اسلام آباد/ کراچی ( طاہر خلیل ،زیب النسا برکی) سپریم کورٹ کے فیصلے سے پارلیمانی بالا دستی اور عدلیہ کی آزادی کا تصور پوری طرح اجاگر ہو گیا، ماہرین کے مطابق فیصلے کے ذریعے نواز شریف کو نظر ثانی اپیل کا حق نہیں ملے گا۔
سپریم کورٹ نے پارلیمان کے حق قانون سازی کو تسلیم کرتے ہوئے اس حقیقت کو آشکار کر دیا کہ پارلیمان کو سپریم کور ٹ سے متعلق قانون سازی کا اختیار حاصل ہے اور اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے عدلیہ میں مثبت تبدیلیوں کا آغاز ہو گیا اور فرد واحد کے فیصلوں کی بجائے اجتماعی دانش کے اصول کو اپنایا جائے گا، سپریم کوٹ پریکٹس اینڈ پرسیجر ایکٹ 10 اپریل 2023 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا تھا۔ یہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا اہم فیصلہ ہے جس میں 15 ججز نے تفصیلی سماعت کے بعد فیصلہ دیا، اس فیصلے کے تحت سوموٹو کیسز کے فیصلوں پر نظر ثانی اپیل کا حق ماضی کے فیصلوں پر نہیں ہو گا بلکہ مستقبل میں نظر ثانی اپیل کا حق دیا جائے گا۔
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ عدالت نے پارلیمان کا تحفہ قبول کر لیا اور اس کے مثبت اثرات نظر آئیں گے۔
وکلا کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپیل کے لیے قانون نافذ العمل ہونے سے پہلے کی تاریخوں سے فیصلے پر عملدرآمد روک کر میاں نوازشریف کا سیاسی مستقبل مخدوش کردیا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ بڑا فیصلہ 8 اور 7 کی نسبت سے آیا ہے جس میں ماضی سے روبہ عمل ہونے کی شق مسترد کر دی گئی ہے ۔
وکیل عبد المعز جعفری بھی محسوس کرتے ہیں کہ ماضی سے روبہ عمل ہونے کے معاملے نے نواز شریف کا مستقبل پیچیدہ کردیا ہے اور اس سے پتہ چلے گا کہ وہ آئندہ انتخابات میں کس طرح سے سامنے آئیں گے۔
الیکشن ایکٹ کی ترمیم بھی سپریم کورٹ کی شق باسٹھ ون ایف کی تشریح کی خلاف ورزی ہے۔ اس معاملے میں فیصلے میں گہری خامیاں ہیں اور اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے لیکن جب تک اس پر نظرثانی نہیں ہوجاتی اس وقت تک الیکشن ایکٹ کی ترامیم واضح طور پر غیر قانونی ہیں اور نواز شریف کی جانب سے انتخاب لڑنے کو چیلنج کرنے والی کوئی بھی درخواست کے جیتنے کا امکان ہے۔
سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ باسل نبی ملک نے ماضی کے فیصلوں پر اپیل کی شق کے خاتمے کے حوالے سے کہا کہ یہ فیصلہ نوازشریف کے فعال سیاست میں حصہ لینے کے امکانات میں سے ایک کو روکتا ہوا نظر ٓرہا ہے۔
ہائیکورٹ کے وکیل اور لمس کی سابق فیکلٹی رکن عبداللہ نیازی نے کہا کہ ’’ عدالت نے ماضی سے نافذ العمل اپیل کے معاملے کو درست کردیا ہے‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اپیل کی اجازت دینے کےلیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے چانچہ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ سپریم کورٹ ماضی سے روبہ عمل ہونے کے حوالے سے شق کے حوالے سے فیصلے کی توجیہہ کیسے کرتی ہے۔
بیرسٹر ردا حسین کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ عدالتی اسپیس کے اندر مزید پارلیمنانی مداخلت کا راستہ ہموار کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے سپریم کورٹ پارلیمنٹ کا ذیلی ادارہ بن گیا ہو۔