اندر اندر بیان حلفی جمع کرائیں گے کہ آئندہ کسی متشدد سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گے۔عدالت عالیہ نے ہائی کورٹ بار راولپنڈی کے صدر تنویر اقبال خان کو طلب کرکے ہدایت کی کہ وہ بیان حلفی کے معاملہ میں درخواست گزاروں اور انتظامیہ کے مابین کوارڈینیشن کریں۔عدالت عالیہ نے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ضمانتیں منظور ہونے یا نظر بندی کے احکامات کالعدم قرار دئیے جانے کے باوجود کیسے انہوں نے سیاسی ورکرز کو نظربند کررکھا ہے۔جس پر ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے موقف اختیار کیا کہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی سفارشات پر احکامات جاری کئے گئے۔عدالت عالیہ نے استفسار کیا کہ کیا مواد پیش کیا گیا نظربندی کیلئے جس کا ڈی سی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔عدالت عالیہ نے پھر استفسار کیا کہ اس وقت کتنے نظر بند جیلوں میں جن کے احکامات ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے جار ی کئے تو بتایا گیا کہ اس وقت57نظر بند ہیں۔عدالت عالیہ نے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کو ہدایت کی کہ تمام سے بیان حلفی لیں ۔دوران سماعت عدالت عالیہ نے ریمارکس دئیے کہ اگر ان میں سے دوبارہ کسی کو نظر بند کرنا ہے تو پہلے عدالت عالیہ میں اس کے خلاف مواد پیش کیاجائے ۔ اگر عدالت اجازت دے گی تو گرفتار کیا جائے گا۔فرح جما ل آفریدی کو رہائی کے بعد نامعلوم افراد کے حوالے کرنے درخواست گزار کے وکیل کے بیان پر عدالت عالیہ نے کہا کہ ریاست ہو گی ماں کے جیسی ،ماں کو پتہ ہونا چاہئے کہ بیٹا کہاں ہے، مائیں دو طرح کی ہوتی ہیں، ریاست دوسری طرح کی ماں نہ بنے ۔عدالت عالیہ نے ریمارکس دئیے کہ سرکاریں بدلتی رہتی ہیں۔کل کون جیل میں تھا آج کون جیل میں ہے۔ایسا کلچر نہ پروان چڑھائیں۔بہت ہوچکا عدالتی احکامات کو بلڈوز کیا جارہا ہے یہ طریقہ درست نہیں۔معاشرے کو پرامن دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اندھے نہیں۔ہمیں سنائی نہیں دیتا، ہمیں احساس نہیں ہوتا؟ایسے ملک کا خواب نہیں دیکھا۔اختیارات کا غلط استعمال ہے۔شخصی آزادیوں کے حق میں ہوں۔سیاسی ورکر زیادہ قابل عزت ہے۔کوئی ایسا آرڈر پاس نہیں کرنا چاہتے جسے کوئی بدمزگی ہو۔