عالیہ زاہد بھٹی
مایوسی کو آپ اپنی امیدوں کی روشنی سے ضوفشانی بخش سکتے ہیں جہاں کچھ ہونے اور کچھ بھی نہ ہونے کے مابین جو فرق ہے اسے پاٹتے ہوئے بہت کچھ پالینے کے راستے پر چل سکتے۔ یوں نوجوانوں کو وہ سوزِ جگر مل ہی جائے گا ،جس کی دعا علامہ اقبال نوجوانوں کے لیے کر گئے کہ
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
اقبال کی فکر میں جس تڑپ نے آگ لگا رکھی تھی وہ فکری فلسفہ تھا فلاح و کامیابی حاصل کرنے کا فلسفہ، نیکی و بھلائی کا فلسفہ، خیر وبرکت کا فلسفہ یہ نیکی بھلائی فلاح، برکت، کامیابی سب کچھ اجتماعی معاملات سے مشروط ہیں۔ معاشرے میں نوجوانوں کا رول انتہائی اہم ہوتا ہے، اپنے معاشرے کا مغز ہوتے ہیں اور اس کا آئینہ ہوتے ہیں وہ قوم کاعظیم اثاثہ ہوتے ہیں ا ور اس کا مستقبل انہیں کے دامن سے وابستہ ہوتا ہے۔
بیش ترنوجوانوں کا کہنا ہے کہ ہم تعلیم یافتہ ہیں اور ہمیں "اچھی " نوکریاں نہیں ملتیں ۔ ترقی کرنا چاہتے ہیں ہمیں اچھے مواقع نہیں ملتے ۔وغیرہ وغیرہ
کبھی آپ نے سوچا کہ من حیث القوم " جب آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو پیچھے سے ہماری ٹانگ کھینچنے والے ہماری راہ میں روڑے اٹکانے والے کون ہوتے ہیں وہ بھی " ہماری" اجتماعی زندگی میں ہمارا اپنا ہی عکس یعنی "ہم" خود ہی ہوتے ہیں جب کسی پر ہنستے ہیں، کسی کا تمسخر اڑاتے ہیں کسی کو ناکامی سے دوچار کرنے کی کوشش نہ سہی اس پر خوشی محسوس کرتے ہیں، کسی کو حوصلہ دے کر کھڑا کرنے کے بجائے، اسے گرتا دیکھ کر اطمینان محسوس کرتے ہیں تو اسی اجتماعیت میں موجود ہمارے " ہمزاد" کل من و عن اسی طرح کی کیفیات سے ہمیں دوچار کریں گے اور وقت کا پہیہ ناکامی پھیلاتا ہوا ناکام سڑک پر رواں دواں ہوتا چلا جاتا ہے، اس پہیے کو درست پہلوؤں پر گامزن کرنے کے لیے دوسروں سے توقعات رکھنے کے بجائے دوسروں کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرنی ہوگی۔
ہمیشہ مجھے ہی کیوں ؟جیسے سوال چھوڑ کر خود کو پیش کرنا ہوگا، مجھے کچھ ملے یا ناں ملے مجھ سے جو کچھ بن پڑا مجھے سب کے لئے کرنا ہے، مجھے کسی نے کچھ بھی نہیں دیا مگر اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے میں سے میں نے ہر کسی کو دینا ہے، میرا کوئی خیال نہیں رکھتا ،مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑا اسی کے لئے میں نے سب کا خیال رکھنا ہے، ہر موقع پر لوگوں نے مجھ سے چھیننے کی کوشش کی ،مگر مجھے سب کو دینے کی کوشش کرنی ہے، مجھے خیر نہیں ملی ہمیشہ شر نے راستے کھوٹے کئے ،مگر مجھے خیر تقسیم کرکے شیطان کو شکست دینا ہے، ہر برائی شیطان کا ہتھیار اور ہر بھلائی رب العالمین عطاء ہوتی ہے مجھے اگر شیطان صفت افراد ملے دنیا میں تو کیا میں بھی رحمٰن کا ساتھ چھوڑ دوں ؟وہی رحمٰن جس سے اس کے رحم کے واسطے دے دے کر ہم سوال کرتے ہیں نہیں ملتا تو شکوہ کرتے ہیں اور یہ شکوہ کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ رحمٰن کی خاطر رحمٰن کے بندوں میں ہم نے کتنا خیر تقسیم کیا جو واسطے دے دے کر اس سے مانگ رہے ہیں۔
جو بے لوث و بلا تفریق دوسروں کے کام آتے ہیں خیر، نفع و بھلائی ملے نہ ملے ہر صورت تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے ان کے پاس بھلائی اور کامیابی کے سوا کچھ بھی باقی نہیں بچتا اب وہ جھولیاں بھر بھر کر یہ کامیابیاں سمیٹتے چلے جاتے ہیں کامیابیوں کو ضرب دے کر کامیابیوں ہی کی تقسیم ہوتی چلی جاتی ہے اور اس طرح ایک فلاحی اور کامیاب معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے جس کا ہر نوجوان کامیاب ہوتا ہے، مگر اس کامیابی کو پانے کے لیے نوجوانوں ہی کو بارش کا پہلا قطرہ بننا ہوگا کامیابی ،فلاح اور بھلائی میں پہل نہ کی تو خدانخواستہ یہ سب متروک و معدوم ہو جائیں گے اور زوال پذیر معاشرت کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔
اصل بات جو دماغ میں راسخ کرلینی ہے وہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر عمل کی بنیاد الله تعالیٰ کی کبریائی اور اس سے محبّت کے اظہارپر مبنی ہو- اچھی عادتوں کو اپنانا محض اس لئے نہ ہو کہ لوگ تعریف کریں گے بلکہ اس لئے ہو کہ یہ میرے الله کو پسند ہیں۔ اس نیت اور احساس کے ساتھ کے گئے عمل سے آپ کو فائدہ بھی دہرا حاصل ہوگا۔ الله کی رضا تو حاصل ہو گی ہی آپ کے عمل میں بھی اخلاص پیدا ہوگا اویہی اخلاص لوگوں کے دلوں میں آپ کے لئے محبّت اور شکرگزاری کے جذبات پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔
بلکہ اپنی حسرتوں اور بے جا خواہشات کو وقت کے سمندر میں ڈبو کر اپنی حیثیت ،مقام اور حالات کے مطابق نئ امیدوں کی ڈور تھام کر خود بھی چلنا ہے اور اپنے ساتھ چلنے والوں کو بھی دعوت دینی ہے۔
آئیں وہ زنجیر بن جائیں جو فلاح و کامیابی کے سلسلے کی کڑی ثابت ہو اور سب مل کر ایک مضبوط فلاحی ریاست کی کڑیاں بنتے چلے جائیں، آئیں اس رمضان المبارک میں محنت کرتے ہیں مال سے جان سے وقت سے خیر پھیلا کر خیر حاصل کرتے ہیں ابھی آغاز ہے ایک بہترین انجام کا عزم کریں کہ آج سے ہم اپنی زندگی میں تبدیلی لائیں گے، اپنی مرضی کو قربان کرکے اللہ کی مرضی کو اپنائیں گے۔