جب پہلی بار پرہیزی کھانا اباجی کے سامنے آیا... تو کافی دیر تک ٹھوڑی تلے ہاتھ رکھے ٹرے کو تکتے گئے۔ جانے کیوں یہ منظر میرے دل پر بوجھ بڑھاتا چلا گیا.... ایک ایسا شخص جو ساری زندگی خوش خوراک رہا ہو اور اپنی پروفیشنل لائف میں بھی جب جب موقع ملا ، کوکنگ کی ہو اس کے لئے ابلی ہوئی سبزی کھانا حوصلے کی بات تھی... اگلی رات انھیں اس طرح سے کھانا دینے کی ہمت نہ ہوئی... ٹرے میں ان کی پلیٹ کے ساتھ ایک پلیٹ کا اور اضافہ ہوا.... اس کے دو فائدے ہوئے ایک تو وہ کیفیت دوبارہ نہیں دیکھی جو کھانا رکھنے پر سامنے آئی تھی.... اور دوسرا اب وہ کھانا کھانے لگے تھے، کیوںکہ میں بھی ان کے ساتھ وہی ابلی سبزی/ دال کھا رہی تھی۔
یہ اعتراف ضرور ہے کہ پہلے لقمے پر چودہ طبق میرے بھی روشن ہوئے...اور ابا نے حیرت سے بھی دیکھا...’’ یہ کیوں ؟‘‘ ۔’’بہت مزے کا ہے ابو جی.... اس لیے کھا رہی ہو....‘‘ انھوں نے دوبارہ نہیں دیکھا ،مگر ان کے ہونٹ بار بار مسکراتے جاتے.....اس ساتھ نے انہیں تحریک دی... کہ وہ جہاں پہلے جلد ہاتھ روک لیتے تھے... اب اچھا کھانے لگے تھے ۔ ہمارے گھروں میں بیمار بزرگ ہوتے ہیں۔
جنہیں ہم ٹرے میں روکھی پھیکی پرہیزی کھانے دے کر نکل آتے ہیں... یہ جانے بغیر کہ ان کے لیے یہ مراحل طے کرنے اتنے آسان نہیں ہوتے.... سو اپنے گھروں میں کب سے آئسولیٹ ہوئے چٹے بالوں والے بزرگ حضرات اور بزرگ خواتین کے لیے وقت نکالیے... جن کی آنکھیں خالی ہیں اور ہونٹ بس مسکراتے جاتے ہیں.... دراصل آپ نے.. میں نے.. ہم سب... نے مل کر اپنے اپنے بزرگوں کو وقت سے پہلے آئسولیٹ کردیاہے…تنہائی ایک بلا ہے … اس سے اپنے پیاروں کو محفوظ رکھیں۔ (منقول)