اسلام آباد( فخر درانی) ایک چینی سرمایہ کار اپنے پاکستانی شراکت داروں کی جانب سے کیے گئے ایک کروڑ 30 لاکھ ڈالر کے مبینہ فراڈ میں انصاف کے حصول کےلیے دردر کے دھکے کھا رہا ہے۔ پاکستانی شراکت داروں نے اسی نام سے دوسری کمپنی بنالی، آمدن دوسری کمپنی کے اکائونٹ میں ڈالتےرہے مدعی کو کیس کی پیروی کےلیے شنگھائی سے آنا پڑتا ہے ایف آئی اے عہدیدار کا کہنا ہے کہ کیس کسی کے سپرد کرنا اختیارہے ، 2020 کی بات ہے جب ایک چینی شہری ژی چینگ لی نے ایف آئی اے کے پاس اپنےپاکستانی شراکت داروں کے خلاف 13 ملین ڈالر کے فراد کی شکایت درج کرائی تھی۔ ایف آئی اے نے اس کیس میں انکوائری شروع کی لیکن پراسرار طور پر بغیر کسی پیشرفت کے روک بھی دی۔ تفتیشی ایجنسی نے بعد میں اس کیس کو اٹھایا لیکن کیس ایک سے دوسرے محکمے میں بھیجاجاتارہا۔ ایف آئی اے اسلام آباد زو ن کے ڈائریکٹر نے انکوائری نمبر 53/2020 کمرشل بینکنگ سرکل سے اینٹی کرپشن سرکل کو بھجوائی اور اس دوران شکایت کنندہ ژی چینگ لی عرف ڈونلڈ کو اپنا موقف تک بیان کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ژی چینگ لی کا تعلق شنگھائی سے ہے۔ ژی چینگ لی نے ا دوران کئی مرتہ پاکستان کا دورہ صرف اپنا کیس ایف آئی اےمیں رجسٹر کرانے کےلیے کیا۔ ژی چینگ لی کے مطابق جونہی انہوں نے کیس میں تمام شواہد پیش کیے تو اس کے متعلقہ ڈائریکٹر نے یہ کیس ملزم کی درخواست پر ایک غیر متعلقہ ڈپارٹمنٹ کو بھجوادیا۔ ایف آئی اے کے اس ڈائریکٹر نے تیزی سے کاروائی کرتے ہوئے تین دن کے اندر اس انکوائری کو شفٹ کیا اور اس نے شکایت کنندہ کی جانب سے شنوائی کی درخواست کو بھی نظر انداز کیا حالانکہ وہ شنگھائی سے اس کیس کی پیروی کرنے کےلیے آیا تھا۔ دستاویزات کے مطابق اس کا تعلق 2015 سے ہے جب چینی ایچ بی پی نے آئل اینڈ کیس ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( او جی ڈی سی ایل) کی جانب سے 178 ملین ڈالر کا کنٹریکٹ حاصل کیاج جو کہ خیبر پختونخواہ کے ضلع کرک کے ناشپا آئل فیلڈ سے ملحقہ تنصیبات میں گیس پروسیسنگ یونٹس ، ایل پی جی ریکوری پلانٹ کی فراہمی کا کنٹریکٹ تھا۔ چین کی ایچ بی پی ژی چینگ لی کی قائم کردہ کمپنی سے معاہدہ تھا۔