• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ہمیں بتایا گیا ہے :’’حدیث پاک کی رُو سے مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرنا یا خریدوفروخت کرنا وغیرہ جائز نہیں ہے‘‘، اب سوال یہ ہے کہ ’’آج کل مساجد میں گم شدگی کا اعلان بھی ہوتا ہے ،خواہ وہ کوئی چیز ہویا کوئی بچہ یا کوئی ضعیف العمر آدمی ہو یا کوئی ایسا شخص ہوجو دماغی توازن کھوبیٹھا ہے ، نیزکسی کی وفات اور نمازِ جنازہ کا بھی اعلان ہوتا ہے یا گم شدہ چیز مل جانے کا اعلان ہوتا ہے ، اسی طرح پولیو ویکسین لگانے کا اعلان کیا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ، ان کی بابت شرعی حکم کیا ہے،نیز کیا مسجد کے ضرورت سے زائد سامان کو مسجد میں بیچنے کا اعلان کیا جاسکتا ہے، (علی رضا ،خانیوال)

جواب: مسجد میں ذاتی اورمالی مفادکے اعلانات جائز نہیں ہیں، حدیث پاک میں ہے: (۱)ترجمہ:’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی شخص کو (بلند آواز سے) مسجد میں کسی گمشدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے سنے ،تو کہے: اللہ کرے تیری چیز نہ ملے ،کیونکہ مسجدیں اس لیے نہیں بنائی گئیں، (صحیح مسلم: 568)‘‘۔ (۲)ترجمہ: ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی شخص کو مسجد میں خرید وفروخت کرتے دیکھو تو کہو: اللہ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے اور جب کسی شخص کو مسجد میں اپنی گم شدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے دیکھو تو کہو: اللہ تمہاری چیز واپس نہ لوٹائے ، (سنن ترمذی:1321)‘‘۔ (۳)ترجمہ:’’حضرت بُرَیدَہ ؓ نے ایک شخص کو مسجد میں گم شدہ چیز کا یہ اعلان کرتے ہوئے سنا:کوئی ہے جو سرخ اونٹ کے بارے میں بتائے، تو نبی ﷺ نے فرمایا: تو اُسے نہ پائے، کیونکہ مساجد اپنے مقاصد کے لیے بنائی گئی ہیں،(ذاتی مقاصد کے لیے اُن کی تعمیر نہیں ہوئی)،(صحیح مسلم:569)‘‘۔

امامِ اہلسنّت امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:’’ شرع مطہر نے مسجد کو ہر ایسی آواز سے بچانے کا حکم فرمایا ہے ، جس کے لیے مساجد کی بنا نہ ہو،(فتاویٰ رضویہ ،ج:8،ص:408)‘‘۔علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:’’مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرنا احادیث کے پیشِ نظر مکروہ ہے، قرآنِ کریم کی تلاوت، وعظ ونصیحت اور ذکرِ الٰہی کے علاوہ مسجد میں آواز بلند کرنا ممنوع ہے، کیونکہ یہ عمل مسجد کے آداب کے خلاف ہے ، آج کل پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں میں عام رواج ہے کہ کسی کامویشی یا بچہ گم ہوجائے تو مسجد میں اعلان کرتے ہیں، اگر اہلِ مسجد نے مسجد بناتے وقت کوئی جگہ خارج از مسجد بنائی ہے اور اس میں لائوڈ اسپیکر کے مائیک کا انتظام ہے تو اس جگہ اعلان کرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ وہ جگہ خارج از مسجد ہے اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اہلِ محلّہ کو مطلع کرنا مقصود ہے اور اگر اس قسم کا انتظام نہیں ہے تو مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرنا ہرحال میں مکروہ ہے، (شرح صحیح مسلم، ج:2، ص: 135)‘‘۔

ہم نے معاصر مفتیانِ کرام کے فتوے دیکھے ہیں، ان میں عمومی انداز میں ممانعت کا قول کیا گیا ہے، اور مفادِ عامّہ اور مصلحتِ عامّہ سے متعلق امور کا استثناء نہیں رکھا،جبکہ آج کل عام طور پر صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ پس ہماری نظر میں یہ احادیثِ مبارکہ اور فقہائے کرام کے اقوال ’’ذاتی مفاد کے اعلانات کی ممانعت ‘‘سے متعلق ہیں ۔جن امور میں معیّن طور پر کسی فرد کے مالی معاملات کا مفادنہ ہو، بلکہ بحیثیتِ مجموعی وہ مفادِ عامّہ کا مسئلہ ہو ،تو اُن امور کی بابت اعلانات جائز ہیں۔

جیسے پولیو ویکسین لگانے کا اعلان، شدید بارشوں میں یا سیلابی کیفیت میں کسی گاؤں /بستی یا علاقے کے  بند ٹوٹ جانے کے خطرات کا اعلان یا فرض کیجیے: کسی گائوں یا محلے میں ڈاکو آگئے اور لوٹ مار کر رہے ہیں تو لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے اعلان ،بعض جگہ فری میڈیکل کیمپ لگائے جاتے ہیں، قریبی مسجد سے اُن کا اعلان، اسی طرح کوئی ایسا اعلان جو فرضِ کفایہ کی ادائیگی کے لیے عام مسلمانوں تک اطلاع پہنچانے کے لیے ہو،جیسے : کسی کی وفات یا جنازے کا اعلان ، ہم نے کراچی میں دیکھا ہے :بعض جگہ برادری کی سوسائٹی میں مسجد ہوتی ہے ،وہاں وفات اور جنازے کا اعلان مسجد کے لائوڈ اسپیکرپر کیاجاتا ہے ،اس میں بھی منع کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے، اسی طرح انسانی ہمدردی کا معاملہ ہو ، جیسے : کسی بچے کی گمشدگی کا اعلان، کیونکہ یہ بھی مالی مفاد کا معاملہ نہیں ہے، اس لیے یہ بھی جائز ہونا چاہیے۔

بعض مواقع پر رسول اللہ ﷺ نے جہاد کے لیے مسجد میں عطیات کا اعلان بھی فرمایا ہے اور دینے والوں کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی ہے، آپ نے مسجد نبوی میں بیٹھ کر لشکر بھی ترتیب دیے ہیں ،بیرونی وفود سے ملاقاتیں بھی کی ہیں اور صدقات وغنیمت کا مال بھی تقسیم کیا ہے۔ مقدمات کے فیصلے کے لیے قاضی مسجد میں بیٹھ سکتا ہے کہ عوام کی مسجد تک رسائی آسان ہوتی ہے اور قاضی کا بیٹھنا بھی مفادِ عامّہ کے لیے ہوتا ہے، علامہ ابوالحسن برہان الدین مرغینانی قاضی کے بارے میں لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اور (قاضی) فیصلہ کرنے کے لیے مسجد میں کھلے عام بیٹھے تاکہ اُس کی نشست گاہ مسافروں اور بعض مقیم لوگوں کے لیے مشتبہ نہ ہواور جامع مسجد میں بیٹھنا افضل ہے ، کیونکہ وہ مشہور ہوتی ہے،(الہدایہ ،ج:5،ص:345،مکتبۃ البشریٰ)‘‘۔

ظاہر ہے قضا بھی مفادِ عامّہ کا مسئلہ ہے اور اسی لیے رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدینؓ نے مسجدِ نبوی میں بیٹھ کر فیصلے کیے ہیں، تاہم آج کل نہ اس کے مواقع ہیں اور نہ اس دور کامسئلہ ہے ،کیونکہ اب اس کے لیے مستقل ادارے اور نظام قائم ہے، البتہ پولیو ویکسین اور فری میڈیکل کیمپ کی بابت اعلان مفادِ عامّہ کا مسئلہ ہے، لہٰذا مفتی کو اس بارے میں وسعتِ نظر سے کام لینا چاہیے اور مسلمانوں کی مصلحتِ عامّہ کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ 

اسی طرح اگر کسی بستی کے قریب سیلاب کے نتیجے میں بند ٹوٹنے کا خطرہ ہو تو اُس سے آگاہ کرنا بھی مفادِ عامّہ کا مسئلہ ہے یا اگر خدانخواستہ کسی گاؤں یا محلے میں مسلح ڈاکو آجائیں تو لوگوں کو خبردار کرنا بھی مفادِ عامّہ کا مسئلہ ہے، نیز مسجد وں میں خود مسجد کے لیے اور دینی مدارس کے لیے بھی چندے کے اعلانات کیے جاتے ہیں یا بعض اوقات زلزلہ ، سیلاب اور عمومی آفت سے متاثر ہونے والے لوگوں کے لیے امداد کا اعلان کیا جاتا ہے۔ (جاری ہے)