اسلام آباد(نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ نے ’نیب (ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2022‘ کیخلاف دائر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی آ ئینی درخواست سے متعلق مختصر فیصلہ جاری کردیا، جس کے مطابق آئینی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے ’نیب(ترمیمی)ایکٹ مجریہ 2022‘ کے ذریعے کی گئی10 ترامیم میں سے9 اور50 کروڑ روپے کی حد سے کم بدعنوانی کے مقدمات پر نیب کا دائرہ اختیار ختم کرنے کی شق کو بھی کالعدم قرار دے دیا، جس کے نتیجے میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف ’توشہ خانہ‘ ریفرنسز سمیت متعدد دیگر سیاستدانوں کے خلاف بند ہونے والے ریفرنسز/مقدمات دوبارہ بحال ہوگئے، اس فیصلے کی روشنی میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف احتساب عدالت سے منتقل ہونے والا ’ایل این جی ریفرنس‘ جبکہ سابق وزیراعظم/سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے خلاف احتساب عدالت سے منتقل ہونے والا ’رینٹل پاور ریفرنس‘ بھی دوبارہ بحال ہوگیا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیب 7 دن کے اندر ختم کئے گئے ریفرنسز، تفتیش، انکوائریاں احتساب عدالتوں کو بھیجے،دوسری جانب جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے علیحدہ نوٹ میں اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اس آئینی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے دیا ہے اور سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 سے متعلق مقدمہ کے حتمی فیصلے تک زیر غور مقدمہ پر کسی بھی قسم کی کارروائی کو روکنے یا فل کورٹ تشکیل دیکر اس مقدمہ کی سماعت کرنے کی رائے دی ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جمعہ کے روز دو (چیف جسٹس عمر عطا بندیال)، ایک(جسٹس منصور علی شاہ) کے تناسب سے جاری اکثریتی فیصلے کے تحت نیب آرڈیننس کی دفعات ہائے 2، 4، 5، 6، 25، 26، 14، 15، 21، 23 میں ترامیم کے ایکٹ کے خلاف عمران خان کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت دائرکی گئی درخواست کو منظور کرکے دس میں سے نو ترامیم کو آئین کے آرٹیکل ہائے 9، 14، 19 اے،24اور25سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم کردیا ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازلاحسن کی جانب سے جاری کئے گئے مشترکہ اکثریتی فیصلے کے ذریعے نیب ترمیمی ایکٹ 2022 کے تحت ختم کئے گئے تمام ریفرنسز، تفتیش اور انکوائریاں بحال کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے،عدالت نے اپنے اکثریتی فیصلے میں چیئرمین نیب کو7 روز کے اندر اندر بند کئے گئے ریفرنسز کا تمام ریکارڈ متعلقہ احتساب عدالتوں کو بھیجنے کا حکم جاری کیا ہے، اکثریتی فیصلے میں عدالت نے عوامی نمائندوں کے خلاف بدعنوانی کے تمام مقدمات بحال کرتے ہوئے پبلک آفس ہولڈرز(عوامی نمائندوں) کے خلاف ریفرنسز ختم کرنے سے متعلق نیب ترامیم کالعدم قرار دے دی ہیں، عدالت نے50 کروڑ روپے کی حد سے کم بدعنوانی کے مقدمات پر نیب کا دائرہ اختیار ختم کرنے کی شق کو بھی کالعدم کرتے ہوئے اس نوعیت کے معاملات میں نیب کا دائرہ اختیار دوبارہ بحال کردیا ہے اور پچاس کروڑ روپے سے کم بدعنوانی کے تمام مقدمات کو بحال کرکے انہیں متعلقہ احتساب عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا ہے جبکہ اس ضمن میں چلنے والی تفتیش اور انکوائریاں دوبارہ جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے، اکثریتی فیصلے میں پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی ترمیم بھی کالعدم قرار دے دی گئی ہے جبکہ ملک بھر کی تمام احتساب عدالتوں کی جانب سے نیب (ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2022 کی روشنی میں ملزمان کو دی گئی داد رسی سے متعلق جاری کئے گئے تمام تر احکامات کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا ہے، اکثریتی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ نیب ترامیم سے مفاد عامہ کے حوالے سے آئین میں درج شہریوں کے حقوق متاثر ہوئے ہیں، اس لئے نیب (ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2022کے تحت بند کی گئی تمام تحقیقات اور انکوائریاں بحال کی جاتی ہیں، اکثریتی فیصلے میں بے نامی کی تعریف تبدیل کرنے اور پلی بارگین سے متعلق ترامیم جبکہ بدعنوانی کے الزام پر بار ِثبوت پراسیکیوشن پر منتقل کرنے اور نیب ترمیمی ایکٹ 2022کے ماضی سے اطلاق کی شقوں کو بھی غیرآئینی قرار دے کر کالعدم کردیا گیا ہے، عدالت نے چیئرمین نیب کی تقرری کا اختیار قومی اسمبلی اور سینیٹ کو دینے سے متعلق ترمیم بھی غیرآئینی قرار دے دی ہے،اکثریتی فیصلے میں ٹیکس معاملات، وفاقی اور صوبائی کابینہ کے فیصلوں، کابینہ کی کمیٹیوں، مشترکہ مفادات کونسل، نیشنل اکنامک کونسل، نیشنل فنانس کمیشن اور اسٹیٹ بینک کے اقدامات اور فیصلوں کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کرنے سے متعلق ترامیم کی شقوں کو بھی کالعدم کردیا گیا ہے، عدالت نے بدعنوانی کے مقدمات میں وہ افراد جن کا براہ راست عوامی عہدیداروں سے کوئی تعلق نہ ہو، کو نیب دائرہ اختیار سے نکالنے، سرکاری اسکیموں اور پراجیکٹس میں خرابیوں اور عوامی عہدیداروں کی جانب سے کئے گئے فیصلوں پر نیب کی کارروائی کا اختیار ختم کرنے کی ترمیمی شقوں کو بھی کالعدم کردیا ہے،نیب آرڈیننس ترمیمی ایکٹ 2022کے تحت چیئرمین نیب کی مدت ملازمت کم کرکے تین سال کرنے کی شق کو بھی کالعدم کرکے چار سال کی مدت ملازمت دوبارہ بحال کردی گئی ہے۔