• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

14مئی کو انتخابات، آرڈر آف دی کورٹ موجود نہیں، انتخابات الیکشن کمیشن کو کرانے ہیں تو نگراں حکومت کیوں بنائی جاتی ہے؟ چیف جسٹس

اسلام آباد (این این آئی، مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کے کیس کی سماعت کے دوران نگران حکومت پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ صاف اورشفاف انتخابات الیکشن کمیشن نے کرانا ہیں تو پھر نگران حکومت کیوں بنائی جاتی ہے، چلیں خیر یہ دیکھنا پارلیمنٹ کا کا م ہے، ہم توتشریح ہی کرسکتے ہیں، ملک میں چیزیں بہتر ہورہی ہیں، آرڈر آف دی کورٹ کیا ہوتا ہے اس کیلئے 21ویں ترمیم کا فیصلہ پڑھیں،وکیل شاہ خاور نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ نے 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانیکا حکم جاری کیا تھا، پھر ہم نے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانیکی درخواست دائر کی، چیف جسٹس نے کہا کہ یہی تو سارا جھگڑا ہے، کوئی آرڈر آف دی کورٹ جاری ہوا تھا، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا جو آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کو ضرور نوٹس اور قرارواقعی سزاملنی چاہیے، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ ضیاء الحق 1985میں آئینی تجدید آرڈر سے نگران حکومت کا تصور لائے، چیف جسٹس نے کہا اور پھر ضیاء الحق نے تو اپنے ہی آئینی تجدید کے حکم کی جونیجو صاحب کو ہٹا کر خلاف ورزی کی، بعدازاں عدالت نے الیکشن ایک دن کرانے کی درخواست واپس لینے پر خارج کر دی۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کاشف خان کی جانب سے ملک بھر میں ایک ہی روز انتخابات کروانے کے حوالے سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ وکیل شاہ خاور نے کہا کہ اب اس درخواست کی ضرورت نہیں رہی، گزشتہ عدالت پہلے ہی یہ معاملہ اٹھا چکی ہے، یہ اس وقت ہم نے ایک کوشش کی تھی، اس وقت عدالت نے 14 مئی کو انتخابات کا آرڈر دیا تھا، اس وقت سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانیکا حکم جاری کیا تھا، پھر ہم نے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانیکی درخواست دائر کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہی تو سارا جھگڑا ہے،کیا اس وقت کوئی آرڈر آف دی کورٹ جاری ہوا تھا؟ وکیل شاہ خاور نے کہاکہ چار آرڈر آف دی کورٹ جاری ہوئے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کسی مقدمے پر مختلف رائے ہو تو ایک آرڈر آف دی کورٹ جاری ہوتا ہے۔ وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا کہ اس طرح کا آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہوا تھا۔جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ آپ کو تو 14 مئی انتخابات کے سپریم کورٹ آرڈر کی خلاف ورزی کی درخواست دائر کرنا چاہیے تھی، آپ نے یہ درخواست دائرکرکے آئین کی خلاف ورزی کی کوشش نہیں کی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کس شخص نے سپریم کورٹ کے 14 مئی کو انتخابات کرانے کے حکم کی خلاف ورزی کی؟ الیکشن کا فیصلہ دینے والے بینچ کا آرڈر آف دی کورٹ کہاں ہے؟ آرڈر وہ ہوتا ہے جس پر سب ججز کے دستخط ہوں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ 14 مئی کے الیکشن کا فیصلہ دینے والا آرڈرآف دی کورٹ موجود ہی نہیں، 14 مئی کوانتخابات کا حکم دے کر 90 دن کی آئینی مدت کی خود عدالت نے بھی خلاف ورزی کی، عدالت نے 14 مئی کا آرڈر دیا وہ 90 دن سے باہر تھا۔ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے نگران حکومت پر سوالات اٹھادیے۔انہوں نے فاروق ایچ نائیک سے سوال کیا کہ یہ بتائیں نگران حکومت کس کی ایجاد تھی؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 1985 میں ضیاالحق آئینی تجدید کے آرڈر کے ذریعے نگران حکومت کا تصور لائے۔

kk

اہم خبریں سے مزید