اسلام آباد (نمائندہ جنگ)آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستیں مسترد کردیں جبکہ سابق وفاقی وزیر اسد عمر کی ضمانت قبل از گرفتاری پچاس ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض منظور کرلی، جج ابوالحسنات نےاستفسار کیا کہ جب سائفر موصول ہوا تو پھر کدھر گیا؟ جس پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ دستاویزات سنبھالنا وزیراعظم نہیں پرنسپل سیکرٹری کی ذمہ داری ہے، جج ابوالحسنات کے ان ریمارکس پر کہ کیا آپ مجھے سائفر دکھانا چاہتے ہیں؟ عدالت میں قہقہے لگ گئے، انہوں نے کہا کہ اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو سیکشن 3 اے لاگو ہوتی ہے،عدالت نے تحریری فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک ٹاپ سیکرٹ کیس ہے،چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، شاہ محمود قریشی کے خلاف کافی مجرمانہ مواد موجود ہے، ایف آئی آر کی روشنی میں دونوں نے دفعہ 5 اور 9 کے تحت جرم کا ارتکاب کیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کی ضمانت مسترد کرنے کیلئے ریکارڈ ہی کافی ہے لہٰذا دونوں کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔ جمعرات کو سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کی ضمانت کی درخواستوں کی سماعت ہوئی تو اسد عمر اپنے وکیل بابر اعوان کے ہمراہ پیش ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کے وکلا بیرسٹر سلمان صفدر، خالد یوسف، سردار مصروف اور اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی بھی عدالت میں موجود تھے۔ دوران سماعت فاضل جج نے کہا کہ دونوں فریقین کی موجودگی میں ہی کیس کی سماعت ہوگی۔ سائفرکیس کی درخواست ضمانت پر سماعت تو آج ہو گی، یہ سن لیں۔ دس بجے کیس شروع ہوجائے گا۔ اگر آج ایف آئی اے عدالتی معاونت نہیں کرے گی تو اس کے باوجود میں فیصلہ کروں گا۔ اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خانم بھی آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت پہنچ گئیں۔