اسلام آباد (رپورٹ:…رانا مسعود حسین، ایجنسیاں) عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر )ایکٹ 2023 کیس سے متعلق مقدمہ کی مزید سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر تمام فریقین کے وکلا ء کو اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ آئندہ سماعت پر وکلا ء ہر صورت اپنے دلائل مکمل کریں، چاہے رات 12بجے تک ہی سماعت کیوں نہ کرنی پڑے؟ عدالت میں پہلے ہی مقدمات کی بھرمار ہے ، ہم صرف اس مقدمے کو لے کر نہیں بیٹھ سکتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ما رشل لا لگنے پرسب ہتھیار پھینک کرتوثیق کر دیتے، پارلیمان کچھ کرے توحلف یاد آجاتا ہے،آپ کہتے ہیں بس فرد واحد کا اختیار کم نہ ہو، فرد واحد نے ہی ہمیشہ ملک کی تباہی کی ہے، مارشل لاء لگتا ہے تو ملک فرد واحد ہی چلاتا ہے،پارلیمنٹ کی قدر کریں، فرد واحد کا اختیار تباہی پھیلاتا ہے، آئین کیساتھ کھلواڑ کی تاریخ نہیں بھولنا چاہیے ،کیا اگلے مارشل لا کا دورازہ ہم سے کھلوانا چاہتے ہیں؟فل بنچ میں شریک معزز جج صاحبان نے عدالت میں پیش ہونے والے وکلاء سے قانونی استفسارات کیے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیاپارلیمنٹ ایسی قانون سازی کر سکتی ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کیا پارلیمنٹ چیف جسٹس کا لامحدود اختیار ریگولیٹ نہیں کرسکتی؟ جسٹس طارق مسعود نے کہا کیا پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار کیوں نہیں؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا اس ایکٹ سے انصاف تک رسائی کیسے متاثر ہو ئی ،جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا فل کورٹ کیخلاف اپیل کا حق نہ ہونا انصاف ہے؟جسٹس امین الدین نے کہا پار لیمنٹ اہلیت نہ رکھنے کے باوجود قانون بنائے تو کیا وہ درست ہوگا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 15رکنی فل کورٹ بینچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی جس کی کارروائی ٹی وی پربراہ راست نشر کی گئی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک طرف چیف جسٹس کے اختیارات محدود نہیں تو کم ضرور کیے جا رہے ہیں، دوسری طرف، وہی اختیارات سینئر ججوں میں تقسیم کیے جا رہے ہیں، یہ قانون مستقبل کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے سینئر ججوں پر بھی لاگو ہوگا،میں نے محسوس کیا ہے کہ مجھے سماعت کرنے والے بنچ کا حصہ نہیں بننا چاہیے لیکن چونکہ اس نے تمام ججوں کو متاثر کیا ہے، اس لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ فل کورٹ کیس کی سماعت کرے۔ چیف جسٹس نےسپریم کورٹ میں پیش وکلا پر زور دیا کہ وہ ایسے نکات پر بات کریں جو کیس سے متعلق ہوں، انہوں نے کہا کہ ہم آج کیس کو نمٹانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں، سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے کیس زیر التوا ہیں، ایک کیس کو ہی لے کر نہیں بیٹھ سکتے۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر وکلا اضافی دلائل دینا چاہیں تو عدالت میں تفصیلی تحریری جواب جمع کروا سکتے ہیں۔درخواست گزار نیاز اللہ نیازی کے وکیل اکرام چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ سادہ اکثریت سے آئین کے آرٹیکل نہیں بدل سکتی لہٰذا یہ شق بھی آئین سے متصادم ہے، وکیل اکرام چوہدری نے عدالت میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق خبر پڑھ دی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ اپنے دلائل خبروں کی بنیاد پر دے رہے ہیں، آپ سینئر وکیل ہیں کیا اب خبروں کی بنیاد پر دلائل دیں گے؟۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ قوم کے نمائندے نہیں درخواست گزار کے وکیل ہیں، آپ عدلیہ کی آزادی کی بات کر رہے ہیں، اس کو لوگوں کے نفع و نقصان سے جوڑ نہیں رہے، عدالتی آزادی کا ہمیں ہر حالت میں دفاع کرنا چاہیے، اگر عدالتی آزادی نہیں ہوگی تو عوام وخاص کے مسائل کا آزادانہ تعین نہیں کیا جاسکتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانونی دلائل دیجیے، یہ دلیل دیں کہ پارلیمنٹ نے کیسے عدلیہ کے حق کو سلب کیا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اب قانون بن چکا ہے، پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی تھی یا نہیں اس بحث میں نہیں جانا چاہیے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آئین سے متصادم ہے یا نہیں یہ بتائیں۔وکیل اکرام چوہدری کی جانب سے حسبہ بل کیس کا حوالہ دیا گیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حسبہ بل قانون بنا ہی نہیں تھا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ قانون بن چکا ہے۔ وکیل حسن عرفان نے کہا کہ پارلیمان نے قانون سازی کی آڑ میں دراصل میں آئین میں ترمیم کر دی ہے، آرٹیکل 184 تین خاموش ہے کہ کون سا خاص حق متاثر ہوگا تو نوٹس ہو سکے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ظفر علی شاہ کیس میں ایک فرد کو تمام اختیارات دے دیے، کیا سپریم کورٹ نے فرد واحد کو اختیارات دے کر اچھا کام کیا، ریکوڈک کو دوبارہ کھولنے کے لیے ایڈوائزری اختیارات کے تحت استعمال کیا گیا، مولوی تمیز، نصرت بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے کہا فرد واحد جو آئین سے کھلواڑ کرنا چاہے وہ کر لے۔ دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے موقف اختیار کیا کہ جہاں تک سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ کا تعلق ہے پارلیمنٹ بذات خود کوئی قانون نہیں بنا سکتی ہے۔فاضل وکیل نے موقف اپنایا کہ اس قانون سازی سے عدالت کے اختیارات کم کردیئے گئے ہیں جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ اگر چیف جسٹس کے اختیارات کم کر دیئے گئے ہیں تو دوسری جانب سپریم کورٹ ہی کے دوججوں کے اختیارات میں اضافہ کردیا گیا ہے، آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ اختیارات کم کر دیے گئے ہیں؟ چیف جسٹس نے عذیر بھنڈاری سے استفسار کیا کہ آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق ملنے سے تحریک انصاف کو کیا مسئلہ ہے؟ اگر کوئی مسئلہ تھا تو پی ٹی آئی نے اپنا موقف پارلیمنٹ میں کیوں نہیں اٹھایاہے ،جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ میں یہاں پر کسی سیاسی فیصلے کا دفاع نہیں کروں گا۔