• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان: محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی

تصاویر : محمد اسرائیل انصاری

شرکاء: 

فادر ماریو روڈرکس (رومن کیتھولک چرچ/ریکٹر، سینٹ پیٹرکس اسکول، کراچی)

ریورنڈ ڈاکٹر معظم جان (چئیرمین گاسپل پنٹیکوسٹل چرچ آف پاکستان)

قاضی خضر (وائس چیئرپرسن، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان)

اینتھنی نوید (سابق رکن سندھ اسمبلی/پاکستان پیپلزپارٹی)

ریورنڈ دانش پیٹر (گریس نیٹ ورک ٹرسٹ)

زاہد فاروق (اربن ریسورس سینٹر) 

اینتھنی نوید
اینتھنی نوید 

  سب سے ضروری ہے کہ ہم متحد ہوجائیں اور جو معاشرہ70 کی دہائی میں تھا اسے بحال کریں، ان دنوں مسلم عیسائی کی تخصیص نہیں تھی، اس تقسیم کا آغاز جنرل ضیا الحق کی حکومت کے بعد سے شروع ہوا جب مذہبی انتہاپسندی کا آغاز ہوا، ابھی سوئیڈن میں قرآن مجید کے حوالے سے جو ہوا میں نے خود دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر اس واقعہ کی شدید مذمت کی اور ایک ڈیکلریشن جاری کیا۔

فادر ماریو روڈرکس

ریاست کی بڑی کمزوری یہ بھی ہے کہ جو غلط ہے اسے رد نہیں کرتے بس اچھے بیانات دے کر فوٹیج چلا کر متاثرین سے اظہاریک جہتی کےلیے مذہبی لیڈر اور دیگر پہنچ جاتے ہیں، جڑانوالہ کے مجرموں کو سزا دی جائےاس طرح ریاست اپنا کردار ادا کرتی نظر آئے گی، سزائیں ملنا شروع ہوں گی تو آگے چیزیں بہتر ہونا شروع ہوں گی۔

ریورنڈ ڈاکٹر معظم جان
ریورنڈ ڈاکٹر معظم جان

ریورنڈ ڈاکٹر معظم جان

ریاست نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے سانحات سے نمٹنے کے لیے ملکی اورعالمی فورمز پر وعدے کیے ہیں اور دستخط بھی کہ ہم اپنے ملک میں انسانی حقوق باالخصوص اقلیتی طبقے کے حالات کو بہتر کریں گے، دو ہزار 14میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بڑا واضح ہے، جس میں ریاست کو پابند کیا گیا ہے، جڑانوالہ کے حادثے کو جوڑ کر دیکھیں تو ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ عبادت گاہوں اور اقلیتی لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرتی۔

قاضی خضر
قاضی خضر

قاضی خضر

ہمارے پرچم میں سفید رنگ ہماری نشاندہی کرتا ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں لیکن ایسے واقعات کے بعد ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح ریاست نے ہمیں خود سے علیحدہ کردیا ہے،ملک کی اکثریتی آبادی کو یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ اب آپ آزاد شہری ہیں یہ ملک آپ کا ہے یہاں کے رہنے والے دیگر مذاہب کے لوگ آپ کی طرح برابر کے شہری ہیں۔

اینتھونی نوید

ہمارے بزرگ کہتے تھے مسیحی ہو ہندو ہو یا کوئی اور، سب ریاست پاکستان کے برابر مالک ہیں لیکن ہم اب سمجھتے ہیں ہم ابھی صرف اقلیت ہیں،ہمیں اپنے وطن سے یہ احساس چاہیے کہ ہم اس ملک کے برابر کے شہری ہیں ،جنہوں نے ہماری مقدس کتاب اور چرچز کی بے حرمتی کی ہےان کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔

ریورنڈ دانش پیٹر
ریورنڈ دانش پیٹر

ریورنڈ دانش پیٹر

جڑانوالہ واقعہ کے بعد عیسائی برادری کے نوجوان خوف زدہ ہوگئے ہیں ،سرکار کواس برادری کو اعتماد دینے کے لیے آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا، اب ضرورت ہے کہ متاثرہ گھروں عبادت گاہوں اور کاروبار کی بحالی کا عمل تیز کیا جائے متاثرہ خاندانوں کی دل جوئی کے لیے حکومتی امداد فوری طور پر مہیا کی جائے۔

زاہد فاروق

زاہد فاروق
زاہد فاروق

ہم دیکھ رہے ہیں کہ غیرمسلم پاکستانیوں کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں،بین المذاہب ہم آہنگی بھی بڑا مسئلہ ہے، منافرت، تعصب تشدد میں شدت نظرآرہی ہے، نفرت میں اضافہ ہورہا ہے،مذہب میں محبت کی جگہ نفرت بڑھے تو اسے کسی بھی مذہب کا قتل کہنابے جا نہ ہوگا، ہمارےآج کے جنگ فورم کا موضوع سانحہ جڑانوالہ سے جڑا ہے جو 16اگست کو ہوا ۔ بانی پاکستان قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر مذہب کے حوالے سے ریاست پاکستان کے خدوخال کو واضح کرتی ہے، لیکن پھریہاں شدت پسند انتہا پسند مذہبی عناصر نے جگہ کیسے بنالی۔ 

ریاست ایسے واقعات قابو کرنے میں کیوں ناکام ہے، ہمارے قانون میں خامیاں کمزوریاں کہاں ہیں، 16اگست کے ہونے والے دل خراش سانحے کے بعد آئین اور قانون میں کیسے اصول ضابطے ہونے چاہیے،یو این او کا چارٹر کیا کہتا ہے اور پاکستان اس پر عمل درآمد کرنے میں ناکام کیوں ہے،پاکستان کے کون سے علاقے زیادہ متاثر ہیں۔

بڑھتی شدت پسندی بچوں کی ذہن سازی میں خطرناک عمل ہے، ابتدا ہی سے مذہب اور انسان میں تفریق کی تعلیم اور تربیت کرنا ریاست اور والدین دونوں کےلیے نقصان دہ ہے۔پاکستان میں غیرمسلموں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے یا اس میں اضافہ ہوا ہے،عبادت گاہوں میں منبر کا استعمال کس طرح کیا جارہا ہے اگرصورت حال قابل اعتراض ہے توکس طرح کی اصلاح ہونی چاہیے۔ہم نے نیشنل ایکشن پلان بھی بنایا تھا وہ کس حد تک قابل عمل رہا، کامیابی اور ناکامی کاتناسب کیا رہا۔ بھارت میں جب ایسے واقعات ہوئے تو پوری پاکستانی قوم نے اس رویے پر نفر ت کا اظہارکیا ہے، لہذا یہاں تو ایسے واقعات نہیں ہونے چاہیے لیکن ہورہے ہیں۔

توہین مذہب کا مسئلہ کیسے حل ہوگا،ماضی میں ایسے جرائم میں جو لوگ پکڑے گئےان میں کتنے فیصد لوگوں کو سزائیں ملیںاور نہیں تو اس کی وجہ کیا رہی،اگر سزائوں پر ہی عمل درآمد ہوجاتا تو شاید اس قسم کے واقعات میں روک تھام ہوجائے۔ان مسائل سے نمٹنے کےلیے مذاہب کے درمیان مستقل بنیادوں پر قومی سطح پر بات چیت کی ضرورت ہے، جنگ فورم کی طرح ہرسطح پر ڈائیلاگ کیا جائے، ہم سالانہ بین المذاہب ہم آہنگی کا دن مناتے ہیں، اسے ہفتہ وار منانے کی ضرورت ہے کیااس کے لیے ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے اورکیا ہمیں شدت پسندی کو قابو کرنے کے لیے بچوں کی ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہے، ان سوالوں کے جوابات کے لئے "مذہبی منافرت کا خاتمہ کیسے؟ 

سانحہ جڑانوالہ اور ریاست کی ذمہ داریاں؟ کے موضوع پر جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا جس سے فادر ماریو روڈرکس (رومن کیتھولک چرچ/ریکٹر، سینٹ پیٹرکس اسکول، کراچی) ریورنڈ ڈاکٹر معظم جان (چئیرمین گاسپل پنٹیکوسٹل چرچ آف پاکستان) قاضی خضر (وائس چیئرپرسن، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان) اینتھنی نوید (سابق رکن، سندھ اسمبلی) ریورنڈ دانش پیٹر (گریس نیٹ ورک ٹرسٹ) اور زاہد فاروق (اربن ریسورس سینٹر) نے اظہار خیال کیا،، فورم کے انعقاد میں ہمیں تعاون حاصل رہا کنسرن سٹیزن، اربن ریسورس سینٹر اورپاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن جس کے دفتر پی ایم اے ہاوس کے کانفرنس روم میں یہ پروگرام کیا گیا، جس کے لیے ہم شکر گزار ہیں۔ فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے

جنگ: وہ کون سی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے جڑانوالہ جیسے واقعات تواتر کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں؟

قاضی خضر : پاکستانی کمیشن برائے انسانی حقوق فیصل آباد کے علاقے جڑانوالہ کے پرتشدد واقعات جس میں گھروں اور گرجا گھروں میں حملے ہوئے اس کی پرزور مذمت کرتاہے یہ ناقابل برداشت ہیں،حالیہ برسوں میں ان واقعات میں اضافہ ہوا ہے ریاست غیرمسلم پاکستانیوں کے حقوق کا تحفظ کرنےمیں ناکام رہی ہے۔ریاست چلانے کا کوئی نہ کوئی طریقہ ہوتاہے،قوانین اور اصول ہوتے ہیں، ملک میں بھی ایک آئین ہے جس میں واضح کہا گیا ہے کہ تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں، ان کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے، لیکن ہم اگرصرف مذہبی بے حرمتی کے حوالے سے صورت حال جاننے کی کوشش کریں ، دوہزار بائیس میں ملک میں توہین مذہب کے 35کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں جس میں 171 افراد متاثر ہوئے اور نامزد کیے گئے ہیں، اس سے پہلے 586 افراد کو ایسے مقدمات میں نامزد کیا گیا تھا۔ 

اس میں سے65 فیصد واقعات پنجاب میں ہوئے ہیں، دوہزار بائیس کے35 کیس میں سے چھ سندھ میں باقی پنجاب میں ہوئے، اس طرح سندھ میں 20 مجموعی طور پر20 فیصد واقعات سامنے آئے اور 65 فیصد پنجاب میں، موب لنچنگ کے ملک بھر میں 9واقعات ہوئے، جس میں ہجوم نے پرتشد د کارروائی کی،یہ صرف وہ تمام واقعات ہیں جو ہیومین رائٹس کمیشن کو رپورٹ ہوئے۔ریاست کہتی ہے ملک کے سارے شہری برابر ہیں ان کے مساوی حقوق ہیں ان کے جان ومال کی ذمہ داری ریاست کی ہے،لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں ملک بھر میں اغوا برائے تاوان کے واقعات میں زیادہ تر غیرمسلم پاکستانی اغوا ہوئے جن کی ویڈیوز ریلیز کی جاتی ہے، جو سوشل میڈیا میں نظرآتی ہیں، بھتے کی پرچیاں ہیں زمینوں پر قبضے ہیں یہ سب کچھ ہوا ہے آخر میں اس کا نتیجہ کیا نکلا، لوگ اس ملک کو اپنے گھروں چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں اس کی تصدیق یوں ہوتی ہے کہ1951 پاکستان کی پہلی مردم شماری کے مطابق غیرمسلم پاکستانیوں کی تعداد27فیصد تھی، دوہزار سترہ میں ہونے والی ملک کی چھٹی مردم شماری کے مطابق تعدادگھٹ پر بہ مشکل چار فیصد رہ گئی ہے۔ 

تیزی سے اقلیتی آبادی میں کمی کی وجہ ریاست کا اپنی ذمہ داریوں کو ٹھیک سے ادا نہیں کرنا ہے،ریاست غیرمسلم پاکستانیوں کو اپناشہری ہی تسلیم نہیں کررہی وہ ان کے جان و مال کا تحفظ کرنے میں ناکام ہے،ہمارےآئین کا آرٹیکل 14 کہتا ہے ، انسانی وقار ،گھر،چادر اور چاردیواری کی حرمت کی ذمہ داری ریاست کی ہے،وہ یہ کہتے ہوئے کسی خاص یا اکثریتی مذہب کی جانب اشارہ نہیں کررہا، بلکہ تمام شہریوں جس میںمسلمان، عیسائی ہندوسمیت تمام مذاہب جنس جس میں عورت، مرد یا ٹرانس جینڈرسب شامل ہیں،جب ریاست نے ذمے داری لی ہے۔ اس کے بعد جڑانوالہ میں ریاست کی آنکھ کے نیچے لوگوں کے گھر جلائے گئے، متاثرہ مقامات خواتین کی بے حرمتی کی گئی ، خواتین اپنے بچوں سمیت خوفزدہ ہوکربے سروسامانی میں گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئیں، ان حالات کی تمام تر ذمہ دار پھرریاست ہے۔

یہ ہی ریاست اگلے ہی سانس میں وعدہ کرتی ہے اور آرٹیکل نمبر 20 کہتا ہے،ہرشخص کواپنے مذہب میں قائم رہنے اس پر عمل کرنے اس کی تعلیمات کا ذکرکرنے کا حق حاصل ہے، اسی کے اگلے پیرا میں کہتی ہے ہرشہری اپنی مذہبی عبادت گاہیں اور ادارے بناسکتا ہے اور انہیں قائم بھی رکھ سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے، ریاست ان کے تحفظ کی ذمہ داراور ضامن ہے۔ لیکن دوسری طرف دوہزار بائیس کے بارہ مہینوں میں بیس لڑکیوں کے جبری تبدیلی مذہب کے کیس رپورٹ ہوئے دوہزار اکیس میں27 کیس دوہزار بیس میں یہ تعداد 31تھی ان میں زیادہ تر کمسن بچیاں تھیں، اس پوری صورت حال کے بعد متاثرین کیسے ریاست کے وعدوں پر یقین کریں۔

جنگ: جن واقعات کا آپ ذکر کررہے ہیں ،ہیومن رائٹس کمیشن کی شکایت پرریاست کا واقعات کی روک تھام یا قانونی سازی کےلیےردعمل اورکردارکیا رہا؟

قاضی خضر : ریاست نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے ملکی اورعالمی فورمز پر ہرادارے سے وعدے کیے ہیں دستخط کیے ہیں،کہ ہم اپنے ملک میں انسانی حقوق باالخصوص اقلیتی طبقے کے حالات کو بہتر کریں گے،ریاست میں عورتوں بچوں کسانوں کے حالات بہتر کریں گے،جس کی عوض دنیا نے انہیں فائدہ پہنچانے کےلیے جی ایس پلس سے بھی نوازا ہے۔لیکن ریاست تمام وعدوں میں ملک کے کمزور طبقے اورمذہبی اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام نظر آتی ہے ،ہیومن رائٹس کمیشن 1986 میں وجود میں آیا ہے اور جب سے کمیشن پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کے نام سے سالانہ رپورٹ جاری کررہا ہے،جس میں تمام صوبوں کے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی حالت ذار کا ذکر ہوتا ہے امتیازی قوانین کی نشاندہی کرتا ہے اور کیا کرنا چاہیے یہ گائیڈ لائن بھی دیتا ہے۔

جنگ: ہیومن رائٹس کمیشن کیاکسی مقدمے میں فریق بنتی ہے؟

قاضی خضر : دوہزار 14میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بڑا واضح ہے،جس میں ریاست کو پابند کیا گیا ہے،جڑانوالہ کے حادثے کو جوڑ کردیکھیں تو ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ عبادت گاہوں اور اقلیتی لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرتی لیکن ایسا نہیں ہوا، ریاست وہاں بھی ناکام ہوئی ریاست کے قول وفعل میں تضاد نظر آتا ہے۔

جنگ: جڑانوالہ سانحے کی تازہ ترین کیا صورت حال ہے،پاکستان اسلامی ریاست ہے ،آپ کے خیال میں ایسی کون سی خامیاں جس کی وجہ سے ایسے واقعات ہورہے ہیں ،اور آپ لوگوں کی شکایات دور نہیں کی جارہی؟

ریورنڈ دانش پیٹر: پوری دنیا جانتی ہےجڑانوالہ کیا ہوا،جہاں بھی مسیحی آباد ہیں وہاں سے شکایات کی ایک لمبی فہرست ہے،حکومت کے مطابق اس نے جڑانوالہ متاثرین ہر خاندان کو فی کس بیس لاکھ دیئے ہیں، لیکن کیا یہ سارے متاثرین کو مل گئے ہیں اس کی تصدیق ابھی نہیں کی جاسکتی، ابھی پچاس افراد نے اس رقم کےملنے کا بتایا ہے، جب کہ متاثرہ خاندان کی تعداد200 کے لگ بھگ ہے۔ جس میں نذرآتش اور لوٹ مار کا شکار گھرشامل ہیں، اوربے گھر ہونے والے وہ خاندان بھی شامل ہیں جنہوں نے عدم تحفظ کے سبب اپنے گھروں کو چھوڑ دیا ہےاوردوسری جگہ چلے گئے ہیں۔

جنگ:اس ہنگامے میں کتنے چرچ متاثر ہوئے ان کی بحالی کےلیےحکومت کیا کہہ رہی ہے؟

ریورنڈ دانش پیٹر: 22چرچ مکمل جلانے کے بعد مسمار کردیئے گئے ہیں،اور اس کے علاوہ بعض ایسے چرچ ہیں جس میں گھس کر توڑ پھوڑ لوٹ مار کرکے نقصان پہنچایا گیا ہے ایسے چرچ کی تعد40 کے قریب ہے،کچھ لوگوں کے مطابق حکومت نے کہا ہے وہ انہیں ازسرنو تعمیرکرے گی۔

جنگ :جڑانوالہ کا یہ متاثرہ علاقہ کوئی خاص محلہ ہے یا کوئی پھیلا ہوا علاقہ ہے؟

ریورنڈ دانش پیٹر: پہلے دن ہی ہم اینتھنی نوید (سابق رکن سندھ اسمبلی) کی قیادت میں متاثرہ علاقے گئے ہیںسب کچھ جلاتباہ نظر آرہا تھا،متاثرہ علاقہ ایک ہی تھانے کی حدود میں شامل ہے۔تاہم میڈیا اوردیگر ذرائع متاثرہ علاقوں کے طور پر عیسی نگری اور کرسچین ٹائون صرف دو کی رپورٹ کررہے ہیں، حقیقت میں متاثرہ اس سے زیادہ علاقے ہیں، نزدیک کے کئی چک ،دیہات اور گاؤں کے کلیسا اور چرچ ہیں ، وہاں آباد کرسچین گھرانے لوٹ مار اور تشدد کا نشانہ بنے، ایسے ہی ایک علاقے میں پادری صاحب کے گھر گئے جو مکمل لوٹ لیاگیا ہے۔حکومتی امداد کے صرف بیس لاکھ روپے سے تباہ برباد لٹے خاندان بحال نہیں ہوسکتے ہم اسے لالی پاپ سمجھتے ہیں،وہاں کے متاثرہ آبادی ان پڑھ ہے انہیں اندازہ ہی نہیں ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔

جنگ: سانحے کے بعد کئی مذہبی رہنمائوں اور علما نے متاثرہ علاقوں کے دورے کیے، اس کا کوئی اثر پڑتا ہے؟

ریورنڈ دانش پیٹر: میں اسے رسمی سمجھ رہا ہوں،کیوں کہ ماضی میںسانحہ گوجرہ ہوا، لاہور کراچی سمیت ملک کے کئی مقامات پر دیگرایسے  واقعات ہوئے ہیں لیکن کسی واقعہ کا حل نہیں نکلا، اس لیے میں تو ناامید ہوں۔ ہمارے بزرگ کہتے تھے مسیحی ہو ہندو ہو یا کوئی اور سب ریاست پاکستان کے برابر مالک ہیں۔ لیکن ہم اب سمجھتے ہیں ابھی صرف اقلیت ہیں،متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں تو وہاں کی دیواروں پر لکھا ہے وی ڈو ناٹ بی لانگ ہیئر، کرسچئین ناٹ سیف، اگر ہماری قوم میں ایسے خیالات پروان چڑھنے شروع ہوگئے جس میں وہ ریاست کو اپنا ملک نہ سمجھیں اور ایسے میں مزید پر تشدد واقعات ہوئے تو ریاست میں حالات خطرناک رخ اختیار کرسکتے ہیں۔

جنگ: جنگ فورم اقلیتوں کے بجائے ہمیشہ آئینی طور پر درست لفظ غیرمسلم پاکستانی استعمال کرتا ہے،پیپلزپارٹی کا منشور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سےبڑے واضح ہے۔ اقلیت سے غیرمسلم پاکستانی بننے میں مزیدکتنا سفر باقی ہے جہاں سب خودکو برابر کے شہری سمجھیں؟

انتھونی نوید: پاکستان کی غیرمسلم اکائیاںجب بھی مشکل میںآئیں، جنگ فورم مددمیں ایک قدم آگے ہوتا ہے،ریکارڈ کی درستگی کے لیے چند غیرسرکاری تنظیموں کے مطابق جڑانوالہ حادثے میں 26 کے قریب چرچ نذرآتش کرکے تباہ کئے گئے ہیںاور 500 کے قریب خاندان متاثر ہوئے ہیں جس میں 126 گھر ہیں۔جڑانوالہ ایک ٹائون ہے جس میں دو بڑی آبادیاں کرسچین ٹائون اور عیسی نگری ہیں۔کرسچین کالونی قیام پاکستان سے پہلے کی آبادی ہے اس کے اطراف میں مسیحی آبادی کے آٹھ سے دس دیہات کو براہ راست نشانہ بنایا گیا،ان کی عبادت گاہوں ،گھروں اور املاک کو تباہ و برباد کیا گیا۔

جس میں عیسی نگری،کرسچین کالونی، نشاط کالونی ،اسد کالونی،چک نمبر دو ۔ناصرکالونی،چک نمبر,240,238وغیرہ اور بہت سے دیہات ہیں۔بڑے چرچ میں کیتھولک چر چ اور دیگر ہیں اس کے علاوہ گھروں میں بنائی گئی سات آٹھ عبادت گاہیں بھی شامل ہیں۔ اقلیت ،غیرمسلم پاکستانی اور پاکستانی بننا یہ الجھن 1947 سے موجود ہے۔90 کی دہائی سےکبھی شانتی نگر، گوجرہ، سانگلہ ہل ،فیصل آباد ،لاہور ایک طویل داستان ہے ایسے واقعات رک نہیں رہے، ابھی تازہ ترین جس علاقے کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا، جڑانوالہ سے مراد جڑیں ہیں، اس علاقے کی جڑیں اس علاقے کی تحریک آزادی سے سے جاکر ملتی ہیں، یہ انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے اعلان جنگ کرنے والے کردار بھگت سنگھ کا علاقہ ہے، قیام پاکستان سے پہلےیہ سکھ اکثریت علاقہ تھا ہندووں کی بھی بڑی تعداد آباد تھی ،مسلمان کثیر تعداد میں آباد تھے عیسائی آباد تھے، وہاں 1906سے بنا ہوا گورنمنٹ اسلامیہ اسکول ہے۔ 

سب ایک عرصے تک ساتھ رہے ہیں، اس کارروائی سے ان جڑوں کو کاٹنے کی کوشش کی گئی ہے،آج ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیںہمارے پرچم میں سفید رنگ ہماری نشاندہی کرتا ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں لیکن ایسے واقعات کے بعدہمیں یہ محسوس ہوتا ہے جیسے اس طرح ہمیں ریاست نے پہلے دن سے علیحدہ کردیا ہے،جسے متواتر مختلف واقعات سے ثابت بھی کیا ہے۔ 1973 کا آئین بنیادی انسانی حقوق سے بھرا ہوا ہے، ریاست ہرچیز آئینی طور پر مہیا کرتی ہے، تو اگر اس قسم کے حادثات ہوجائیں تو ریاست ایسے اقدام کرے، ایسی مثال قائم کرے کوئی سچا ہے یا جھوٹا، ریاست رٹ قائم کرنے کے لیےاس کی کوئی مثال قائم کرے، شانتی نگر جلا پھر گوجرہ جلایا وغیرہ وغیرہ آج تک کسی کو سزا نہیں ملی، اگر کسی نے جھوٹا الزام لگایا تو اس کے خلاف کوئی کارروائی تو ہو کوئی مثال نظر آئے، ریاست اپنا ردعمل بھی تو دکھائے۔آج پھر جڑانوالہ پر سب سرجوڑ کر بیٹھے ہیں، لیکن دوسری طرف پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ نے پہلے دن جائے وقوع کا دورہ کیاتو تو اس ہی دوران چک 238 میں اس دباؤ کی وجہ سے ایک متاثرہ شخص اعجاز مسیح دل کا دورہ پڑنے سےاپنی جان گنوا بیٹھا، تو علم ہونے پر وزیراعلیٰ پنجاب کو مرحوم کے گھر تعزیت کےلیے جانا چاہیے تھا لیکن وہ نہیں گئے۔

جب ہمارے نگراں وزیراعظم وہاں گئے تو پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ نےاس موقع پرکہا کہ آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ وزیراعظم نے حلف اٹھاتے ہی پہلا دورہ جڑانوالہ کا کیا ہے اتنے افسوس ناک حادثے کے بعد کیا یہ بات کہنے کی تھی یہ بے حسی ہے ہمارا موقف واضح ہے کہ پاکستان سوفیصد مذہبی انتہاپسندی کا شکار نہیں ہے لیکن ریاست کو ان مثبت قوتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جو اس موقع پر مسیحی خاندانوں ان کی عبادت گاہوں کو بچانے کے لیے مدد کے لیے کھڑے ہوگئے، اپنے گھروں کے دروازے اور مسجدیں کھول دیں اور کہا کہ آپ یہاں آئیں ابھی آپ کی عبادت گاہ جلی ہوئی ہے۔ہمارا کہنا ہے پاکستان کا آئین اور قانون جو کہتا ہے ان واقعات کے ذمہ داروں کےخلاف اسی کے مطابق کارروائی کی جائے۔ لہذا ان قوتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

جنگ: کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ اس قسم کے شدت پسندی کے واقعات کا تعلق مذہبی عقیدے سے زیادہ سماجی ہے ، جڑانوالہ واقعات کی ویڈیو میں نوجوان اور کم سن بچے نظر آرہے ہیں جو خودبھی عبادت نہیں کرتے ہوں گے یہ مذہبی سے زیادہ گروہی اور سماجی مسئلہ نظر آتاہے،ہماری تربیت کی خامیاں ہیں معاشرے میں عدم برداشت کا بڑھنا ہے؟

ریورنڈ ڈاکٹر معظم جان: مجھے اس بات سے اختلاف ہے کیوں کہ پھر میرا سوال ہے کہ سماج میں یہ رویہ کیسے پہنچا کیسے،اس کی بنیاد مذہبی ہے،اس قسم کے حادثات اور واقعات جب ہوئے اس کے پس منظر کا نعرہ کیا تھا،اور وہ نعرہ کہاں سے لگتا ہے۔اگرسماج میں مسلمانوں کے ساتھ غیرمسلم پاکستانی بھی شامل ہیں، پاکستانی تاریخ کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ اقلیتی برادری کبھی کسی پرتشدد گروہی واقعات میں شامل نہیں رہے،کیا غیرمسلم پاکستانیوں کے بچے اور نوجوان نہیں۔

جڑانوالہ حادثات جیسے دیگر جو بھی واقعات ہوئے ہیں ،اس کےلیے عبادت گاہوں کا استعمال ہوا ہے،لوگ منبر کا احترام کرتے ہیں توجب وہاں سے کوئی بات ہوتی ہے تو لوگ تسلیم کرنےپر مجبور ہوجاتے ہیں،اور بے ہنگم ہجوم ان کے ساتھ چل پڑتا ہے، لہذا منبر کا استعمال بہت احتیاط سے ہونا چاہیے،کسی بھی طرح اس کے استعمال کرنےکے کچھ قاعدے قوانین رائج کیے جائیں، جہاں سے ایسے اعلانات کئے جاتے ہیں،جو کرتا ہے اس کےخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی، لیکن اس آوازپر ردعمل دینے والے نوجوان اور بچے کو پکڑلیا جاتا ہے، واقعہ کے سرغنہ کے خلاف کچھ نہیں ہوتا ،جڑانوالہ واقعے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے،ہماری اطلاع کے مطابق علاقے کا تنظیمی لیڈرجو نعرے لگارہا تھا وہ مبینہ طور پر آئی جی پنجاب کے ساتھ متاثرہ علاقوں کا دورہ کررہا ہے،جو آئی جی صاحب خوف زدہ ہوکر ایسے شخص اپنے ساتھ رکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں، وہ کہتے ہیں ہم فرانزک کررہے ویڈیوز کی بنیاد پر انٹیلی جنس کی بنیاد پرگرفتاریاں کررہے ہیں،تویہ کیس ناقص تحقیقات ہے ،مبینہ نعرے لگانے والا بغل میں اور لوگوں کی گرفتاریاں ہورہی ہیں۔ ہمارا موقف ہے ایسے واقعات میں مذہب اور مذہبی مقام کا استعمال ہوتا ہے ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔

ہمارے معاشرے میں ایسے بھی مولوی حضرات تھے جنہوں نے متاثرین کے لیے اپنی مسجدوں کے دروازے کھول دیے،بہت سارے اسلامی ادارے اظہار یک جہتی کےلیے پہنچے ہیں،لیکن یہ کوئی حل نہیں ہےکسی ایک نے نقصان پہنچایا اوراس کے بعد چاراظہار یک جہتی کےلیے ہمدردی کےلیے پہنچ گئے ان کے آنے سے جو نقصان ہوجاتا ہے وہ پورا نہیں ہوتا۔لہذا ہم نے چار ٹھیک لوگوں کی تعریف نہیں کرنی جو ایک غلط ہے اس کے خلاف کارروائی اور اسے غلط قراردینا ہے۔ ریاست کی بڑی کمزوری یہ بھی ہے کہ جو غلط ہے اسے رد نہیں کرتے بس اچھے بیانات دے کر فوٹیج چلاکر، متاثرین سے اظہاریک جہتی کےلیے کئی مذہبی لیڈر اور دیگر پہنچ گئے ہیں، ہمارے لوگ جو پہلے ہی ڈرے ہوتے ہیں وہ ان کے احترام میں چپ کرجاتے ہیں لہذا یہ حل نہیں۔ 

ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے آئین اور قانون میں جو ہمیں تحفظ دیا ہے اس میں چھوٹا بڑا نہ دیکھے، جس نے غلط کیا اسے سزا دے،اگر کوئی کرسچین ایسے کسی جرم میں ملوث ہے تحقیق کرکے سزا دیں ہم کوئی شکایت نہیں کریں گے۔ہماری خواہش ہے اس واقعات کی روک تھام کے لیے منبر پر چیک رکھیں ہمارے نصاب میں مذہبی تعلیمی اداروں میں مذہبی انتہاپسندی شامل ہوگئی ہے ہم نے خوف کی وجہ سے ان پر چیک اینڈبیلنس نہیںرکھا ہے ۔پولیس بھی کام نہیں کرپاتی اگر پانچ سو یاہزار کا مشتعل ہجوم سامنے ہوگا تو پولیس اسے قابو کرنے کےلیے گولی کیسے چلاسکتی ہے۔

اس قسم کےچند واقعات سندھ میں کچھ بلوچستان اورکچھ پشاور میں ہوئے ہیں،لیکن اس کا مرکز صوبہ پنجاب ہے اور خاص طور پر جنوبی پنجاب ہے۔جب کسی سوسائٹی کوبزور طاقت دبایا جائے گاتو ردعمل کسی صورت اچھا نہیں ہوتا، ہمیں پہلے پرچم سے پھر آبادیوں سے اور اب یہ صورت حال ہے کہ ہمیں لگنے لگا ہے کہ ملک سے بھی علیحدہ کیا جارہا ہے، کچھ لوگوں کی خواہش ہے ہم کہیں اور ہی چلے جائیں ،آبادی میں کمی کی وجہ ایک تو ہمیں ٹھیک سے گنا نہیں جاتا ، دوسرا ہمیں مارا جاتا ہے اور تیسرا ہم ڈر کر بھاگنا شروع ہوگئے ہیں، اور اب جو نعرے آرہے ہیں وہ بہت خطرناک ہیں،تحریکیں ان ہی حالات کے سبب شروع ہوتی ہیں، کسی سوسائٹی کو نظرانداز کریں گے اس کو دیوار سے لگایاجائے گا تو پھر وہ جوابی طور ردعمل کا اظہار کرتی ہے۔کرسچین ہمیشہ سے آج تک پاکستان کے مفاد میں بات کرتے ہیں لیکن بدقسمتی دیکھیں جوصوبہ ہمارے ووٹ سے پاکستانی حصہ بنا ہماری زیادہ پٹائی اسی جگہ ہورہی ہے، یہ انتہاپسندی سماج اورنصاب کا مسئلہ ہے سوسائٹی کی بہت تربیت کی ضرورت ہے۔

جنگ: اس حادثے پرمیڈیا کا کردار کیسا رہا ہےَ؟

ریورنڈ ڈاکٹر معظم جان: جڑانوالہ واقعہ پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا کردار مثبت رہا ،ملکی اور عالمی دونوںکا کردار اچھا تھا،جڑانوالہ کا واقعہ اس حوالے سے بڑا تاریخی تھا دنیا میں کہیں بھی اتنی بڑی تعداد میں چرچ کو نہیں جلایا گیا۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑرہا ہے ہمارے مذہبی ہم آہنگی کے ادارے اس طرح کے واقعات میں کہیں نظر نہیں آتے۔

جنگ: مذہبی ہم آہنگی کے لیے تمام مذاہب کے تہواروں کو ہم کس طرح استعمال کرسکتے ہیں؟

  
فادر ماریو روڈرکس
فادر ماریو روڈرکس 

فادر ماریو روڈرکس: اس کے لیے سب سے ضروری ہم متحد ہوجائیں،جو معاشرہ70 کی دہائی میں تھا اسے بحال کریں، ان دنوں مسلم عیسائی کی تخصیص نہیں تھی، اس تقسیم کا آغاز جنرل ضیاالحق کی حکومت کے بعد سے شروع ہوا، مذہبی انتہاپسندی کا آغاز ہوا۔ ابھی سوئیڈن میں قرآن مجید کے حوالے سے جو ہوا میں نے خود دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر اس واقعہ کی شدید مذمت کی اور ایک ڈیکلریشن جاری کیا جو سوئیڈن بھیجا گیا ہے ہم نے سوئیڈن حکومت کو اس میں کہا تھا کہ آج کے بعد ایسے واقعات نہیں ہونے چاہییں،ایسے لوگوں کوکڑی سز ا دینی چاہیے، لیکن پھرجڑانوالہ میں کئی بائیل مقدس اور ،چرچ نذرآتش کئے گئے۔

جنگ: آپ کا تعلق تعلیم کے شعبے سے ہے ،عام نصاب اور آپ کے نصاب میں کیا فرق ہے جو آپ انسانیت کو پروان چڑھارہے ہیں؟

فادر ماریو روڈرکس: ہمارا زیادہ زور ویلیوز پر ہوتا ہے، دیگر ادارے بھی اس طرح کام کریں تو حالات بہترہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔

جنگ : ہم آئندہ ان واقعات سے کیسے بچ سکتے ہیں کیسے تدارک کیا جائے؟

انتھونی نوید:جب تک ہم اپنے ملک کے بچوں کی ذہن سازی نہیں کریں گے ایسے واقعات نہیں تھمیں گے، اس کی بنیاد ہمارانصاب ہے، نصاب کو 360 کے زاویے سے جاکر نصاب میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے، برداشت پڑھانے کی ضرورت ہے، ایک دوسرے کی قبولیت کو پڑھانے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے بچوں کو تحریک پاکستان، تشکیل پاکستان ،قیام پاکستان کے اصل حقائق اور اصل کردار بتانے ہوں گے۔

جنگ: سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے نصاب کےلیے علیحدہ کمیشن بھی قائم کیا ہے تو اس میں تاخیر کیوں ہورہی ہے؟

انتھونی نوید: حکومت سندھ نے یک نصابی اس کو ہم نے مسترد کیا تھا اور سندھ کے نصاب میں آپ کو ملالہ، عبدالستار ایدھی سسٹر روتھ فائو ہوش میں شیدی یہ سب کچھ پڑھنے کوملے گا،سندھ حکومت نے اس پر واضح اسٹینڈ لیا ہے، ہم اپنے اصل ہیروز اور مذاہب میں ہم آہنگی کو پروموٹ کرنا چاہ رہے ہیں۔

قاضی خضر : جڑانوالہ میں لوٹ مار کے واقعات بھی ہوئے خواتین کے زیور لوٹے گئے،سترکی دہائی کے آخر میں افغان جنگ کا آغاز ہوا،ہم نے اس جنگ کا حصہ بنے،اپنے نوجوانوں کو عسکری تربیت کے لیےٹریننگ کیمپ قائم کیے گئے،پھر مذہبی نفرت پیدا کی گئیں، اسلحے، منشیات کو عام کیا گیا، ان ہی دنوں نصاب تعلیم تبدیل کرکے اس میں نفرت کو پروان چڑھایا گیا، نصاب میں بتایا گیا کہ یہ ملک مسلمانوں نے بنایا ہے یہ صرف ان ہی کا ملک ہے،جب کہ پنجاب میں رائے شماری کے موقع پر جب معاملہ ٹائی کرگیا تھا تو اس موقع پر پنجاب اسمبلی کا اسپیکر جو عیسائی تھا وہ اگر پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتا تو آج پنجاب پاکستان کا حصہ نہ ہوتا، ہمارے نصاب تعلیم میں سب کا ذکرہےلیکن غیرمسلم نامور پاکستانی جن کا تعلق عدلیہ ،فوج ،سماجی خدمات سمیت یا شعبوں سے رہا ہے ان کا ذکر نہیں ملے گا۔

ہمیں اپنے ملک کو اگر بہتر کرنا ہے تو ہم نے جو بین الاقوامی سطح پر وعدے کیے ہیں اسے پورا کرنا چاہیے، ورنہ دنیا رابطے ختم کرلے گی آپ کی یورپی یونین سے ایکسپورٹ خطرے پڑجائے گی،آپ کو بین الاقوامی یو ڈی ایچ آر پر دستخط کیے ہوئے ہیں اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔نصاب تعلیم کو بہتر کرنا ہوگا آپ کا نصاب کسی ایک مذہب کےلیے نہیں سب کےلیے یکساں کرنا ہوگا، ریاست کو 2014 کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عمل کرنا ہوگا اس کے بغیر ملک کو آگے نہیں لے جاسکتے۔

جڑانوالہ ہنگامے میں بلوائی آئے کر فوری فرار نہیں ہوئے بلکہ وہ صبح دس سے رات دس تک علاقے میں موجود رہے اور جلاو گھیراو کرتے رہے تھے، انتظامیہ پولیس سب کو معلوم تھا وہاں کیا ہورہا ہے، ہمارا سوال ہے یہ پوری انتظامیہ اس وقت کہاں تھی،جڑانوالہ میں تحصیل سطح پر امن کمیٹی موجود ہے لیکن بدقسمتی دیکھیں اس کمیٹی میں عیسائی برادری کاکوئی بھی شخص شامل نہیں۔ ریاست کو ان سب سوالوں کے جواب دینے چاہیں، کیوں کہ پھرہم سمجھنے پر مجبور ہیں ریاست ہی ایسے گروہوں کی پشت پناہی کررہی ہے ،اور جمہوری قوتوں کے خلاف ان کے ذریعے دھرنے کرواتی ہے، دھمکیاں دلواتی ہنگامے کرواتی ہے پھر ان میں پیسے تقسیم کرتی ہے۔

زاہد فاروق: جڑانوالہ واقعہ کے بعد عیسائی برادری کے جوان نوجوان خوف زدہ ہوگئے ہیں ریاست ،سرکار کواس برادری کو اعتماد دینے کےلیے آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔ اب کیا کیا جائے سانحہ ہو چکا سانحے کے بعد اس علاقے مسیحی اور اس کے علاوہ بھی ملک بھر کے مسیحی خاص کر نوجوان ذہنوں میں یہ ایک سوال زیادہ شدت سے سامنے آیا ہے کہ کیا ہم پاکستانی نہیں کیا پاکستان کی بنیادوں میں ہمارا خون نہیں پاکستان کے دفاع میں ہمارا کردار نہیں کیا پاکستان بنانے کے لیے جب اس وقت کے منتخب ایوانوں میں میں ووٹنگ ہوئی تو کیا اس وقت کی مسیحی قیادت نے پاکستان کہ حق کے لیے ووٹ نہیں دیا تھا اگر اس وقت وہ چار اضافی ووٹ موجودہ پنجاب کو پاکستان میں شامل کرنے کے لیے پڑے کیا وہ مسیحیوں کے نہیں تھے۔ کیا دنیا بھر میں شہریت کی درجہ بندی ہوتی ہے ہمارے جو پاکستانی باہر کے ملکوں میں ہیں اور وہاں کی شہریت لیے ہوئے ہیں کیا وہاں ان کو سیاسی معاشی حقوق حاصل نہیں کیا وہاں درجہ بندی ہےخوف کی اس فضا میں ہر کوئی اس مسئلے کا حل اپنے طور پر تلاش کر رہا ہے۔

اب ضرورت ہے کہ متاثرہ گھروں عبادت گاہوں اور کاروبار کی بحالی کا عمل تیز کیا جائے متاثرہ خاندانوں کی دل جوئی کے لیے حکومتی امداد فوری طور پر مہیا کی جائے خوف کی فضا کے خاتمے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ حکومتی وسائل متاثرہ کمیونٹی کے علاقوں میں مہیا کیے جائیں اس کے علاوہ روزگار فراہم کیا جائے حکومتی کلیسیائی اور سول سوسائٹی کے ادارے مل کر مسیحی کمیونٹی کے لیے اضافی وسائل مہیا کریں انتظامی امور میں شراکت کو بڑھایا جائے منتخب اداروں میں نمائندگی کو بڑھایا جائے تمام شہریوں کو برابری کی سطح پر بین الاقوامی چارٹر کے مطابق حیثیت دی جائے عزت نفس کو بحال کیا جائے ذہنی طور پر مفلوج طبقے کی تربیت کے لیے انتظام کیا جائے ایسی تمام سیاسی جماعتوں پر فوری پابندی لگائی جائے جو مذہب فقہ یا زبان کے بنیاد پر تشدد کی کاروائیوں میں ملوث تھیں یا اب ہیں۔

دنیا میں ہمیشہ وہی معاشرے ترقی کی منازل تیزی سے طے کرتے ہیں جہاں معاشرے میں طبقاتی اور سماجی اور سیاسی تقسیم نہیں ہوتی اب ضرورت ہے کہ حکومت اور حکومتی ادارے تمام ان فیصلوں پر عمل درآمد کے حوالوں سے حوالے سے اور آئینی امور کا بھی جائزہ لیں جن کی بنیاد پر معاشرے میں تقسیم کا عمل بڑھ رہا ہے وہ طبقہ ہمیشہ غلبہ حاصل کر لیتا ہے جو مذہب کی بنیاد پہ اپنے اپ کو اگے بڑھاتا ہے اور وہ طبقہ ہمیشہ پیچھے رہ جاتا ہے جو انسان کی برابری کی بات کرتا ہے تعلیمی نصاب کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے نفرت انگیز مواد کو اب نصاب سے نکال کر ہی ہم آئندہ کے لیے متوازن سماج تعمیر کر سکتے ہیں ایک ایسا سماج جس میں تمام انسان برابر ہوں تمام انسانوں کو برابری کے حقوق حاصل ہوں ہر ایک کا مذہب اس کا ذاتی مسئلہ ہو۔

فورم کو اوپن کریں گے

پاسٹرخرم: یہاں سیاسی بانجھ پن کیسے دور ہوگا،اس قسم کے واقعات نے عیسائی برادری کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ یہ ملک ہمارا نہیں ہے۔

پاسٹرریاست: ملک بھر میں عیسائی برادری کے کئی بڑے تعلیمی ادارے اور اسپتال قائم ہیں ،ان تعلیمی اداروں سے کئی لوگ پڑھ کر ترقی کے منازل طے کی ہیںاوراچھے پاکستانی بنے ہیں،تو ہم نے ہمیشہ محبت کی تعلیم دی ہے۔

پادری انمول ڈین: نصاب بدلا جائے اورپاکستان کے لیے خدمات اد اکرنے والے نامور عیسائی و دیگرمذہبی اقلیتی ہیروزکا ذکر ہونا چاہیے چرچ کا تقدس کسی بھی سرکاری ادارے سے زیادہ ہے لہذاجس طرح 9مئی کے واقعات کی تفتیش ہوئی بالکل اسی طرح جڑانوالہ حادثے کی بھی ہونی چاہیے۔

کاشف اینتھونی: ہم جمہوری مزاج رکھنے والے لوگ ہیں ہم ووٹ کے ذریعےاپنے نمائندے منتخب کرنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر جےپال: ہماری ریاست چاہےتو یہ ایسے تمام واقعات کو قابو کیا جاسکتا ہے،دنیا کے دیگر مسلم ممالک جیسے بنگلہ دیش،انڈونیشیا،وہاں ایسے واقعات نہیں ہوتے ۔لیکن یہاں ہوجاتے ہیں ،انتظامیہ ہمیشہ نقصان پہنچنے کے بعد کیوں موقع پر پہنچتی ہے،توہین مذہب کے قانون کو فول پروف اور محفوط بنایا جائے۔

سلیبس میں نہیں بتایاجاتاکہ  ایس پی سنگھانیہ ،جوگندر ناتھ منڈل نے بھی پاکستان بنایا تھا، سائمن کمیشن میں عیسائی برادری نے لکھ کردیا تھا کہ ہمیں پاکستان میں شامل کریں۔ یہ سب کچھ نصاب میں پڑھایا ہی نہیں جاتا،ہمارے یہاں ایسی فلم اور ڈرامے نہیں بنتے جس میں ہندو عیسائی مسلمان دوست ہوں، غیرمسلم پاکستانیوں کے آئین کے مطابق برابری کا حق دینا پڑے گااور یہ بانی پاکستان قائد اعظم کا خواب تھاان کی گیارہ اگست کی تقریر موجود ہے۔

پاسٹر افضل بھٹی: ہمارے بچے اتنے مایوس ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم پڑھ لکھ کر کیا کریں گے ہمیں یہاںکوئی باعزت عہدہ تو ملنا نہہیں ہے۔ یہ مایوسی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

الیاس سمیوئل: لاہور میں چند روز قبل دوبچیاں رکشے میں سوار تھیں ڈرائیور کو جیسے ہی معلوم ہوا اس نے انہیں اتار دیا اور کہا کہ تم نے رکشے میں بیٹھ کر اسے ناپاک کردیا ہے۔شدت پسندی بہت بڑھ رہی ہے نصاب میں تبدیلی کے بغیر اسے قابو میں نہیں کیا جاسکتا۔

پادر ی شہباز: غیر مسلم نوجوانوں کو قانون ساز اداروں میں بھی نمائندگی دی جائے۔

پادری اسٹیفن: گوجرہ سے لے ہر واقعہ کے بعد میٹنگز ہوئی اس کا کیا نتیجہ نکلا ،اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟

جنگ:میڈیا کا کام ذہن سازی کرنا ہے، لوگوں کی آواز آگے پہنچانا ہےجنگ فورم اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہے۔

عارف بھٹی:جڑانوالہ حادثے کی وجہ توہین مذہب کے الزام لگا کر ہوا ہے لیکن جڑانوالہ میں مقدس اوراق ہمارے مقدس مقامات جلائے گئے یہ سب کچھ سب کے سامنے ہوا توہین مذہب پرجو سزاغیرمسلموں کے لیے ہے سانحہ جڑانوالہ میں جہاں مقدس اوراق نذرآتش ہوئے،توہین مذہب کے قانون کے تحت جرم کرنے والے ان مسلمانوں کوسزائے موت یا عمرقید ملے گی ۔

امرت رضا: ہمارے زمانے میں دینیات مضمون پڑھایا جاتا تھا ، اب اس کا نام اسلامیات ہے ، عیسائی بچے اسلامیات کا مضمون پڑھتے ہوئے ہچکچاتےہیں جس کئی وجوہات ہیں،اب نصاب میں چاہے وہ مضمون اردو ہو یا سائنس سب میں اسلامیات پڑھائی جارہی ہے، یعنی مسلم پس منظرزیادہ نمایاں کیا جاتا ہے۔دیگر مذاہب کے نمایاں لوگوں کا ذکر بھی کرنے کی ضرورت ہے۔

نعیم شاہد غوری: کئ چرچز کی دیواروں پر اکثریتی مذہب کے نعرے لکھے ہوئے ہیں چرچ انتظامیہ اسے ہٹائے یا مٹائے گی تو توہین مذہب کا الزام لگ جاتا ہے،اس کا کیا حل ہے۔جڑانوالہ سانحے میں سرکار کے مطابق سات کروڑروپے کا نقصان ہوا ہے، یہ پیسہ وہ ہے جو پاکستانی قوم کے ٹیکس سے جمع ہوا تھا،تو ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے کسی شخص کے پاگل پن کے نتیجے میں قومی سرمایہ ضائع نہ ہو۔اس واقعہ میں بلوائیوں کےساتھ کمسن بچے بھی نظر آئے ان کی شناخت کرکےدرست تربیت کی ضرورت ہے۔ہمیں قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کو ریاست کا بیانیہ بنانے پڑے گا۔

صابر پرویز: قرآن کریم ہمارے لیے بہت قابل احترام ہے،جس کتاب میں حضرت عیسی علیہ سلام کا ذکر موجود ہو کوئی عیسائی اس کی بے حرمتی کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔

وجیش پرتاب: ہم نے نیویارک میں پاکستانی کرسچن برادری کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور آج میں جنگ فورم کا مشکور ہوں جنہوں نے اج کے فورم میں تارکین وطنوں کی آواز کو بھی شامل کیا ہمارا بس ایک ہی مطالبہ کہ ریاست اتنی کم زور کیوں؟ کیا ریاست ایسے مسائل پر نو مئی واقعات کے بعد والا ایکشن کا مظاہرہ نہیں کرسکتی کیا، کیوں نہ ایسی مثال قائم کی جائے کہ جناح ہاوس کی طرح جناح کے پاکستان کے اقلیتی شہریوں کے گھروں مسمار کرنے والوں بھی احتساب اُسی طرح کیا جائے۔

ریورنڈ دانش پیٹر: ہمیں اپنے وطن سے یہ احساس چاہیے کہ ہم اس ملک کے برابر کے شہری ہیں جس کے لیے جنہوں نے ہماری مقدس کتاب اور دیگر کی بے حرمتی کی ہےان کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔

نوید اینتھونی: باتیں بہت ہوگئی ہیں اب عملی کارروائی ہونی چاہیے،انصاف ملتا نظر آنا چاہیے، ملک کی اکثریتی آبادی کو یہ یقین دلانے کی ضرورت ہےاب آپ آزاد شہری ہیں یہ ملک آپ کا ہے یہاں کے رہنے والے دیگر مذاہب کے لوگ آپ کی طرح برابر کے شہری ہیں انہوں نے بھی اس ملک کے لیے جان ومال ہرچیز کی قربانی ایسی ریاست کےلیے دی تھی جہاں سب کے برابر کے حقوق ہوں۔

قاضی خضر: گزشتہ دنوں میرا اڈیالہ جیل جانے کا اتفاق ہوا وہاں توہین مذہب کے کیس میں 60افراد قید ہیں جس میں اساتذہ ،انجینئر ،ڈاکٹر پادری ہرشعبے کے لوگ شامل ہیں، کیسز سالوں سے چل رہے ہیں، ایسے مقدمات میں ثبوت نہیں ہوتے ،لوگ رہا ہوجاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جس نے جھوٹا الزام لگایا ہے وہ کہاں کھڑا ہے ،تو ریاست کو اس کے سدباب کےلیے اقدامات لینے ہوں گے بصورت دیگر ہم اس کا ذمہ دار ریاست کو ہی سمجھیں گے۔

ریورنڈ ڈاکٹر معظم جان: ہماری خواہش ہے کہ جڑانوالہ کے مجرموں کو سزا دی جائےاس طرح ریاست اپنا کردار ادا کرتی نظرآئے گی، سزائیں ملنا شروع ہوں گی تو آگے چیزیں بہتر ہونا شروع ہوں گی۔