اسلام آباد (عمر چیمہ) عام عوام کو معلومات تک رسائی کے حق کی فراہمی کیلئے بذریعہ قانون تشکیل دیے گئے ادارے ’’پاکستان انفارمیشن کمیشن‘‘ کو اسی دوا کا مزہ چکھنا پڑ رہا ہے جو وہ اکثر دوسروں کیلئے تجویز کرتا ہےیعنی معلومات کی فراہمی۔
کمیشن سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے تین کمشنرز میں سے ایک کے حوالے سے معلومات فراہم کرے تاہم کمیشن نے اس صورتحال پر فضول وجوہات کی بناء پر لیت و لعل سے کام لینا شروع کر دیا ہے۔
چند ماہ قبل، ایک آزاد (فری لانس) صحافی نے معلومات تک رسائی کے قانون کا سہارا لیتے ہوئے وزارت اطلاعات کو خط لکھا کہ انہیں ایک صحافی کے حوالے سے معلومات درکار ہیں جنہیں ادارے کا کمشنر بنایا گیا تھا۔
اگرچہ اس تقرری کے حوالے سے کئی لوگ اہلیت کے معیار کے حوالے سے حیران و پریشان تھے اس وقت شازیہ تنولی نے پاکستان انفارمیشن کمیشن سے ایسی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کیں جس کی وجہ سے اب کمیشن کی اپنی ساکھ کیلئے امتحانی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
انہوں نے وزارت اطلاعات کے ساتھ کابینہ ڈویژن کو بھی خط لکھا کہ اس تعیناتی کیلئے اختیار کردہ طریقہ کار بتایا جائے، مذکورہ صحافی کی تعلیمی اہلیت کی مصدقہ نقول فراہم کی جائیں، اس کے تجربے کی سرٹیفکیٹ کی نقل فراہم کی جائے اور اس عہدے کیلئے شارٹ لسٹ کیے گئے امیدواروں کے نام دیے جائیں۔
پس منظر کی بات کی جائے تو پاکستان انفارمیشن کمیشن تین کمشنرز پر مشتمل ادارہ ہے ان میں سے ایک وہ شخص ہو سکتا ہے جو ہائی کورٹ کا جج بننے کی اہلیت رکھتا ہو۔ ایک نشست 22؍ گریڈ پر خدمات انجام دینے والے افسر کیلئے مختص ہے ۔
تیسرے رکن کو سول سوسائٹی سے لیا جانا چاہئے جس کے پاس سوشل سائنس کی ڈگری اور 15؍ سالہ تجربہ ہو۔ مذکورہ صحافی کو سول سوسائٹی کی نشست پر کمشنر مقرر کیا گیا ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 33؍ سالہ شخص کے پاس 16؍ سالہ تعلیم اور 15؍ سالہ تجربہ ہے بھی کہ نہیں۔ ان کی عمر کو دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ ان کے پاس مطلوبہ تجربہ ہے۔