• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان: محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی

 کشمیریوں کی تحریک زور پکڑ رہی ہے لوگ سست ہوگئے تھے لیکن بھارتی اقدام سے نیا جوش پیدا ہوا ہے، نئے سرے مشاورت کررہے ہیں، تمام کشمیری دنیا بھر میں آواز بلند کررہے ہیں کہ ان کی بے چینی عالمی برادری کو نظر آئےامید ہےجلد معاملات مثبت سمت کی طرف جائیں گے، بلاول بھٹو نے اقوام متحدہ، او آئی سی، آزاد کشمیر کے مشترکہ اجلا س میں کہا کہ رائے شماری کی جائے جو عالمی برادری چاہتی ہے ہم کشمیریوں کےلیے ان کایہ کہنا کافی ہے، خوش ہوں کہ ہندوستان میں مودی حکومت ہےکیوں کہ اس کی وجہ سے شیخ فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی سمیت وہ تمام کشمیری رہنما جو اس موضوع پر بات نہیں کرتے تھے سب متحد ہوکر بات کررہے ہیں، کشمیری بنیادی طور پر امن پسند قوم ہیں۔

سردار محمد یعقوب خان(سابق صدر/ سابق وزیراعظم، آزاد کشمیر)
 سردار محمد یعقوب خان
(سابق صدر/ سابق وزیراعظم، آزاد کشمیر)

ہماری خواہش ہے کہ بھارت کو بات سمجھ آجائے جس کے لیے کشمیری کوششیں کررہے ہیں، اس خطے کو امن کی ضرورت ہے یعنی انڈیا، پاکستان، چین اور افغانستان سب کو۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق نریندر مودی نے سعودی عرب اور یو اے ای کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ پلوامہ جیسا واقعہ دوبارہ ہو تاکہ اسے سیاسی طور پر فائدہ پہنچے، پاکستان کو اس کے جال میں نہیں آنا چاہیے، مسئلہ کشمیر میں کشمیری سب سے اہم فریق ہیں، دونوں ملک کشمیری لیڈر شپ کے ساتھ بیٹھیں اورتنازعہ کا فیصلہ کریں، کشمیریوں کے ساتھ گفتگو کئے بغیر کوئی بات چیت کامیاب نہیں ہوسکتی ، اگر کشمیریوں کو آزادی چاہیے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر پرامن جدوجہد کرنی پڑے گی، ہمیں جنگ کے بجائے امن کےلیے پیش رفت کرنی پڑے گی ،ہمیں سماجی ،سیاسی اور معاشی اتحاد کی ضرورت ہے۔

سردار محمد یعقوب خان

ہندوستان نے غیر آئینی اقدامات کیے جو خود بھارت کے آئین کے خلاف ہے کہ وہ کشمیر اسمبلی کی اجازت کے بغیر ایسا کچھ نہیں کرسکتے تھے ،بھارت نےکشمیر اسمبلی کو بائی پاس کرکےگورنر راج نافذ کرکے مودی ازم راج کردیا ہے، معاملہ بھارتی سپریم کورٹ میں گیا ہے امکان ہے کہ شاید یہ فیصلہ واپس ہوجائے، دنیا میں مودی حکومت کا انتہا پسندانہ تاثر بڑھ رہا ہے مودی بڑا نسل پرست اور اقلیتوں کے خلاف اور ہندوازم کا بڑا چیمپئن وزیراعظم کے طور پر دیکھا جارہا ہے، منی پور کے واقعے نےمودی سرکار کا چہرہ مزید بے نقاب کیا ہے، ایسے واقعات کشمیر سمیت دیگر علاقوں میں تو ہوتے ہی رہتے ہیں، کشمیر میں تو انہوں نے بہت برا سلوک کیا ہوا ہے۔ 

سردار محمد اشرف خان(سابق صدر، آزاد کشمیر چیمبر آفکامرس اینڈ انڈسٹری/سیاسیاور معاشی تجزیہ کار)
 سردار محمد اشرف خان
(سابق صدر، آزاد کشمیر چیمبر آف
کامرس اینڈ انڈسٹری/سیاسی
اور معاشی تجزیہ کار)

 مسئلہ کشمیر کے لیے پاکستان کی نہ کوئی پالیسی ہے اور نہ حکمت عملی، وہی پرانی گھسی پٹی لائن حق خودارادیت چل رہا ہے جس کے حق میں نہ پاکستان ہے اور نہ انڈیا، اقوام متحدہ نے 1948 میں کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیا تھا لیکن اقوام متحدہ میں بھی اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ،1948 کی قرارداد مردہ قرارداد ہے اس پر کوئی عمل نہیں کرسکتا، پاکستان کاموقف کمزور، بین الاقوامی سطح پر بھارت کی وجہ سے نہیں خود اپنی وجہ سے ہوا ہے، خاص طور پر افغان جنگ کے بعد سے پاکستان فوجی اور معاشی طور پر بہت کمزور ہوگیا ہے، عالمی سیاست میں جو ملک معاشی اورسیاسی طور پر کمزور ہوتا ہے اس کی کوئی نہیں سنتا ہے، پاکستان نے کشمیر سےعسکریت پسندی کا خاتمہ کرکے خود کو بڑی مشکلات سے نکال لیا ہے، ہندوستان اور پاکستان کو کچھ عرصے کےلیے اپنے تمام تنازعات سے ہٹ کر علاقائی تعاون کے لیے بڑھنا پڑے گا اس میں چین کی بھی دلچسپی ہے کیوںکہ وہ کبھی بھی ہندوستان سے جنگ نہیں چاہتا۔

سردار محمد اشرف خان

ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کشمیر بنے گا پاکستان، آج سےچار سال پہلے بھارت نے اپنے آئین سے دفعہ370 کا خاتمہ کرکے دنیا کے دکھاوے کے لیے دی گئی مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی تھی، اس کے بعد اب کیا صورت حال ہے اس کے مقبوضہ کشمیر پر کیا اثرات پڑے ہیں ان حالات میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے تھا، بھارتی سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ گیا ہے جس کی سماعت کا بھی آغاز ہوگیا ہے، دوسری طرف عالمی برادری مسئلہ کشمیر کو اب کیسے دیکھ رہی ہے خاص طور پر پچھلے چار سال میں ان کا رویہ کیسا رہا ہے،پاکستان نے نئے حالات میں کشمیر پر اپنا مقدمہ کیسے لڑا اور وہ رائے عامہ اپنے حق میں کرنے میں چار سالوں میں کتنا کامیاب رہا اور اگر نہیں تو ناکامی کون سی وجوہات ہیں اور اسے ایسے کون سے اقدامات لینے چاہیے تھے جس سے ہمیں مسئلہ کشمیر پر زیادہ بہتر نتائج ملتے،اپنی گفتگو میں ان تمام امور کا جائزہ لیں گے۔ 

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بطور وزیرخارجہ بھارت کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے وہاں بیٹھ کر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پرکڑی تنقید کی ہے ان کی گفتگو کے اثرات کا بھی جائزہ لیں گے، مقبوضہ کشمیر میں امن و امان کی صورت حال کیسی ہے مسئلہ کشمیر کے سبب پچھلے چار سال میں بھارت کاجمہوری چہرہ کتنا مسخ ہوا ہے،ایسے بہت سے سوالات کے جواب معلوم کرنے اور موجودہ حالات پر گفتگو کے لیے ہمارے ساتھ شریک گفتگو ہیں سردار محمد یعقوب خان (سابق صدر/ سابق وزیراعظم، آزاد کشمیر/رہنما،پاکستان پیپلزپارٹی) اور سردار محمد اشرف خان (سابق صدر، آزاد کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری/سیاسی اور معاشی تجزیہ کار) ہم اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔

جنگ: مقبوضہ کشمیر کےلیے آرٹیکل370 کے خاتمے کے بھارتی اقدام سےبھارت اور پاکستان میں اس کے کیا اثرات پڑے ہیں۔

سردار محمد اشرف خان: آرٹیکل 370 کے حوالے سے میری سوچ قدرے مختلف ہے،دفعہ 370 بھارتی آئین کا حصہ ہے جو 1950 سے شامل ہے،اس آرٹیکل کے مطابق کشمیر کی ریاست کا  صدر تھا وزیراعظم ہوتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ عہدے علامتی رہ گئے تھے، اب صرف کچھ معمولی خصوصی اسٹیٹس باقی رہ گیا ہے جیسے کشمیر میں صرف کشمیری ملازمت کرسکتا اور کوئی غیر کشمیری وادی میں جائیداد نہیں خرید سکتا وغیرہ وغیرہ،لیکن درحقیقت دفعہ 370 سے ملے اختیار کا پہلے ہی خاتمہ ہوگیا تھا صرف ایک تشخص تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی خود مختار ہے اس کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا جسے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ختم کردیا ہے، مودی کے فیصلے سے پہلے ہی پاکستانی حکومت اور ریاست دونوں اس فیصلے میں ہمنوا تھے اور میں سمجھتا ہوں جو کچھ ہوا ان کی مرضی سے ہوا،کیوں کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے بھارتی الیکشن سے پہلے مودی سے ملاقات کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ میں پٹھان آدمی ہوں جو بھی وعدہ کرتا ہوں پورا کرتا ہوں میں وزیراعظم بننے جارہا ہوں فوج میرے ساتھ ہے۔

جنگ: آپ یہ کیسے سمجھتے ہیں بھارت نے دفعہ 370 کا خاتمہ اور اس کے بعد جو کچھ کیا سب میں پاکستان کی مرضی شامل رہی؟

سردار محمد اشرف خان: جی ہاں بالکل مجھے اس میں رتی برابر بھی کوئی شک نہیں کہ ایسا نہیں ہوا ،آپ اگر خود اس کے بعد کی پوری صورت حال کا جائزہ لیں تو آپ کو پاکستانی حکومت اور ریاست دونوں نے بہت ہی کمزور ردعمل دکھایا ہے۔

جنگ : آپ کے خیال میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سےریاست کی اس کے پیچھے کیا سوچ ہوسکتی ہے؟

سردار محمد اشرف خان: اس پر ہم خاص طور پر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں یا ابھی کے حالات میں یہ بحث ہوسکتی ہے کشمیر پر پاکستا نی ریاست کی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی پالیسی کیا ہے ۔ حقیقت میں کشمیر یا کسی اور معاملے پر بھی پاکستان کی پالیسی کیا ہے وہ جی ایچ کیو سے گزرکر نکلتی ہے، جی ایچ کیو میں اسے محدود دائرے میں رکھا ہوا تھا۔

باجوہ صاحب کے دور میں غور کیا گیا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو ہم کس طر ح بہتر کرسکتے ہیں اور علاقے میں معاشی تیزی کےلیے کچھ کریں، تنازعات کچھ عرصے کےلیے پیچھے کردیں، مشرف کے دور میں بھی اس طرح کچھ کام ہوا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں بھارت کی مود ی سرکار نے بیرونی طاقتوں سے جو وعدے کیے تھے خاص طور پر سعودی عرب یوا ے ای اور امریکا کو یقین دہانیاں کروائیں، اس نے اس پر عمل نہیں وہ سب کھا گیا، اسے جیسے ہی موقع ملا کہ پاکستان اب کچھ نہیں کرسکتا تو انہوں نے خود کو مضبوط کرکے کشمیر کو اپنی ریاست میں ضم کردیا،اب اگر دفعہ 370بحال ہو بھی جائے تو اس سے ریاست کے اسٹیٹس پر تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اس لیے ہندوستان نے غیر آئینی اقدامات کیے جو خود بھارت کے آئین کے تحت ہے کہ کشمیر اسمبلی کی اجازت کے بغیر ایسا کچھ نہیں کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا کیا،کشمیر اسمبلی کو بائی پاس کرکےگورنر راج نافذ کرکے مودی ازم راج کردیا ہے۔ تاہم معاملہ بھارتی سپریم کورٹ میں گیا ہے امکان ہے کہ شاید یہ فیصلہ واپس ہوجائے۔

دوسری طرف دنیا میں اب مودی حکومت کا انتہاپسندانہ تاثر بڑھ رہا ہے مودی ایک بڑا نسل پرست اور اقلیتوں کے خلاف اور ہندوازم کا بڑا چیمپئن وزیراعظم کے طور پر دیکھا جارہا ہے،حالیہ منی پور کے واقعے نےمودی سرکار کا چہرہ مزید بے نقاب کیا ہے، ایسے واقعات کشمیر سمیت دیگر علاقوں میں تو ہوتے ہی رہتے ہیں، کشمیر میں تو انہوں نے بہت برا سلوک کیا ہوا ہے۔ اب تو ہندو انتہا پسند بھارتی حکومت کی پشت پناہی پر یہ کہتے ہیں کہ ہم کشمیر ی لڑکیوں سے شادی کریں گے تو بہت گھناونا رویہ اختیا رکیا ہے۔

ان سب کے باوجود پاکستانی حکومت کے پاس کچھ کرنے کی طاقت بھی نہیں تھی اگر کچھ کرنے کی ہمت ہوتی تو جو پلوامہ کا واقعہ ہوا تھا اس پر پاکستان کا ردعمل سخت ہونا چاہیے تھا، اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جو اب آرمی چیف ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جواب میں پاکستان کے جہاز وہاں پہنچ گئے تھے لیکن انہوں نے بمباری نہیں کی وہ بڑی غلطی تھی۔

جنگ: بھارت کے دفعہ 370 کے خاتمے پر جوابی طور پر پاکستان کی اس وقت کی حکومت نےہفتہ وار علامتی احتجاج کا آغاز کیا تھا کیا وہ کافی تھا یا ہم کچھ اور بھی کرسکتے تھے؟

سردار محمد اشرف خان: پاکستان اس کے علاوہ بہت کچھ کرسکتا تھا، لیکن مسئلہ کشمیر کےلیے پاکستان کی اول تو کوئی پالیسی ہی نہیں ہے، کوئی حکمت عملی نہیں ہے وہی پرانی گھسی پٹی لائن پر حق خودارادیت چل رہاہے جس پر نہ پاکستان اور نہ انڈیا دونوں ہی حق میں نہیں ہیں، کیوں کہ یہ طے ہے کہ وادی جموں و کشمیر اور لداخ کے لوگ نہ پاکستان کی حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی کسی اورکی۔

جنگ: کشمیر بنے گا پاکستان ہم بچپن سے یہ نعرے سنتے ہیں تو پھر اس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

سردار محمد اشرف خان: آزاد کشمیر کے لوگوں کو بیو قوف بنانے کےلیے یہ صرف سیاسی نعرہ ہے در حقیقت اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

جنگ: مسئلہ کشمیر توہمیشہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ریاست یا اسٹیبلشمنٹ کے مقصد کا لازمی اہم جزوہے؟

سردار محمد اشرف خان: یہ صرف نعرے کی حد تک ہے، کشمیر آپ کی پالیسی کا لازمی جزو تھا لیکن پھر آپ1948 میں 1965 میں 1971 میں اور پھر کارگل میں ہارے، اتنی ناکامیوں کے باوجود بھی اگر وہی پرانی پالیسی جاری ہے تو یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی،دراصل ہماری کوئی پالیسی ہی نہیں ہے کشمیریوں کی اپنی خود کوئی پالیسی نہیں ہے۔

جنگ: دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد بھارت نے اپنا نیا نقشہ جاری کردیا ہے جس میں مقبوضہ کشمیر ان کا حصہ دکھایا گیا ہے جب کہ اس سےپہلےکشمیر متنازعہ علاقہ سمجھاجاتا تھا۔ تو دفعہ 370 کا خاتمہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بہت بڑی ناکامی نہیں ہے؟

سردار محمد اشرف خان: اقوام متحدہ نے1948 میں کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیا تھا لیکن اقوام متحدہ میں بھی اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، 1948 کی قرارداد مردہ قرارداد ہے اس پر کوئی عمل نہیں کرسکتا،جو کمیشن بنا تھا وہ کہتا ہے کہ ہم نے جاکر ہندوستان اور پاکستان سے بات کی ہےلیکن نہرو نے کہا تھا کہ آ ٓپ فکر نہ کرو میں اس سے نمٹ لوں گا تواس کی کوئی حیثیت نہیں ہے سوائے نعرے لگانے کےلیے ہے۔

جنگ: بھارت نے تو فائدہ اٹھالیا اپنے نقشے میں کشمیر کو اپنا حصہ بتا یا ہے جو پہلے نہیں تھاوہ حصہ متنازعہ تھا؟

سردار محمد اشرف خان: کشمیر کےمتنازعہ ہونے کا معاملہ ختم نہیں ہوا ہے، بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ ہے جسے شملہ معاہدہ کہا جاتا ہے جس کے تحت یہ دو طرفہ معاملہ ہے یہ تنازعہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہے، شیخ فاروق عبداللہ اور یاسین ملک دونوں بھی یہ کہتے ہیں کہ دونوں ریاستیں بات کریں ان میں سے کوئی نہیں کہتا کہ کشمیر آزاد کریں ،مقبوضہ کشمیر کے دور ہنما فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیل میں ہیں ایک مرتبہ ہی کہتے کہ ہم کشمیرکو آزاد چاہتے ہیں، اصل تو وہ لوگ ہیں سارا جھگڑا وہاں کا ہے ہمارا آزاد کشمیر صرف 8 ہزار مربع میل ہے اس کا کوئی کیا کرے گا، پاکستان کا موقف کمزور بین الاقوامی سطح پر بھارت کی وجہ سے نہیں پاکستان کی اپنی وجہ سے ہوا ہے، خاص طور پر افغان جنگ کے بعد سے پاکستان فوجی اور معاشی طور پر بہت کمزور ہوگیا ہے، عالمی سیاست میں جو ملک معاشی اور سیاسی طور پر کمزور ہوتا ہےاس کی کوئی نہیں سنتا ہے ورنہ پاکستان دنیا کے ہر معاہدے میں شامل ہے1948 سے اب تک دنیا میں جتنے بھی معاہدے ہوئے پاکستان شامل ہے، لیکن دوسری پاکستان کی اقتصادی اور سیاسی صورت حال ہے اس کی پالیسیاں جس میں عسکریت پسندی وغیرہ اس نے پاکستان کو تباہ کردیا ہے اور پاکستا ن کچھ نہیں کرسکتا۔

جنگ: دوہزار انیس میں بھارت نے 370 کا خاتمہ کرکے کشمیر کا اسٹیٹس تبدیل کرنے کی کوشش کے بعد اور اس سے پہلے آپ کو مسئلہ کشمیر کو کیسے دیکھتے ہیں؟

سردار محمد یعقوب خان : میں سمجھتا ہوں ہم تو بہت خوش ہیں کہ ہم کشمیریوں کی تحریک زور پکڑ رہی ہے ،لوگ سست ہوگئے تھے لیکن بھارتی اقدام سے نیاجوش پیدا ہوا ہے،کشمیری نئے جذبے کے ساتھ سامنے آرہے ہیں اور نمٹنے کے لیے نئے سرے مشاورت کررہے ہیں۔

جنگ: تمام کشمیری تنظیمیں کیا ایک ہورہی ہیں؟

سردار محمد یعقوب خان : کشمیر کی آزادی پر تو ہم سب کا ایک ہی موقف ہے، نظریے میں آگے بڑھنے کے طریقہ کار میں فرق ہوسکتا ہے لیکن بنیادی طور پر ہم سے ایک ہیں۔ عمران خان کی حکومت نےالٹااقدام کیا تھا لیکن کشمیریوں کے لیے ٹھیک رہا کیوں کہ ردعمل میں تمام کشمیری ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے کہ یہ ہم نہیں ہونے دیں گے، طاقت ہے یا نہیں لیکن جذبات تو بھرپور سامنے آئے ہیں اور ہمارے لیے یہ ٹھیک ہے تمام کشمیری دنیا بھر میں آواز بلند کررہے ہیں کہ ان کی بے چینی عالمی برادری کو نظر آئےامید ہے جلد معاملات مثبت سمت کی طرف جائیں گے۔

جنگ: پاکستان کا کیا کردار دیکھتے ہیں کیوں کہ یہاں تو کہاجاتا ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان؟

سردار محمد یعقوب خان : وہ صرف ایک سیاسی نعرہ تھا،آج کی اگر بات کریں تووزیرخارجہ بلاول بھٹونے رائے شماری کروانے کا صاف کہا ہے یہ انہوں نے سرعام کہا ، اقوام متحدہ، او آئی سی، آزاد کشمیر کے مشترکہ اجلا س میں کہا کہ رائے شماری کی جائے جو عالمی برادری چاہتی ہے ہم کشمیریوں کےلیے ان کایہ کہنا کافی ہے۔

جنگ: بھارت تو تیار نہیں ہےاسے کیسے بات چیت پرآمادہ کریں گے کون دبائو ڈالے گا؟

سردار محمد یعقوب خان : بھارت تو کبھی بھی مسئلہ کشمیر پر بات چیت کےلیے تیار نہیں ہوا، پاکستان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ وہ بات چیت پر راضی ہو کہ تاکہ عالمی برادری کو یاد رہے کہ کشمیر متنازعہ مسئلہ ہے لیکن بھارت اسے تسلیم کرنے کو کبھی تیارنہیں ہوا۔

جنگ: تو پھر حل کیا ہے وہ تو75سال سے کشمیر کو مسئلہ مانتا ہی نہیں ہے؟

سردار محمد یعقوب خان : آزادی دنوں مہینوں میں حاصل نہیں ہوتی بڑا وقت لگتا ہے،لہذا کوششیں جاری ہیں پاکستان اپنی کوشش کررہا اور بھارت اپنے دائو لگارہا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ کشمیرکی آزادی کے دن قریب آرہے ہیں۔

جنگ: کشمیر پرپاکستان کا کوئی ایک مقصد ہے کیوں کہ ماضی کی حکومت خاص طور پرمشرف حکومت میں مسئلہ کشمیر کےحل کےلیے کچھ اور فارمولے سامنے آئے تھے؟

سردار محمد یعقوب خان : کشمیری آج مشرف دور کے فارمولوں کے سبب ہی پھنسے ہوئے ہیں،اصولی اور اخلاقی طور پر فارمولا ہندوستان کو دینا چاہیے، کیوں کہ تنازعہ کشمیر کے حل کےلیے اقوام متحدہ ہندوستان ہی گیا تھا۔ہم اپنی جانب سے نیا فارمولا دے کر نئے راستے کی طرف جارہے ہیں جس سے ماضی کی کوششوں کو بہت نقصان پہنچا اور مسائل کھڑے ہوئے ہیں،تاہم یہ ساری باتیں سامنے آگئیں ہیں جس نے جو غلطی کی وہ بھی سامنے ہے لیکن میرے خیال میں مجموعی طور پر کشمیر کاز کو فائدہ پہنچا ہے۔

جنگ: مودی راج اور ماضی کی کانگریس کی حکومت دونوں میں کوئی فرق محسوس کرتے ہیں؟

سردار محمد یعقوب خان : نمایاں فرق دیکھتے ہیں میں خوش ہوں کہ ہندوستان میں مودی حکومت ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے شیخ فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی سمیت وہ تمام کشمیری رہنما جو اس موضوع پر بات نہیں کرتے تھے سب متحد ہوکر بات کررہے ہیں، اب تو ہندوستان کے دیگر اقلیتیں بھی متحد ہوکر مودی کے اقدامات کے خلاف بات کررہی ہیں ہندو اور سکھ تنقید کررہے ہیں ہندوستان میں تو ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

جنگ: بھارت نے رواں سال مقبوضہ کشمیر میں جی 20اجلاس منعقد کرکےیہ بتایا ہے کشمیر میں اب سب امن ہے ،وہاں چیزیں ٹھیک ہیں گوکہ وہاں سعودی عرب اور چین شامل نہیں ہے لیکن بظاہروہ کافی حد تک کامیاب نظر رہا ہے دوسری طرف جیسا ہم سمجھتے ہیں دنیا کو کشمیر کا وہ اصل چہرہ دکھانے میں کامیا ب ہورہے ہیں آپ کا اس پر آپ کیا تبصرہ کریں گے؟

سردار محمد یعقوب خان: بھارت نے اپنی پوری کوشش کی ہے لیکن وہ اب تک کامیاب نہیں ہوسکا ہے کئی بڑے ملک اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ بھارت کا سارا کام فراڈ کے سوا کچھ نہیں ہے تو کشمیری اسے بھی بڑی کامیابی کے طور پر دیکھتے ہیں۔

جنگ: عالمی سطح پرمسئلے کو اجاگر کرنے کےلیے ہم اپنی حمایت میں کوئی بلاک کیوں نہیں بناتے جیسے اقوام متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق تنظیمیں وغیرہ اس مسئلے کے لیے ہمارے ساتھ کھڑی ہوں۔

سردار محمد یعقوب خان : اس کے لیے ہمیں ایسی لیڈر شپ درکار ہے جس کے ذریعے عالمی برادری تک یہ پیغام جائے جب محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں توانہیں دنیا جانتی تھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے، آج بلاول بھٹو نے جب کشمیر پر بات کی تو پوری دنیا میں بات سنی گئی، انہوں نے دنیا کو بتایا کہ مودی تو وہ قصائی ہے اچھی اورا ہم بات یہ ہے کہ جس طرح سے بلاول بھٹو نے بات کی اس نے مسئلہ کشمیر میں دوبارہ جان ڈال دی ہے،دنیا کو یہ ہی بتانا تھا، عالمی برادری نے بھی بات کو سمجھا ہے۔

جنگ: بھارتی سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کے حوالے سے کیا امکانات ہیں؟

سردار محمد یعقوب خان : امید پر دنیا قائم ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کو پیچھے ہٹنا پڑے گا اور ایک اہم نقطہ مسلم امہ میں پاکستان واحد ایٹمی قوت ہے اور سی پیک اس کا ڈبل نیوکلئیر قوت ہے،سی پیک کا آغاز جرات مندانہ اقدام ہے یہ کہنا آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہے، یہ کریڈیٹ پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ آصف زرداری کوپھر اسے نواز شریف لے کر چلے یہ ان کو جاتا ہے۔

جنگ: سی پیک کو کافی وقت ہوگیا دو حکومتیں گزر گئیں ہیں اس کا بنیادی تصور تھا جس کے مطابق گوادر سے ایک سڑک تھی جس کے ذریعےچین تجارت کرے گا، گوادر پورٹ بنے گا تو وہ دونوں اب تک نامکمل ہیں نہ سڑک مکمل ہوئی نہ پورٹ ؟

سردار محمد یعقوب خان : جب عالمی قوتوں کو نظرآرہا ہو کہ اس طرح کافی چیزیں بدل جائیں گی تو اسے روکنے کے لیےکچھ تو کریں گے لیکن دوسری طرف ہمیں احساس تو ہوا کہ ہمارے پاس گوادر پورٹ ہے ایسی کوئی سڑک بن سکتی ہے یہ بڑی کامیابی ہے، عمران خان حکومت نے اس پرکام نہیں کیا لیکن بعد کی حکومت نے دوبارہ کام شروع کردیا ہے ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔

جنگ: کیا اگلی حکومت میں بھی سی پیک پر کام جاری رہ سکے گا؟

سردار محمد یعقوب خان: سی پیک پر کام اب نہیں رک سکتا کوئی راستہ ہی نہیں بچا، بہت سی قوتیں آپ کے خلاف مصروف ہیں ملکی حالات اسی وجہ سے خراب کئے جارہے ہیں، افغانستان کا معاملہ اپنی جگہ پر لیکن کسی دوسرے کو اس میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں تھی وہ جنگ روس اور امریکا کی تھی، ہمیں تو بلاوجہ گھسیٹ لیا گیا، اب سارا کچھ ہمیں بھگتنا پڑرہا ہے جن پر اعتماد تھا وہ تو سارے مسائل ہم پر ڈال کر اپنے ملکوں کو روانہ ہوگئے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان نے پڑوسی ہونے کے ناطے برادر مسلمان ملک ہونے کی وجہ سے وہاں کی اتنی بڑی آبادی آج بھی رکھی ہوئی ہے۔

جنگ: ہم مسلمان ملک ہیں ایٹمی طاقت ہیں کشمیر پر او آئی سی کا کوئی مضبوط موقف نہیں آنا چاہیے تھا؟

سردار محمد یعقوب خان : میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ جب بھی او آئی سی گیا میں نے دیکھا کہ وہ کشمیر کے لیے ڈٹ کر بات کرتی تھیں،ہمارے آٹھ دس برادراسلامی ملک کشمیر کے لیے بات کرتے رہے آج بھی بات ہورہی ہے،وہ کرتے بھی ہیں۔

جنگ: کیا اس بات سے اتفا ق کرتے ہیں کہ بھارت جمہوریت میں اور اقتصادی طور پر بڑا ملک ہے اس کابھی فرق پڑتا ہے دنیا اپنا مفاد بھی دیکھتی ہے؟

سردار محمد یعقوب خان : یہ حقیقت ہے ہندوستان جمہوریت کے حوالے سے آگے ہے لیکن آج ہندوستان پر کسی کواعتماد نہیں ہے، وہ اپنے پڑوسی بنگلہ دیش ،نیپال اور سری لنکا کے ساتھ کیا نہیں کررہا، آج کے بھارت میں تو اس کے اندرونی حالت تو یہ ہے کہ وہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ بھی بہت برا سلوک کررہا ہے۔

جنگ: موجودہ حکومت کے آنے کے بعد کوئی شک نہیں خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی دیکھی گئی ہم دنیا بھر میں تنہا ہوگئے تھے، لیکن اب دوبارہ ایران چین سے سعودی عرب سے تجارتی تعلقات ہوئے ہیں قربت نظر آرہی ہے کیا اس کا اثرمسئلہ کشمیر میں دیکھنے کا ملے گا؟

سردار محمد یعقوب خان: جی یقیناً جیسے جیسے یہ منصوبے آگے بڑھیں گے ہم اس کے اثرات ہرجگہ نظر آئیں لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے دلچسپی بڑھتی ہے،چین ہماری حمایت ہرجگہ اسی وجہ سے کرتا ہے کشمیر ابھی پوری دنیا کے لیے بہت اہم ہے، مجھے امید ہے اچھا وقت آنے والا ہے۔

جنگ: مقبوضہ کشمیر میں امن و امان کی صورت حال کیسی ہے کیوں کہ وہاں تو میڈیا آزاد نہیں ہے؟

سردار محمد یعقوب خان: امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب ہے دن بہ دن مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے، امن کہیں بھی زبردستی نہیں ہوسکتا، وہاں ہندوستان خود بہ خود اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے۔

جنگ: حکومت پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کے عوام کو متاثر کرنے کےلیے آزاد کشمیر کون سے اقدامات کرنے چاہیے جس سے وہ پاکستان کے مزید قریب آئیں؟

سردار محمد یعقوب خان: آزاد کشمیر کی پارلیمنٹ سو فیصد میچور ہے وہاں پاکستانی قومی اسمبلی کی طرح بدتمیزی گالی گلوچ کا رواج نہیں ہے،جب پیپلزپارٹی کی کشمیر میں حکومت تھی تو زرداری صاحب نے کہا تھاکہ اگر آپ نے کشمیر کو آزاد کروانا ہے توآزاد کشمیر کا انفرااسٹرکچر،کشمیر ائیرلائن، کشمیر ائیرپورٹ ،میڈیکل یونی ورسٹی،کالج اور دیگر یونی ورسٹیاں بنائیں، لوگوں کو روزگار دیں، اور پھر ہم نے 70سال کا ریکارڈ توڑا کہ ہم نے اپنے دور تین میڈیکل کالج جہاں آج بھارتی ویزے پر آئے مقبوضہ کشمیر کے بچے زیر تعلیم ہیں، سولہ ہزار گلگت بلتستان کا طالب علم ہے، بلوچستان ،کے پی کے،فاٹا پنجاب اور سندھ کا نوجوان آزاد کشمیر میں پڑھ رہا ہے، ابھی سیاحت بہت زیادہ ہے تو اس پر محنت کی جائے اس پر بجٹ رکھا جائے تو آزاد کشمیر مقبوضہ کشمیر کو کراس کرجائے گا۔

جنگ: کشمیر سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہجرت بہت ہوتی ہے کی کیا وجہ ہے؟

سردار محمد یعقوب خان: اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں بے روزگاری زیادہ ہے، حالات بھی ایسے بن گئے ہیں اور پھر آسانی سے پاکستان آجا سکتے ہیں اسی لیے تو ہم کہتے ہیں پاکستان زندہ باد، ہم کشمیری پاکستان کو قدرتی طور پر اپنا ملک سمجھتے ہیں کاروبار کرتے ہیں جائیداد خریدتے فروخت کرتے ہیں سب کچھ آزادی سے کرتے ہیں، اگر بھارت میں ایسا کریں تو وہاں جو حشرہوتا ہے وہ ہم دیکھتے اور سنتے ہی ہیں۔ پاکستان میں کوئی سمجھ دار وزیراعظم ہو تو ہم اس کی مدد سے پاکستان کو 80فیصد بجلی پچاس فیصد سستی قیمت پر فراہم کرسکتے ہیں۔

جنگ: یہ تصورعام ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی حکومت بھارت کنٹرول کرتا ہے وہاں کی حکومتیں ڈمی ہوتی ہیں آزاد کشمیر میں بھی ڈمی حکومت ہیں جو پاکستان چلاتا ہے اس میں کتنا سچ ہے؟

سردار محمد یعقوب خان: یہ شخصیت پر منحصر ہے میں صدر رہا ہوں، وزیراعظم بھی رہاتو میں نے تو کام آزادی سے کئے، ہمیں پاکستان سے ہمیشہ تعاون ہی ملا ہے،میں ن لیگ ،پیپلزپارٹی دونوں کے دور میں رہا لیکن کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا۔

جنگ: مسئلہ کشمیر پر آزاد کشمیر میں کیا سوچ پائی جاتی ہے؟

سردار محمد یعقوب خان: وہ رائے شماری چاہتے ہیں، آئین ہمارا پارلیمنٹ ہماری ،سپریم کورٹ ،ہائی کورٹ ہماری ابھی تو ہمارا بجٹ بھی بہت اچھا ہوگیا ہے۔آزاد کشمیر میں لا اینڈآرڈر یورپ اور کسی بھی دوسرے ترقی یافتہ ملک سے زیادہ ہے۔

جنگ: آپ نے اپنے دور میں کاروباراور انڈسٹری کے قیام کے لیے کوششیں کی تھیں؟

سردار محمد یعقوب خان: ہم نے اپنے دور حکومت میں بہت سی باتیں کیں اور آگے بھی بتایا کہ انڈسٹری اور کاروبار کے لیے ایسا کریں، اگر بیوروکریٹ اور سیاست دان دلچسپی سے کام کریں توسب کچھ ہوسکتا ہے۔

جنگ: آپ مسئلہ کشمیر کا کیا مستقبل دیکھ رہے ہیں کیا کشمیری اپنی جدوجہد میں جلد کامیاب ہوجائیں گے؟

سردار محمد یعقوب خان: کشمیری بنیادی طور پر امن پسند قوم ہیں کشمیر میں لٹریسی ریٹ 80فیصد ہے۔ہماری خواہش ہے کہ بھارت کو کشمیریوں کی بات سمجھ آجائے جس کےلیے کشمیری کوششیں کررہے ہیں۔

جنگ: کشمیر میں مارشل لا دور میں عسکریت کا بھی زور رہا تو اس کا کشمیرکا زپر کیا اثر پڑا؟

سردار محمد یعقوب خان: ہر کشمیری ذہنی فکری طور پر لڑنے کے لیے تیار ہے کہ آزادی ہم لے کر رہیں گے کشمیریوں کو کوئی تیار نہیں کرتا یہ قدرتی ہمارے ذہن میں ہیں کہ ہمیں بھارت سے آزادی لینی ہے دو قوموں فلسطینیوں اور کشمیریوں کو کب تک ماریں گے ایک وقت آئے گا اور حالات بدلیں گے۔

جنگ: آپ کشمیر کے حوالے سے کیا امید رکھتے ہیں؟

سردار اشرف خان: آزاد کشمیر کی لیڈر شپ کا رویہ ہمیشہ سے مثبت رہا ہے،کشمیر آزادی کشمیر اور خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں جو لیڈرشپ ہے اس کے ساتھ ہمیشہ رابطے رکھنے کی کوشش کی ہے،لیکن بدقسمت حصہ اس کایہ ہے مقبوضہ کشمیر میں جو لیڈر شپ ہے جو اصل نیوکلئیس ہے جو وادی ہے جو جموں ہے اور لداخ ہے یہ اکثریتی علاقے ہیں وہاں کی لیڈرشپ آزاد کشمیر کی لیڈر شپ کے ساتھ وہ تعلق یا ان جیسا رویہ نہ رکھتی،آج بھی فاروق عبداللہ ہو یا محبوبہ مفتی وہ یہ ہی کہ رہے کہ ہم تو ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں بس ہمارا دفعہ 370 واپس کردو حتی کہ یاسین ملک بھی یہ ہی فرماتے ہیں کہ یہ دونوں ممالک مل کر طے کریں۔

پاکستان نے کشمیر سےعسکریت پسندی کا خاتمہ کرکے خود کو بڑی مشکلات سے نکال لیا ہے۔اب مقبوضہ کشمیر سے تحریک شروع ہو کیوں کہ آزاد کشمیر تو آج بھی آزاد ہے پاکستان نے اسے اپنے ساتھ شامل نہیں کیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کو کچھ عرصے کےلیے اپنے تمام تنازعات سے ہٹ کر علاقائی تعاون کے لیے بڑھنا پڑے گا چین کی دلچسپی بھی اسی میں ہے، کیوںکہ چین کبھی بھی ہندوستان سے جنگ نہیں چاہتا، اب تو مغربی پریس یہ کہنا شروع ہوگیا ہے کہ انڈیا قابل اعتبار نہیں ہے ،کیوں کہ انڈیا اپنی پالیسی خود چلاتا ہے، انڈیا اب تک روس کا ایجنٹ نہیں بنا اس نے دفاع سمیت روس کے ساتھ کئی طرح معاہدے کئے، ان کی ٹیکنالوجی استعمال کی،یہ بات امریکی تھنک ٹینک بھی کہہ رہے ہیں۔

اس خطے کو امن کی ضرورت ہے یعنی انڈیا،پاکستان ، چین اور افغانستان تینوں کو ضرورت ہے۔ بین الاقوامی میڈیا تو اب ایسی بھی خبریں آئی ہیں کہ ان کے مطابق نریندر مودی نے سعودی عرب اور یو اے ای کے ذریعے پاکستان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ پلوامہ جیسا واقعہ دوبارہ ہو تاکہ اسے سیاسی طور پر فائدہ پہنچے، لیکن پاکستان کو اس کے جال میں نہیں آنا چاہیے لیکن اگر زبردستی جنگ مسلط ہو تو پھر ٹھیک ہے لڑنا چاہیے۔ اگر پلوامہ کے موقع پرپاکستان کو جوابی طور پر بمباری کردیتا تو مودی الیکشن نہیں جیت سکتا تھا۔

جنگ: پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے علاوہ اور کون سے تنازعات ہیں؟

سردار اشرف خان: کشمیر ہی بڑا تنازعہ ہے اور اس پر جنگ کرنا بڑی حماقت ہوگی،پاکستان کے پاس جنگ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

جنگ : انڈیا کی دوبڑی سیاسی جماعتوں بی جے پی اور کانگریس ہیں پاکستان کو کس سے بات چیت کرنا بہتر رہتا ہے؟

سردار محمد یعقوب خان : ہمارے لیے دونوں ہی خطرناک رہے ہیں لیکن بی جے پی کے مقابلے میں کانگریس اتنی ہارڈلائنر نہیں ہے۔ بی جے پی نسل پرست ہے لیکن کانگریس کے پارلیمنٹرین سنجیدہ رویے رکھتے ہیں، آج بی جے پی کے وجہ سے ہندوستان کی ساکھ بہت خراب ہے۔

سرداراشرف خان: ہندوستان پاکستان سے لڑااورپھر مودی نے الیکشن جیت کر حکومت بنالی،چین سے لڑا لیکن ہارجیت کسی کی نہیں ہوئی، دوسرا اس نے بین الاقوامی سطح پرکوششیں کی اور ابھی انڈیا جی 20 کا صدر ہے،اس کے باوجود چین کے ساتھ انڈیا کی تجارت ایک سوپچاس بلین ڈالر کی ہے، انڈیا بعض 70فیصد انڈسٹری چین پر ہی انحصار کرتی ہے۔ انڈیا ڈیموکریٹک سوسائٹی ہے مودی کی پوزیشن اگلے الیکشن میں کمزور ہورہی ہے، یہ دوسری بات ہے کہ ان کی معیشت دنیا کی تیسری چوتھی پوزیشن پر ہے۔ ہندوستان ابھی دنیا بھر میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔

جنگ: مودی حکومت سے پہلے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کافی حد نارمل تھے سرحدیں کھلی ہوئی تھیں آمدورفت جاری تھی تجارت بھی ہورہی تھی اب تو سب کچھ رک گیا ہے؟

سردار محمد یعقوب خان: آج کے انڈیا میں جو بھی کاروبار یا تجارت ہورہی ہے بڑے معاہدے ہورہے ہیں سب وقتی ہے، بنیادی طور پر مودی کے بھارت پر کوئی اعتماد نہیں کرتا یاسارے کچے کام ہیں، ایک ایساسخت گیر شخص وزیراعظم بن بیٹھا ہے جس کا کچھ پتانہیں کب کیا کربیٹھے تو کاروبار بہت سوچ سمجھ کرکئے جاتے ہیں۔

جنگ: انٹرنیشنل میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق امن و امان کے حوالے سے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اچھی نہیں لیکن میڈیا دکھا نہیں سکتا تو کیا میڈیا پر پابندی ہے؟

سردار اشرف خان: جی ہاں یہ سچ ہے سوفیصد میڈیا پر پابندی جیسی صورت حال ہے انٹرنیٹ تک بند کررکھے ہیں۔

سردار محمد یعقوب خان: انڈیا بڑی آبادی والا ملک ہے اس کےشہری ہرترقی یافتہ ملک میں آباد ہیں اور وہ وہاں بیٹھ کر ہندوستان کےلیے لابنگ کرتے ہیں، اور سائز کے حوالے سے بڑا فرق ہے، لیکن ایسا بھی نہیں کہ پاکستان کوئی کمزور ملک ہے۔

جنگ: پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کو کشمیر کے مسئلے پر کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟

سردار محمد یعقوب خان : مسئلہ کشمیر میں کشمیری سب سے اہم فریق ہیں،یہ دونوں ملک کشمیری لیڈر شپ کے ساتھ بیٹھیں اور مسئلے کا فیصلہ کریں۔ کشمیریوں کے ساتھ گفتگو کئے بغیر کوئی بات چیت کامیاب نہیں ہوسکتی اور اگر بھارت کو اگر خطے کی ترقی میں سب سے آگے جانا ہے تو اسے تمام پڑوسیوں سے تعلقات بہتر کرنے پڑیں گے۔

سردار اشرف خان: میری رائے میں اگر کشمیریوں کو آزادی چاہیے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر پرامن جدوجہد کرنی پڑے گی،پاکستان بھارت اور چین کونئے جذبےکے ساتھ آگے بڑھنا پڑے گا ہمیں جنگ کے بجائے امن کےلیے پیش رفت کرنی پڑے گی ،ہمیں سماجی ،سیاسی اور معاشی اتحاد کی ضرورت ہے،انڈیا کبھی بھی امریکی ایجنٹ نہیں بئے گا،ہندوستان اور پاکستان کو اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے۔ ہمیں اپنے وسائل کو اپنے ملک کے عوام پر خرچ کرنا چاہیے۔

جنگ:پاکستان کاسیاسی عدم استحکام خاص طور پرنیم جمہوری حکومتیں اور ہائبرڈ نظام خارجہ پالیسی میں کس حد تک رکاوٹ بنا ہے؟

سردار اشرف ملک: میں 99فیصد اس کا ذمہ دار سمجھتا ہوں

سردار یعقوب: جو غلطیاں ہوئیں اسے تسلیم کرنا چاہیے اور آئندہ آگے بڑھنے کی تیاری کرنی چاہیے۔