کراچی (رفیق مانگٹ ) اسرائیل حماس تنازع پر عالمی میڈیا میں تبصرے اور تجزیے جاری ہیں، تنازع پر دنیا تین بلاکس میں تقسیم ہے ایک کی قیادت مغرب اور بھارت کر رہے ہیں جن کے وزیر اعظم نریندر مودی ایک ہندو قوم پرست پالیسی تیار کر رہے ہیں جو مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے،دوسرے میں چین، روس، اور گلوبل ساؤتھ کے بیشتر ممالک شامل ہیں جو دشمنی کے خاتمے کا مطالبہ اور اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرنے پر مغرب کی منافقت کی مذمت کرتا ہے۔ اس بلاک میں کچھ عرب یا غیر عرب مسلم ممالک کی حکومتیں ہیں۔ ایران کی قیادت میں تیسرا بلاک فلسطینی کاز کی حمایت کرتا ہے۔حماس کی بے مثال کارروائی کا اثر ایک مشتعل عالمی منظر نامے پر پڑے گابرطانوی اخبار’فنانشل ٹائمز‘‘ کے مطابق ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہ ای نے حماس کے حملے سے کسی بھی تعلق سے انکار کردیا ہے ، انہوں نے کہاجو لوگ ان کی حکومت کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے جوڑتے ہیں وہ غلطی پر ہیں،ا ہم حملے کے پیچھے ذہین ماسٹر مائنڈز کے ماتھے اور ہاتھ چومتے ہیں لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تازہ ترین واقعہ غیر فلسطینیوں نے کیا ہے وہ غلط اندازے کا شکار ہیں۔وہ فلسطینی قوم کو نہیں جانتے اور انہیں کم سمجھتے ہیں۔ ہسپانوی اخبار ’’ایل پائیس‘‘نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ اسرائیل حماس تنازع دنیا میں ایک دھماکا خیز محاذ ہے،تنازع کے وسیع تر نتائج کے خطرات میں،اسرائیل سعودی مذاکرات میں سرد مہری،مغرب اور ایران کے درمیان نئی کشیدگی اور اسرائیل کے حامیوں پر دہرے معیار کے الزامات ہیں۔فلسطین پر اسرائیل کے غیر قانونی اور جابرانہ قبضے کے تناظر میں اسرائیل کے خلاف حماس کے حملے سے بھڑکنے والے تشدد کی جڑیں مقامی ہیں۔ بہت سے ممالک عالمی نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس میں نئے اتحاد اور تعلقات میں تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں۔حماس کی بے مثال کارروائی کا اثر ایک مشتعل عالمی منظر نامے پر پڑے گا۔مسئلہ فلسطین کو بین الاقوامی طور پر نظر انداز کرنا، نیتن یاہو کی متواتر حکومتوں پر کوئی دباؤ نہ ہونا، قبضے کی پالیسیوں کو تبدیل نہ کرنے کے معاملے نے ٹائم بم کی صور ت اختیار کی۔