• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: برہنہ سَر نماز پڑھنا کیساہے ،کیا نماز ادا ہوجائے گی ؟، دورانِ نماز ٹوپی سر سے گر جائے تو کیا اُٹھا کر پہن لینا چاہئے ؟(محمد رمیز ، کراچی )

جواب: برہنہ سر نماز پڑھنا آداب اور سنت کے منافی ہے ،عُذر یا مجبوری کے سبب ہو تو اِس کی رخصت ہے، لیکن عادت بنالینا قطعاً درست نہیں ہے۔ اگر نمازکے دوران سرسے ٹوپی گرجائے تو ایک ہاتھ سے نماز میں ہی اٹھا کر سرپررکھنا افضل وبہتر ہے۔

علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ عمامہ (یا ٹوپی وغیرہ) موجود ہو ،توننگے سر نماز پڑھنا (اُس صورت میں ) مکروہ ہے جب کہ سُستی کی وجہ سے اور نماز کو ہلکا جانتے ہوئے ایسا کیاہو ، اور اگر خشوع وخضوع کے سبب ہو تو کوئی قباحت نہیں بلکہ حَسن ہے، جیسا کہ’’ ذخیرہ ‘‘میں ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد1، ص:106) ‘‘۔ علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ ننگے سر نماز پڑھنا اگر سُستی کے سبب ہو تو مکروہ ہے اور اگر عجز وانکسار کی وجہ سے ہو تو کچھ مضائقہ نہیں اور اگر اہانت کے لئے (یعنی نماز کو حقیر جانتے ہوئے)ہو تو کفر ہے اور اگر (دورانِ نماز ) ٹوپی گرجائے تو اُس کاسر پر دوبارہ رکھ لینا افضل ہے، لیکن اگر ایسی صورت ہے کہ جس میں لپیٹنے کی یا عملِ کثیر کی حاجت ہے تو ااُٹھانا افضل نہیں ،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ،جلد2، ص:351، بیروت)‘‘۔

امام احمد رضاقادری قدس سرہ العزیز نے اپنے ایک طویل فتوے میں ننگے سر نماز پڑھنے کو سنّتِ متوارثہ اور ادب کے خلاف قرار دیا ہے اور عام زندگی میں ننگے سر رہنے کو معیوب قراردیا ہے اور اُن کے عہد کے اعتبار سے یہ بات درست ہے ،تفصیل کے لیے فتاویٰ رضویہ ، جلد7،ص:389ملاحظہ فرمائیں۔

ماضیٔ قریب میں ہماری معاشرتی اقدار میں ننگے سر رہنا اور خاص طور پر بڑوں کے سامنے ننگے سر آنا ایک ناپسندیدہ اور معیوب بات سمجھی جاتی تھی، لیکن اب قدریں بدل چکی ہیں۔ اس لئے اب ننگے سر رہنا ہمارے معاشرے میں بدنامی یا عیب کی علامت نہیں ہے۔ 

اس لئے زیادہ سے زیادہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ننگے سر نماز پڑھنا اگر چہ جائز ہے، مگر ادب اور ہماری دینی اَقدار کا تقاضا یہ ہے کہ سر پر کم ازکم ٹوپی پہن کر نماز پڑھی جائے ،لیکن کسی ننگے سر نماز پڑھنے والے کو ملامت نہ کیاجائے سوائے اِس کے کہ وہ نماز کو معمولی جانتے ہوئے ایسا کرے ،اس کا حکم بیان کیاجاچکا ہے۔