• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ہائیکورٹ، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور پختونخوا کے قانون کی تشریح نہیں کرسکتی، سپریم کورٹ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ کیسے اسلام آباد ہائی کورٹ کسی صوبے کے قانون کی تشریح کرسکتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ، بلوچستان، سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے قانون کی تشریح نہیں کرسکتی۔ وفاق کے قانون کی تشریح کوئی بھی ہائی کورٹ کرسکتی ہے۔کوئی ایک کیس بتادیں کہ جس میں سندھ کا معاملہ ہو اوراس کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیا ہو۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ اگر ہم فیصلہ کرتے ہیں تویہ ایک نظیر بن جائے گی، ایم /ایس سپرنٹ آئل اینڈ گیس سروسز پاکستان ایف زیڈ سی، اسلام آباد وہ کام ہم سے بلاواسطہ کرانا چاہ رہی ہے جو ہم براہ راست نہیں کرنا چاہتے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سپریم کورٹ امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے ایم /ایس سپرنٹ آئل اینڈ گیس سروسز پاکستان ایف زیڈ سی، اسلام آبادکی جانب سے آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (اوجی ڈی سی ایل)، اسلام آباد کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔کیس کا فیصلہ پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بنچ نے کیا تھا جبکہ بعدازاں دورکنی بنچ نے کیا جس کے خلاف مدعا علیہ کی جانب سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ۔ درخواست گزار کی جانب سے محمد احمد قیوم جبکہ مدعا علیہ کی جانب سے خرم ممتاز ہاشمی بطور وکیل پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کے وکیل نے معزز بنچ کہہ کر مخاطب کیا جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بنچز معزز ہو سکتے ہیں یہ توانگلش زبان کا دلچسپ استعمال ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں پارلیمنٹرینز کو معزز کہا جاتا ہے نہ کہ پارلیمنٹ کو معزز کہا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم غلط ہیں توہمیں ٹھیک کردیں کیونکہ ہم توروزانہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھتے رہتے ہیں۔
اہم خبریں سے مزید