کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے نگراں وفاقی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بطور سابق وزیراعظم جیل میں سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں.
چیئرمین پی ٹی آئی کے سیل کے باہر کیمرے سے متعلق معاملات پر جیل حکام سے باز پرس بھی کی جائے گی، میرے علم میں جج کی رپورٹ نہیں اس بارے میں معلوم کروں گا، چیئرمین پی ٹی آئی کی پرائیویسی کو کیمرا متاثر کررہا ہے تو ہٹایا جائے گا، سیل کے باہر کوئی ایسا کیمرا ہے جو پرائیویسی متاثر نہیں کررہا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے
پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بلز قانون نہیں بنے کاغذ کا ٹکڑا ہیں، سابق وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ صدر غیرمعینہ مدت تک بل اپنے پاس رکھ کر بیٹھ جائیں تو پارلیمان کی حیثیت نہیں رہ جاتی، دونوں ایوانوں سے بل منظور ہونے کے بعد صدر کے پاس منظوری کیلئے جاتا ہے، صدر کے پاس بل کا جائزہ لینے کیلئے دس دن ہوتے ہیں
صدر مملکت سمجھتے ہیں بل پر نظرثانی ہونی چاہئے تو پارلیمنٹ کو گزارش کریں گے، پارلیمنٹ بل واپس بھیجتی ہے تو پھر صدر کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے وہ دس دن بعد قانون کا حصہ بن جائے گا، قانون کہتا ہے دس دن میں صدر کو منظوری دینی ہے یا وجوہات بیان کرتے ہوئے بل واپس بھجوانا ہے، صدر نے دونوں میں سے کوئی کام نہیں کیا تو دس دن بعد بل قانون بن جائے گا۔
پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 75بتاتا ہے کہ قانون کس طرح بنے گا، صدر کے پاس بل کی منظوری یا واپس بھیجنے کے آپشن ہوتے ہیں، پہلے مرحلہ میں صدر بل پر دستخط نہیں کرتے تو وہ قانون نہیں بنے گا،اگر صدر مملکت بل کی منظوری نہیں دیتے تو معاملہ مشترکہ پارلیمنٹ میں جائے گا، مشترکہ پارلیمنٹ بل دوبارہ صدر مملکت کو بھیجے گی ،صدر اب بھی منظوری نہیں دیتے تو دس دن میں بل خودبخود قانون بن جائے گا، میری نظر میں چونکہ نہ صدر نے بلز پر دستخط کیے ہیں نہ بلز دوبارہ مشترکہ پارلیمنٹ اجلاس میں گئے ہیں اس لیے بلز قانون نہیں بنے کاغذ کا ٹکڑا ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کو چاہئے تھا کہ مسترد کرنے کی وجوہات کے ساتھ بل واپس بھیج دیتے،صدر نے بل واپس نہیں بھیجا تو ہم کیسے فرض کرلیں کہ وہ خودبخود قانون بن گیا
حکومت نے واضح طورپر کہا ہے صدر مملکت نے بلوں پر دستخط نہیں کیے، آئین حکومت کو یہ حق نہیں دیتا کہ کسی بھی قانون کو فرض کرلے، صدر مملکت ٹوئٹ نہیں کرتے تو ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ یہ کاغذ کا ٹکڑا سائن ہی نہیں ہوا ہے اور ہم اسے قانون سمجھ کر عملدرآمد کردیتے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ صدر مملکت یہ فرض نہیں کررہے کہ دونوں بل قانون بن گئے ہیں
صدر مملکت شاید چوبیس گھنٹے بعد ٹوئٹ کرنے پر معافی مانگ رہے ہیں۔ نگراں وفاقی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے گزشتہ دنوں میں جو ملاقاتیں کیں وہ میڈیا میں رپورٹ ہوئی ہیں
چیئرمین پی ٹی آئی کے سیل کے باہر کیمرے سے متعلق معاملات پر جیل حکام سے بازس پرس بھی کی جائے گی، میرے علم میں جج کی رپورٹ نہیں اس بارے میں معلوم کروں گا، چیئرمین پی ٹی آئی کی پرائیویسی کو کیمرا متاثر کررہا ہے تو ہٹایا جائے گا، سیل کے باہر کوئی ایسا کیمرہ ہے جو پرائیویسی متاثر نہیں کررہا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ قانون کے مطابق رویہ اپنایا جائے گا، چیئرمین پی ٹی آئی کو بطور سابق وزیراعظم جیل میں سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں
ملک میں ادارے موجود ہیں جو آئین و قانون کے مطابق کام کررہے ہیں، شاہ محمود قریشی کے پاس فورمز موجود ہیں عدالتوں میں جاکر ریلیف لے لیں،سائفر معاملہ میں قانونی تقاضے پورے کیے جارہے ہیں کوئی غیرآئینی کام نہیں ہورہا، ایف آئی اے نے کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا
ایف آئی اے نے شاہ محمود قریشی کی کسٹڈی ضروری سمجھی تو عدالت سے مانگ لی، ایف آئی اے ایک اسٹرکچر کے تحت کام کرتی ہے ، اگر کوئی غیرقانونی کام ہوا ہے تو اسے چھوڑا نہیں جاسکتا، سائفر چھوٹا ایشو نہیں ہے اس کی تحقیقات کرنا ضروری ہے، شاہ محمود قریشی ملک کے بزرگ رہنما ہیں ہمیں ان کی قدر ہے۔ سرفراز بگٹی نے کہا کہ ادارے کو ایمان مزاری اور علی وزیر سے کیا مسئلہ ہے جو گرفتاری کا کہیں گے، ہم نے پی ٹی ایم کی قیادت سے مذاکرات کیے، ان سے کہا گیا تھا وہ پرامن احتجاج کریں گے، کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ دفاعی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنائے، دفاعی اداروں کیخلاف ایسی زبان کے استعمال کی اجازت نہیں دے سکتے جیسی ایمان مزاری اور علی وزیر نے کی۔