میزبان: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی
تصاویر : محمد اسرائیل انصاری
پاکستانی معیشت مسلسل انحطاط کا شکار ہے اوریہ سفر مسلسل جاری ہے اس میں کبھی کوئی بریک نہیں لگی اور نہ مستقبل میں امکان نظر آرہاہے، معیشت کا انحطاط بہت پرانا ہے، ہم1947 سے اس کا شکار ہیں، پہلا بڑا بنیادی مسئلہ پاکستان کا کرنٹ اکاوئنٹ ہے جو کبھی بھی متوازن نہیں رہا۔ ہمارا آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ہم اپنی ڈالر کی ضرورتوں کو کیسے پورا کریں، ہم اسی وجہ سے ہر سات آٹھ سال بعد آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور ہوتے ہیں، آئی ایم ایف ہمیں بیل آوٹ کرتا ہے۔
پھر ہمارے لوگ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں ،لیکن پھر زمین پر گرتے ہیں اور دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس چلے جاتے ہیں، جیسے عمران خان جب حکومت میں آئے تو کہتے تھے ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گےاور آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، پاکستان کو اگلے پانچ سال کے لیے70بلین ڈالرکی فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ چاہیے، مارکیٹ سے رقم حاصل کرنے کے لیے آپ کی ریٹنگ ایمرجنگ مارکیٹ ہونی چاہیے لیکن آج ہماری ریٹنگ جنک ریٹنگ ہے،پاکستان کی فارن کرنسی کی بقا آئی ایم ایف اور امریکا سے دوستی پر منحصر ہے، امریکا کہتا ہے ہم اپنے پیسوں سے چین کا قرض ادا نہیں کریں گے۔
پاکستان کو چین سے کچھ نہیں چاہیے صرف موخر کرنے کا وقت چاہیے۔آبادی میں 51فیصد تیزی سے بڑھنے والے پاکستان کے علاوہ دنیا میں صرف دو اورملک نائجیریا اور افغانستان ہیں، اتنی تیزی سے بڑھتی آبادی کے ساتھ گروتھ ناممکن ہے،ہماری معیشت کے چار بنیادی مسائل ہیں، پہلا مسئلہ کرنٹ اکاوئنٹ دوسرا فسکل ڈیفی سیٹ، تیسرا توانائی اور چوتھا سرکاری ادارےہیں۔ اس وقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ان چاروں معاملات میں بہت سنجیدہ ہے، وہ بھی سمجھتے ہیں ہنی مون پریڈ ختم ہوگیا ہے۔ اگر یہ ہی حکمت عملی رہی تو ڈالر 250 سے اوپر نہیں جائے گا۔
اسی وجہ سےمیں پرامید ہوں ہمارا کرنٹ اکاوئنٹ کا بیلنس بہتر ہونے جارہا ہے۔ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت پی آئی اے اور اسٹیل مل کی نج کاری نہیں کرسکتی صرف ملٹری حکومت یا ایس آئی ایف سی کرسکتی ہے،اگر آپ ڈسکوز کی بھی نجکاری کردیں تو سرکلر ڈیبٹ کا بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے، پاکستان چلانے کےلیے معاشی طور پر دوحصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا، ایک ساوتھ پاکستان دوسرا نارتھ پاکستان،ساوتھ پاکستان ایکسپورٹ تیار کرے گا اور نارتھ پاکستان لوکل ضروریات پوری کرے گا۔
سید شبر زیدی
آج سے دس سال پہلے برآمدات میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کا حصہ 51فیصد تھا، اس زمانے میں ہم برآمدات بڑھانے کے لیے کچھ مراعات کےلیے جاتے تھے تو ہمیں کہا جاتا تھا کہ ہمیں کچھ اور بھی کام کرنے دیں کوئی مناسب جواب نہیں ملتا تھا،لیکن اب دیگر چیزیں برباد ہونے کے بعد ہمارا برآمدات میں حصہ 65فیصد ہوگیا ہے۔ ہماری خواہش ہے ٹیکسٹائل کی طرح دیگر شعبوں میں بھی ترقی ہو۔
ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے ماحول ہی نہیں ہے۔ انڈیا میں جب ساڑھے چار سینٹ کے سولر کا افتتاح ہورہا تھا وہی سولر پارک پاکستان میںاٹھارہ سینٹ کابن رہا تھا،تو یہ فرق کون ادا کرے گا۔ ہمارے یہاں توانائی کا جو بجٹ ہےاس سے ہم کیسے برداشت کرسکتے ہیںاس کا نتیجہ تو آئے گا۔ دنیا کے وہ ملک جس کا دس فیصد جی ڈی پی ایکسپورٹ سے کم ہے ہم ان تین میں سے ایک ہیں ان تین میں یمن ،افغانستان اور پاکستان ہے۔
ہم نے ان میٹنگ میں حل دیئے ہیں گیارہ روپے اور دیگر کیپسٹی چارجز ہٹانےکا کہا ہےاسے ہٹائے بغیر ہم ایکسپورٹ نہیں کرسکتے، سندھ اور پنجاب میں گیس کے ٹیرف پر کہا ہے اگر وہ ہوجاتا ہے توہم فلوٹ کرجائیں گے25ارب کا ہمارا پوٹینشل ہے۔
آصف انعام
پاکستان کے معاشی حالات سب کے سامنے ہےاسی پیش نظر"معاشی چیلنجز اور حل"کے موضوع پرجنگ فورم منعقد ہورہا ہے ۔بحران کا شکار پاکستانی معیشت کوہم ڈوبی معیشت کہہ سکتے ہیں۔ ہماراآج کا موضوع اور بنیادی سوال بھی یہ ہی ہےکہ کیاہماری ڈوبی معیشت بحال ہوسکتی ہے،اس کے کیا امکانات ہیں اور بحالی کے لیےکس طرح کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ آج کا پاکستان منفی خبروں اور حالات میں بلند ترین مقام پر ہے، افراط زر یعنی مہنگائی 30فیصد سے زائد ہے، عام آدمی کی بنیادی ضرورت اشیا خوردونوش مہنگی ترین ہوچکی ہیں، روپے کی قدر مسلسل گررہی ہے ،ڈالر ریکارڈ بلند سطح پر ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں جس کے اثرات ہر شے پر پڑ رہے ہیں۔
بجلی، گیس مسلسل مہنگی ہورہی ہے، بجٹ خسارہ ریکارڈبلند سطح پر ہے، قرض ہمیں صرف قرض کی ادائی کے لیےلینا پڑ رہا ہے، غربت کی بڑھتی شرح انتہائی خطرناک ہے، اس سال سواکروڑ افراد غربت کی شرح سے نیچے گئے ہیں، ترسیلات زر،ماضی میں اس شعبے کی صورت حال قدرے بہتر ہوا کرتی تھی لیکن گزشتہ تین چار برسوں میں اس میں بھی بڑی کمی واقع ہوئی ہے، برآمدات میں بھی ہمارا ہدف پورا نہیں ہورہا، ہمارا دارومدار آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ پر ہے اس کے اچھے یا برےاثرات مستقبل میں کیاہوں گے۔
اس طرح کے دیگر بہت سے سوالات کے جواب کے لیے ہمارے ساتھ جنگ فورم میں معروف اکانومسٹ ، اکاوئنٹنٹ اور سابق چیئرمین ایف بی آر سید شبر زیدی اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کا اہم نام اور اپٹما کے چیئرمین آصف انعا م شریک گفتگو ہیں میں دیکھ رہا ہوں کہ حاضرین میں تجزیہ کار اور مائٹ یونیورسٹی کی ریکٹر ڈاکٹر ہما بقائی، وائس ایئر مارشل ریٹائرڈ عابد رائو، ڈاکٹر عیسی لیبارٹری کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر فرحان عیسی عبداللہ، معروف بزنس مین اور سائٹ ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین مجید عزیز، تاریخ داں، مصنف، اور کامن ویلتھ کراچی کے سید خاور مہدی اورکورنگی ایسوسی ا یشن آف ٹریڈ انڈسٹری کی مریم سلمان موجود ہیں ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔فورم کے انعقاد کےلیےہم میلینئم انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ انٹر پنوریر شپ(MiTE)یونی ورسٹی کے شکرگزار ہیں۔
جنگ: گفتگو کا آغاز سید شبر زیدی سےکریں گے،پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال کیسی ہے اور ہمیں صورت حال سے نمٹنے کےلیے کون سے ابتدائی اقداما ت اٹھانے ہوں گے؟
سید شبر زیدی: اگر یہ تصور کیا جائے پاکستانی معیشت آج خراب ہوئی ہے تو یہ غلط ہے، ہماری معیشت بتدریج اور مرحلہ وار زوال پذیر ہوئی ہے،یہ کہنا کہ 2022 برا تھا اور2023 اچھا ہے بالکل غلط ہے۔ اس موضوع پر میں ایک کالم بزنس ریکارڈر میں تحریر کیا تھا جس میں پاک بھارت کاموازنہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ 2002 میں مختلف شعبوں میں پاکستان اورانڈیا کس حالت میں تھے اور 2023 میں پاکستان کہاں اور انڈیاکس مقام پر ہے۔
آپ اس چارٹ کو اپنے سامنے رکھیں گے تویہ واضح ہوگا کہ ہماری معیشت بتدریج تنزلی کی طرف گئی ہے، اس میں کچھ ادوار میں تھوڑا بہت آگے پیچھے کرلیں ورنہ مجموعی طور پر پاکستانی معیشت مسلسل انحطاط کا شکار ہے اوریہ سفر مسلسل جاری ہے اس میں کوئی بریک نہیں لگی ہے اور نہ مستقبل میں امکان نظر آرہاہے۔
ہماری معیشت کا انحطا ط بہت پرانا ہے،ہم1947 سے ہی اس کا شکار ہیں، ہماری معیشت کبھی بھی بہتر نہیں رہی،اس دور میں بھی جب پاکستان مشرقی اور مغربی حصوں پر مشتمل تھا۔تو جسے مغربی پاکستان کہا جاتا تھا وہ کبھی بھی معاشی طور پائیدار علاقہ نہیں رہا، یہ معاشی طورپر ناکام علاقہ ہے، لیکن ہم اسے مختلف بہانوں سے گھسیٹتے رہے ہیں، لیکن کسی نہ کسی دن اسے پھٹنا ہے۔ میں نے جب عمران خان وزیراعظم تھےسولہ دسمبر2021 کو ہمدرد یونی ورسٹی میں کہا تھا کہ ہم دیوالیہ ریاست ہیں، میں اپنی اس بات پر آج بھی قائم ہوں۔میں بلاخوف و خطرکہتا ہوں پاکستان بحثیت معاشی ریاست ایک ناکام تجربہ تھا،جسے ہم کامیاب نہیں کرسکے۔اگر کوئی میری بات سے اختلاف کرتا ہے تو میں سمجھتا ہوں وہ اس بات کو سمجھ نہیں پارہا۔
مگر ہم اب 1947 والی لائن کو دہرا نہیں سکتے وہ فیصلے واپس نہیں ہوسکتے، پہلے تو ہم دوبارہ ملنا نہیں چاہتے تھے ،لیکن آج کی صورت حال میں وہ اب ہمیں کبھی بھی نہیں لیں گے۔ آج ہماری گروتھ اعشاریہ 25فیصد ہے اور انڈیا کی 7اعشاریہ آٹھ فیصد ہے۔تو ہم نے اتنی بلاوجہ کی مشقت سے اس ملک کو چلایا، مختلف بہانوں سے طرح طرح کے نعروں کے ذریعے،اس ملک کی معیشت نہ ماضی میں کبھی آگے بڑھنے والی تھی اور نہ کبھی ہوگی، جس شکل میں یہ ملک سیاسی معاشرتی معاشی اور سماجی طور پر ڈیزائین ہوگیا ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے جو بنیادی مسائل ہیں وہ کسی بھی ملک کے معیشت کے بنیادی مسائل ہیں،مثال کے طور پر لوگ ٹیکس ادا کریں، وفاق اور صوبوں کے درمیان اعتماد ہو، ہمارا تعلیمی نظام بدلے لیکن ،ہمارے بنیادی مسائل ہی اب تک حل نہیں ہورہے۔ میں اپنی گفتگو کو مختصراًتین شعبوں میں تقسیم کرکے بتاتا ہوں۔ پہلا شعبہ پاکستان کاکرنٹ اکاوئنٹ ہے جس سے مراد ڈالر روپیہ اکاوئنٹ،یعنی ڈالر کتنا آتا ہے اور کتنا جاتا ہے،جسے ہم مغربی پاکستان کہتے ہیں یہاں 1947 سے آج تک کبھی بھی کرنٹ اکاوئنٹ پازیٹیو نہیں رہا، اس نے ہمیشہ ڈالر کمایا کم ہے اور خرچ زیادہ کیا ہے۔1947 سے آج تک اندازاً ڈالر کمانے اور خرچ کرنے کا فرق دیکھیں تو یہ ڈھائی سوملین ڈالرزائد کا فرق ہے، اس میں سوملین ڈالرامداد ملی ہے اور باقی ڈیڑھ سو ملین ڈالرکا قرض ہے۔
آپ نے اپنی چادر سے زیادہ ڈھائی سوملین ڈالر زیادہ خرچ کئے ہیں، اس دوران عجیب اورشاہی اخراجات کئے مثال کے طور پرجیسے اسلام آباد بنایا وغیرہ وغیرہ یہ آپ کی حیثیت سے زیادہ تھا۔تو پہلا بڑا بنیادی مسئلہ پاکستان کا کرنٹ اکاوئنٹ ہے جو کبھی بھی متوازن نہیں رہا۔ ابھی ایک صاحب ملک میں تشریف لانے والے ہیں جب دوہزار اٹھارہ میں ان کی حکومت تھی تو پاکستان کو کرنٹ اکاونٹ کی مد سب سے بڑے 15ملین ڈالر کے خسارے کا سامنا تھا،اور تجارتی خسارہ37ملین ڈالرتھا۔
ہمارا آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ہم اپنی ڈالر کی ضرورتوں کو کیسے پورا کریں،اسی وجہ سے ہم ہر سات آٹھ سال بعد آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور ہوتے ہیں،آئی ایم ایف ہمیں بیل آوٹ کرتا ہے، پھر ہمارے لوگ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں ،لیکن پھر زمین پر گرتے ہیں اور دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس چلے جاتے ہیں۔
جیسے عمران خان جب حکومت میں آئے توان کے وزیراسد عمر کہتے تھے ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، میں اور عارف نقوی ایک دن وزیراعظم عمران خان کے پاس گئے اور کہا سر ہمیں کل ہی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا باقی آپ کی مرضی ہے ،پھر وہ وزیرصاحب بھی نہیں رہے اور آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔دراصل ہمارے پاس معیشت کو ترقی دینے والی چیزیں نہیں ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئے ہمیں نہیں جانا چاہیے، ایسا کہنے والے بے وقوف احمق ہیں انہیں پاکستان کی معاشی صورت حال کا اندازہ ہی نہیں۔آئی ایم ایف نے جب اسٹیٹ بینک سے ایس بی اے معاہدہ کیا، اسٹیٹ بینک جس معاہدے کے تحت کام کررہا ہے اسے ایس بی اے کہتے ہیں۔
آئی ایم ایف نے ایک رپورٹ پیش کی،جس میں 2023سے 2028تک کا پاکستان کے کرنٹ اکاوئنٹ کا بتایا گیا ہے، جس کے مطابق ان برسوں میں فارن کرنسی کتنی آئے گی اور ضرورت کتنی ہے، اس رپورٹ کے صفحہ نمبر35 شیڈول نمبر3ا ے میں موجود ہے۔اس کے مطابق پاکستان کو اگلے پانچ سال کے لیے70بلین ڈالرکی فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ چاہیے،اگر پاکستان کو صرف فلوٹ کرنا ہے یعنی صرف زندہ رہنے کےلیے۔ان کے مطابق یہ رقم ہم بین الاقوامی مارکیٹ سے حاصل کریں گے،اس مارکیٹ سے رقم حاصل کرنے کےلیے آپ کی ریٹنگ ایمرجنگ مارکیٹ ہونی چاہیے۔
آج ہماری ریٹنگ جنک ریٹنگ ہے،جنک ریٹنگ سے مراد کچرامارکیٹ،آج کل تھوڑا بہت استحکام نظرآرہا ہے۔ اگر آپ جون 2023 کے واقعات کو غور سے دیکھیں اس وقت اسحق ڈارصاحب وزیرخزانہ تھے،آپ ڈار صاحب کے جون کے ابتدائی دنوں کے بیانات پر غور کریں، انہوں نے کہا تھاکہ آئی ایم ایف ہمارے خلاف جارہا ہے، پھر وہ 15جون کے قریب خاموش ہوگئے تھے،پھر جون کے آخر ہفتے میں ہمارے وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے سربراہ سے ملاقات کی تھی اور پھر ایس بی اے معاہدہ بھی ہوگیا، ایس بی اے پر دستخط آپ نے نہیں کئے نہ پاکستان کی وزارت خزانہ نے کئے، جنہوں نے یہ معاہدہ کروایا وہ ہمارے مالک ہیں اور وہ ہی ہماری قسمت کو بچائیں گے اور ہم اس کے لئے تیار ہیں اس کی قیمت دینے کے لیے بھی ہم تیارہیں کیوں یہ ہمیں دینی پڑے گی، جب 30جون 2023 کو ہم نے ایس بی اے پر دستخط کئے تو اس وقت ہم صفر پر تھے ہمارے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔
آپ ان دنوں امریکی سفیر کی ملاقاتیں دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ کچھ ہے،عزت تو ہم پہلے ہی فروخت کرچکے اب جو باقی ہےاسے بیچنا پڑے گا۔پاکستان کی فارن کرنسی کی بقا آئی ایم ایف اور امریکا سے دوستی پر منحصر ہے،اس میں ایک پریشانی یہ ہے کہ پاکستان نے جو لون ادا کرنے ہیں وہ چین کے ہیں امریکا کہتا ہے ہم اپنے پیسوں سے چین کا قرض ادا نہیں کریں گے۔ پاکستان کو چین سے کچھ نہیں چاہیے صرف موخر کرنے کا وقت چاہیے۔ ہم واحد ملک ہیں جہاں فلسطین کے لیے کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگاکیوں کہ ہماری وفاداری کسی اور کے ساتھ ہے۔
جنگ: ٹیکسٹائل ہماری سب سے بڑی انڈسٹری ہے،65فیصد برآمدات کا تعلق بھی اسی صنعت سے ہے، موجودہ صورت حال میں ٹیکسٹائل انڈسٹری اور دیگر کاروبار کے حوالے سے آپ کتنے پرامید ہیں؟
آصف انعام: آج سے دس سال پہلے برآمدات میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کا حصہ 51فیصد تھا،اس زمانے میں ہم برآمدات بڑھانے کےلیے کچھ مراعات کےلیے جاتے تھے تو ہمیں کہا جاتا تھا کہ ہمیں کچھ اور بھی کرنے دیں کوئی مناسب جواب نہیں ملتا تھا، لیکن اب دیگر چیزیں برباد ہونے کے بعد ہمارا برآمدات میں حصہ 65فیصد ہوگیا ہے۔ ہماری خواہش ہے ٹیکسٹائل کی طرح دیگر شعبوں میں بھی ترقی ہو۔ٹیکسٹائل بنیادی چیز ہے کوئی ملک اس کی بنیاد پر بنا ہی نہیں ہے۔ یہ صرف آگے بڑھنے کا پلیٹ فارم ہے، لیکن ہم پچھلے چالیس پچاس سال سے لانچنگ پلیٹ فارم پر ہی ہیں۔
جنگ: ٹیکسٹائل کی برآمدات میں یقیناًاضافہ ہوا ہے لیکن مجموعی طور پر ہماری برآمدات تو کم ہوئی ہے؟
آصف انعام: ٹیکسٹائل کی برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ دیگر چیزوں کا حصہ گر گیا ہے۔ ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے ماحول ہی نہیں ہے۔ انڈیا میں جب ساڑھے چار سینٹ کا سولر کا افتتاح ہورہا تھا وہی سولر پارک پاکستان میں اٹھارہ سینٹ کابن رہا تھا، تو یہ فرق کون ادا کرے گا۔ ہمارے یہاں توانائی کا جو بجٹ ہےاس سے ہم کیسے برداشت کرسکتے ہیں اس کا نتیجہ تو آئے گا۔1992 میں ہماری صنعت کا حصہ دیکھیں اس کے مقابلے میں آج آدھا ہے۔ دنیا کے وہ ملک جس کا دس فیصد جی ڈی پی ایکسپورٹ سے کم ہے ہم ان تین میں سے ایک ہیں ان تین میں یمن ،افغانستان اور پاکستان ہے ۔ہم اب تک اس انتظار میں ہیں ہماری کرنسی مضبوط کیسے ہوگی۔
ہم اپنا ایکسپورٹ پوٹینشل چاہے وہ ہیومن ہو یا کیپیٹل ہو کسی بھی صورت کی ایکسپورٹ ہو اس پر توجہ دینے کے بجائےکہیں اور مصروف ہیں۔ ہمارا بنیادی مسئلہ ہم میں کتنی صلاحیت ہے،اخبار میں ٹینڈر آیا ہوا ہےتین سو اور چھ سوپلانٹ والے گھوم رہے ہیں ہماری ایکسٹینشن کردیں،پچاس ساٹھ روپے کی فرنس جلارہے ہیں ان کا وقت بھی پورا ہوگیا ہے، انہیں ختم کریں نئے لگائیں۔
ہم ٹیکسٹائل انڈسٹری والوں نے یہ حل نکالا ہے جوسندھ اور پنجاب میں بچ گئی ہیں، وہ اس لیے کہ وہ گیس پر ہیں تو اس نے مہنگی بجلی کے منفی اثرات سے بچالیا ہے۔اب گیس بھی گاوں گاوں تقسیم کردی ہے۔مشرف حکومت میں کل سسٹم 1800کا تھا،اب 4000 کا سسٹم ہے جو 70 سے 80فیصد گھروں میں استعمال ہورہی ہے،اب اتنا بڑا سرکلرڈیبٹ ہے تو ایل این جی گھروں میں دینی شروع کردی ہے،چار ہزار میں لے کر آپ دو ڈھائی سو دیں گے تو کیا ہوگا۔
جنگ:حالیہ دنوں میں کئی اہم میٹنگ ہوئی ہیں اس میں کیا فیصلے ہوئے ہیں؟
آصف انعام: ہم نے ان میٹنگ میں حل دیئے ہیں ہم نے گیارہ روپے اور دیگر کیپسٹی چارجز ہٹانےکا کہا ہے اسے ہٹائے بغیر ہم ایکسپورٹ نہیں کرسکتے، سندھ اور پنجاب میں گیس کے ٹیرف پر کہا ہے اگر وہ ہوجاتا ہے توہم فلوٹ کرجائیں گے25ارب کا ہمارا پوٹینشل ہے،چار پانچ بلین کی سرمایہ کاری ہوئی ہے،ہماری کوشش ہے کہ یہ سب کچھ کرکے کام شروع کریں تاکہ کچھ بہتری پیدا ہو۔
جنگ:ٹیکسٹائل جیسی بڑی صنعت نہیں چل پارہی تو اس سے منسلک چھوٹی صنعتیں کو توتباہ ہونا ہی ہے؟
آصف انعام: ایس ایم ای کی وجہ سے ٹیکس سسٹم تباہ ہوا،جب ملٹی کمپوزٹ ہوں اور وہی کام چارحصوں میں کریں تو آپ کی ٹیکس لائبلیٹی چارسو فیصد بڑھ جاتی ہے اسی طرح کسٹم کے بھی مسئلے تھے۔پچھلی حکومت نے اس پر لگ کرکافی کام ٹھیک کیا تھا پھر ابھی حکومت نے ای ایس آراوز نافذ ہوگئے ہیں امید ہے اس سے کافی مسائل حل ہوں گے۔ ایس ایم ای کسی بھی ملک کی معیشت کا اہم حصہ ہوتی ہیں آپ دوسو والے کو تین سو جمع نہیں کرسکتے لیکن تیس والے50 کو دس کی امید کرسکتے ہیں،کیوں کہ وہ ان کی مارکیٹ ہے ان کا بڑھنا آسان ہوتا ہے۔
جنگ: کاٹن کی فصل بھی کافی متاثر ہوئی ہے اس کے کتنے اثرات پڑیں ہیں ہم تیارشدہ مال کے مقابلے میں خام مال زیادہ ایکسپورٹ کرتے رہے ہیں اس کا کیا اثرآئے گا؟
آصف انعام: ہمارے پاس خام مال نہیں ہے،1992 میں آخری مرتبہ سرپلس ایکسپورٹ کیا اس کے بعد تو ہم نیٹ امپورٹر رہے ہیں ،ہمارا بس یہ رہا ہے کہ ہم نے کبھی ایک ملین بیل منگوانی ہے یا یا آٹھ ملین، ہمیں اب خام مال امپورٹ کرنا پڑتا ہے۔ایسی پراڈکٹ جیسے مشینیں یہ تو آپ کو منگوانا ہی پڑتی ہیں۔
جنگ: مجموعی طور پر پاکستانی معیشت سے مثبت امیدیں ہیں؟
آصف انعام: اگر ہم مطلوبہ ضروریات کو کسی طرح پوری کرلیں جوہم کرسکتے ہیں تو مجھے پوری امید ہے۔
جنگ: ہم امپورٹ کے لیے نئی پراڈکٹ اور مارکیٹ کیوں نہیں دیکھتے اس کی کیا وجہ ہے؟
آصف انعام: یہ حکومتوں کا کام ہے ہم نے ماضی میں کئی تجاویز دیں، ہمارا کام اپنے ادارے اور صنعت کو چلانا ہے اور مشورے دے دینا ہے،ہم نے مہنگی بجلی کے نقصان کا بتادیا اب اگر وہ کچھ نہیں کریں گے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔
جنگ: ڈوبتی معیشت کو کیسے نکال سکتے ہیں؟
سید شبر زیدی: ہمارے ایکسپورٹ کے دوبڑے آئیٹم ہیں ایک ٹیکسٹائل دوسرا آئی ٹی ان دونوں کی سب سےبڑی کمپنیوں کا میں ڈائریکٹر اور بورڈ کا ممبر ہوں، میری ٹیکسٹائل صنعت کایہ حال ہے کہ مجھے کاٹن امریکا سےامپورٹ کرنی پڑتی ہے، مجھے اچھا دھاگا بنا نا ہے تو میں نارتھ امریکا سے کاٹن امپورٹ کروں گا پھر اس کو فیصل آباد لے کر جاوں گا پھر اس سے دھاگا بنائوں گا پھر اسے واپس کراچی لاکر امریکا ایکسپورٹ کروں گا،بلاوجہ کی اتنی لاگت میں کونسا کاروبار برداشت کرسکتاہے، یہ ہوہی نہیں سکتااور پاکستان نے کاٹن کی کوئی نئی ورائٹی نہیں بنائی ہے،میں آئی ٹی میں سسٹم ڈیولپمنٹ کا ڈائریکٹر ہوں،آئی ٹی میں ہمیں وہ آرڈر ملتے ہیں جو انڈیا نہیں لیتا۔ ہمیں اپنی ڈکشنری سے چند لفظ نکال دینے چاہیے۔
نمبر ایک پوٹینشل، پاکستان اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ہےیہ رمضان میں قائم ہوا اس لیے اللہ اس کی حفاظت کرے گا اور یہاں ریاست مدینہ بنے گی، اتنے بڑے الفاظ ہم اپنی مجرمانہ نااہلی کو چھپانے کےلیے استعمال کررہے ہیں۔ حضرت علی ؓ کرم اللہ وجہہ“کا قول ہے معاشرہ وہی باقی رہتا ہے جہاں عدل ہوتا ہے کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا نہیں، توجب ظلم جاری رہے گا تو یہ کیسے باقی بچے گا۔
بہتری کیسے ہوسکتی ہے، ہمارا مسائل کا آغاز آبادی سے ہوتا ہے ،دوہزار دو میں پاکستان کی آبادی 16کروڑ تھی اور انڈیا کی ایک ارب 14کروڑ،آج انڈیا کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ آبادی میں پچیس فیصد اضافہ ہوا۔ ہماری آبادی ہے 24کروڑ پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آبادی کے اعدادوشمارکے بعد ساری معاشی حکمت عملی صفر ہوجاتی ہے،ساری کوششیں بے کار ہوجاتی ہیں، صرف ایک وجہ ہے کوئی فیملی پلاننگ نہیں ہے، قابو کرنےکی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے، آبادی میں 51فیصد تیزی سے بڑھنے والے پاکستان کے علاوہ دنیا میں صرف دو اورملک نائجیریا اور افغانستان ہیں، اتنی تیزی سے بڑھتی آبادی کے ساتھ گروتھ ناممکن ہے۔انڈیا ،ایران بنگلہ دیش سب نے منصوبہ بندی سے قابو کیا ہے، ورلڈ رینکنگ کی تازہ رپورٹ ہے، پاکستان میں دوکروڑ بچے اسکول نہیں جاتے یہ دنیا میں بلند ترین تعداد ہے، ایساکوئی اور ملک نہیں ہے۔
ہماری معیشت کے یہ چار بنیادی مسائل ہیں،پہلا مسئلہ کرنٹ اکاوئنٹ ہے دوسرا فسکل ڈیفی سیٹ،تیسرا توانائی کااورچوتھا سرکاری ادارے ہیں۔بہت خراب حالات کے باوجود تھوڑے بہت جو مثبت پہلو سمجھ میں آتے ہیںا ن میں اس وقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ان چاروں معاملات میں بہت سنجیدہ ہے،انہوں نے بھی مجبوری میں سارے مسائل حل کرنےکا بیڑا اٹھالیا ہے،انہیں ان چاروں مسائل پر ہاتھ ڈالنا پڑے گا،کیوں کہ وہ بھی سمجھتے ہیں ہنی مون پریڈ ختم ہوگیا ہے۔
پہلا مسئلہ کرنٹ اکاوئنٹ ہے،جیساکہ سب کو معلوم ہے ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف ایکشن ہواتوڈالرنیچےآنا شروع ہوا،دودن پہلے دوبارہ اوپر گیالیکن پھر نیچے آیا۔ کراچی میں ایک بڑا مارٹ آغا سپر مارکیٹ تھا، کبھی آپ نے سوچا وہ کیوں بند ہوگیا،منی ایکسچینج کی وجہ سے، حوالہ کی وجہ سے، اس مارٹ کے اوپر ایک منی ایکسچینج ہوتا تھا۔اندازا دس بلین(ارب) ڈالر کا حوالہ دنیا کے مختلف ممالک سے پاکستان آتا اور جاتا ہے۔
حوالے کا مرکزی اڈا ایکسچینج کمپنیاں ہیں۔ اگر ایکسچینج کمپنیوں کو بدلے کا کبوتر بنائیں گے تو ڈالر250 سے نیچے چلا جائے گا جوڈالر کی اصل قدرہے۔ڈالر کی قدر بڑھنے کی دو وجوہات ہیں،افغانستان میں پابندی ہے وہ کسی دوسرے ملک سے کاروبار نہیں کرسکتا،2023 میں افغانستان نے ساڑھےسات ملین ڈالر کی امپورٹ کی ہے حالانکہ ان کے پاس ایک بھی ڈالر نہیں ہے، یہ ساڑھے سات ملین ڈالر انہوں نے کراچی اور پشاور سے اٹھایا ہے، آپ نے پڑھا ہوگا کہ کراچی سے ویگن پکڑی گئی ہیں سیکورٹی کمپنیوں کی گاڑیاں پکڑی گئی ہیں ان گاڑیوں سے ڈالرکراچی سے پشاور منتقل ہوتے تھے،پشاور میں ڈالر کاریٹ کراچی سے دس روپے زیادہ ہوتا ہے،کوئٹہ میں 106 ایکسچینج کمپنیاں ہیں لیکن دکان کوئی نہیں ہے اس پورے کھیل میں سیاسی اور ملٹری دونوں کردار شامل تھے،جب صور ت حال خراب ہوئی تو یہ سیدھے ہوئے ہیں اب سوال یہ ہے کہ یہ کب تک سیدھے رہیں گے۔
اگر یہ ہی حکمت عملی رہی تو ڈالر 250 سے اوپر نہیں جائے گا۔اسی وجہ سےمیں پرامید ہوں ہمارا کرنٹ اکاوئنٹ کا بیلنس بہتر ہونے جارہا ہے،اگراس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو آئی ایم ایف سے اگلی ٹرم میں اچھا معاہدہ بھی کرلیں گے،اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسی سختی آنے والی مبینہ نئی منتخب حکومت کرسکتی ہےیا پرانی پریکٹس جاری رہے گی۔
یہ پاکستان کے لیے سب سے اہم سوال ہے، دوسرا نکتہ ہے اسٹیٹ انٹر پرائز،پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت پی آئی اے اور اسٹیل مل کی نج کاری نہیں کرسکتی صرف ملٹری حکومت یا ایس آئی ایف سی کرسکتی ہے،یہ جیسا بھی ہے ان اداروں کا نکالیں، اگر آپ نے کسی طرح بھی یہ کرلیا تو اسٹیٹ انٹر پرائز کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
اگلا مسئلہ پاور کا ہے ،پاور میں آپ کے پاس 60ڈسکوز ہیں جو اٹھارہ سے 19فیصد لائن لاسز کے ذمے دار ہیں کے الیکٹرک کا ایک زمانے میں 31 فیصد لائن لاسز تھا جو اب اٹھارہ پر آگیا ہے،یہ لاسز سکھر اور کوئٹہ میں بہت زیادہ ہے،اگر آپ ان ڈسکوز کی بھی نجکاری کردیں تو ہمارا سرکلر ڈیبٹ کا بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے،دوسری طرف اپٹما یا کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بجلی سستی ہوجائے گی اور اس سے ایکسپورٹ بڑھے گی،تو ان کی اطلاع کےلیے بجلی سستی نہیں ہوگی،کیوں کہ وہ سسٹم اور آئی ایم ایف کےلیےممکن ہی نہیں کہ وہ بجلی سستی کرنے کے لیے سبسڈی دیں۔
اب ہے فسکل اکاوئنٹ ٹیکسیشن سسٹم یہاں ایک بار پھر اس بات پر غور کرنا پڑے گا کہ کیا حکومت اپنی رٹ قائم کرنا چاہے گی یانہیں۔حکومت دوہفتے پہلے کراچی کے شاپنگ سینٹر رابی سینٹر گئی اور اسمگلنگ والوں پر ہاتھ ڈالا تو وہاں جوابی طور پرفائرنگ غندہ گردی کی گئی،اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ چیز آگے چلے گی یانہیں چلے گی ،اگر نہیں چلے گی تو پاکستان نہیں چل سکتا۔
ان چار چیزوں کو سنبھالنا ہے،آنے والے دنوں میں جو سیاسی ٹرانزیشن ہونے جارہی ہے جوکسی شکل میں بھی ہوگی وہ ان چاروں چیزوں کے ساتھ ہوگی کہ ان پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، اگر پھر بھی ہوا تو ملک چلنے کا کوئی امکان نہیں،آخری بات ، افغانستان کا مسئلہ حل کرنا پڑے گاانہیں ٹھیک کرنا پڑے گا، جب ہم ان کی اکنامی پر ہاتھ ڈالیں گے تو وہ ٹھیک ہوں گے،ابھی انہیں ساڑھے سات ملین ڈالر دیے ہیں، چاردن ڈالر بند کریں وہاں کی حکومت گر جائے گی۔
انہیں ہمارے ساتھ ٹھیک سے رہنا پڑے گا اگر افغانستان کا اس طرح کا کاروبار اور دیگر چیزیں جاری رہیں تو بھی معاملات ٹھیک نہیں ہوںگے۔مجھے کافی امکان نظر آرہا ہےکہ دوہزار چوبیس میں یہ سارے معاملات ترجیحی طور پر سامنے رہیں گے۔ لانگ ٹرم میں سمجھتا ہوں پاکستان چلانے کےلیے معاشی طور پر دوحصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا، ایک ساوتھ پاکستان دوسرا نارتھ پاکستان،ساوتھ پاکستان ایکسپورٹ تیار کرے گا اور نارتھ پاکستان لوکل ضروریات پوری کرےگا۔
ساوتھ پاکستان کو چین کا شین زنگ ماڈل بنانا پڑے گا کہ وہ امپورٹ اور ایکسپورٹ کرے، ویت نام کی ایکسپورٹ سات سو بلین ڈالر ہے، اس میں 100بلین ڈالر صرف سام سنگ کی ہے، سام سنگ کے سارے موبائل فون ویت نام میں تیار ہوتے ہیں،پاکستان میں کراچی کو ساوتھ بنانا پڑے گا،اگر ایسا ہوا تو کراچی کا ایکسپورٹ کا علاقہ چل پڑے گا۔
ہمیں ایک غلط فہمی گوادر کے حوالے سے بھی دور کرلینی چاہیے وہ کبھی بھی نہیں چلے گا ،وہ معاشی کاروباری طور پر قابل عمل نہیں ہے، وہاں بندہ نہیں بچتا کاروبار کیسے کریں گے، ایک آدمی کی حفاظت کےلیے پانچ فوجی ہیں توکاروبار تو ان حالات میں ممکن ہی نہیں،لہذا اگر کراچی میں دقت ہے تو ایک اور آگے پورٹ بنالیں۔
جنگ: سی پیک کا مرکز گوادر ہے اور سی پیک اور گوادر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں؟
سید شبر زیدی: سی پیک اب کہاں ہے وہ تو ختم ہوگیا،سی پیک جب آیا تو اس کی قیمت 45بلین ڈالرتھی اس کے دو حصے تھے ایک جی ٹو جی گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ اور دوسرا بی ٹو بی،سی پیک میں جی ٹو جی تو ضرور ہوگا یعنی انفرااسٹرکچر یعنی سڑک بن جائے گی ایم ایل ون ایم ایل ٹو ہوجائے گا لیکن بزنس ٹو بزنس کبھی نہیں ہوگا،اب سی پیک 67بلین ڈالر کا ہے، پاکستانی ٹیکسٹائل مل والا چین کوکبھی مل نہیں بیچے گا نہ اس کے ساتھ جوائنٹ وینچر کرے گا۔میں پچھلے دس سال سے گیم چینجر کا سن رہا ہوں لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا۔
فورم کو اوپن کرتے ہیں۔
مجید عزیز سی پیک میں کیا کسی ڈیم کی تعمیر شامل نہیں ہے؟ـ کارو میں ایک چھوٹا ڈیم ہے۔
سیدشبرزیدی: سی پیک میں کوئی ڈیم نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ سی پیک میں کوئی ڈیم نہیں ہےاور ڈیم کہاں بنائیں گے دریا میں تو پہلے ہی ایک داسو ہے اور دوسرا بھاشا ہے دونوں بن رہے ہیں۔
عابد رائو: دونوں اسپیکرز سے مسائل کے ساتھ اسےحل کرنے کا بھی پوچھا گیا تھا، بڑھتی آبادی کی وجہ معاشی صورت حال ہوتی ہے کیوں کہ امیروںسے زیادہ اکثر غریب کا خاندان تعداد میں زیادہ بڑا ہوتا ہے، ٹیکس کلیکشن نہ بڑھنے کی وجہ ایف بی آر کی کرپشن بھی ہے،فائلر اور نان فائلر کی تقسیم کررکھی ہے، ہمارا یہاں اکانومسٹ کووزیرخزانہ نہیں بنا یاجاتا، اکاوئنٹنٹ یا بینکربنائے گئے ہیں۔
معیشت چلانے کےلیے اگلے پانچ سال کا کوئی پلان ہونا چاہیے کہ ان برسوں میں زراعت یا ایکسپورٹ کہاں ہوگی، آپ نے پڑوس کے ساتھ تجارت پر بھی کوئی بات نہیں کی۔اگر افغان ٹرانزٹ سے متاثر ہورہے ہیں تو انڈیا کا نیپال کے ساتھ تجارت کا ماڈل بھی تو دیکھیں نیپال کوئی بھی ایسی چیز امپورٹ نہیں کرسکتا جو انڈیا میں بنتی ہو۔
اسمگلنگ میں ہماری اپنی دلچسپی ہے،جن علاقوں سے اسمگلنگ ہوتی ہے، پچاس کی دہائی وہاں روزگارنہیں تھا یہ لوگ پنجاب سے لوگوں کو اغوا کرکے لے جاتے تھے ،روزگاردینے کے غرض سے ایوب خان حکومت میں اسمگلنگ کرنےکی محدود بنیاد پر اجازت دی گئی تھی۔ آپ ان چیزوں کی نشاندہی بھی کریں جہاں کچھ کرنے کا امکانات ہیں۔
شبرزیدی: میں ایف بی آرکا پہلا چیئرمین تھا جس نے فائلر اورنان فائلر کی ٹرم ختم کی تھی ابھی بھی یہ نوے فیصد ختم ہے،1992 میں وزیراعظم نوازشریف کی دعوت پرلی کوآن یو پاکستان آئے تھے ،اس کے ساتھ میٹنگ کے لیے مجھ سمیت بہت سے لوگ گئے تھے، اس نے پوچھاتھا پاکستان کا مسئلہ کیا ہے تو بتایا گیا کہ پاکستان کا بڑامسئلہ کرپشن ہے جس پر اس نے جواب دیا تھا کرپشن چیزوں کو فاسٹ کرتی ہے وہ روکتی نہیں ہے، لہذا کرپشن ایشو نہیں اسے کبھی ختم نہیں کرسکتے۔
مریم سلمان: آپ نے جو چار ایریا ز بتائے جس پر حکومت چاہے سویلین ہو یا ملٹری اسی پر کام ہوگا ، لیکن اس میں یہ ذکر ہی نہیں آج بھی ملک کے دوکروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔
سید شبرزیدی: جن چار ایریاز کا میں نے ذکر کیا یہ فائرفائٹنگ ہیں یہ حل نہیں ہیں، بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا تو ہم کریش کرجائیں گے،آبادی یا تعلیم کے لیے کیا منصوبہ ہوگا وہ علیحدہ موضوع ہے۔میاں نواز شریف کے پہلے دور حکومت کچھ قانون بنائے گئے ،میں سمجھتا ہوں ان میں سے دوچیزیں پاکستان کی معیشت کو تباہ کرگئیں ایک ایف ٹی آر دوسرا ایک قانون جس کا نام تھا پروٹیکشن آف اکانومی ریفارمز ایکٹ ،جس کے مطابق آپ جائیں بدعنوانی سے پیسے کمائیں ایکسچینج کمپنی میں جائیں ڈالر لیں اور اسے باہر بھیج دیں پھر واپس لائیں اور اسے وائٹ ڈیکلیر کردیں یہ قانون تیس سال تک چلتا رہا جسے دوہزار انیس میں ختم کیا گیا ہے ۔
اشفاق احمد میمن: ہمارے سارے ریفارمز بے کار جائیں گے جب تک گورنس ٹھیک نہیں ہوگی ،بیڈ گورنس ہمارا بنیادی مسئلہ ہے۔
فتح نوید: آپ نے بڑی خراب صورت حال بتائی ہے نوجوان کیا کریں پاکستان میں رہیں یا باہر چلے جائیں؟
سید شبر زیدی: پاکستان میں جتنے بھی بڑے صنعتی گروپ اور امیرترین ہیں ،ان سب کا میں ایڈوائزر رہ چکا ہوں اور ہوں،پاکستانی باہر کماہی نہیں سکتا اگر کسی نے زندگی بھر کلرکی کرنی ہے یاچھوٹی موٹی نوکری کرنی ہے، امریکا کسی شہر میں چھوٹا سا گھر لے کر پوری زندگی گزارنی ہے توضرور امریکا جائے لیکن اگر تم سمجھتے ہو تمہارے میں کوئی صلاحیت ہے تو ایمان داری سے کمانے اور ترقی کرنے کےلیےآج بھی پاکستان سے زیادہ اچھی جگہ کوئی نہیں ہے۔
جنگ: اگر میں پاکستا ن کا اپنے نزدیک باالخصوص انڈیا سے موازنہ کروں تو معلوم ہوگا۔نمایاں فرق ہمارے مسائل کی بڑی وجہ جمہوریت کا نہ ہونانظرآتا ہے،لیکن اس کے باوجودتمام ناکامیوں کو جمہوریت پر ڈال کر گالیاں جمہوریت کوہی دی جاتی ہیں۔پارلیمنٹ کسی بھی قوم اور ملک میں اجتماعی دانش کی جگہ سمجھی جاتی ہے،جن ملکوں میں اجتماعی دانش بغیر کسی وقفے اور دخل اندازی کے مستقل کام کررہی ہے ترقی بھی وہی کررہے ہیں۔پاکستان میں کسی نہ کسی طرح غیر منتخب لوگ ہی حکمران رہےہیں،جویہ سمجھتا ہے تمام دانش اسی کےپاس ہے۔
یہاں وہ لوگ بھی جمہوریت کو گالی دیتے ہیں جنہوں نےپاکستان میں جمہوریت کبھی دیکھی ہی نہیں، نہ پنپنے دی نہ چلنے دی۔جمہوریت کسی درخت کی طرح ہوتی ہے کسی بچے کی طرح دھیرے دھیرےبڑھتی ہے،ایک رات یا سال میں نتیجہ نہیں آتا،جمہوریت کاپھل ہرگزرتے دن کے ساتھ ملے گا،لیکن اسے چلنے دیں الیکشن بغیر کسی رکاوٹ کے وقت پر ہونےدیں۔
پاکستان کی تاریخ میں کوئی الیکشن بھی فیئراینڈ فری نہیں ہوااور آنے والے کے متعلق بھی یہ ہی کہا جارہا ہے۔اتنی رکاوٹوں کے بعد پھر اس نظام سے نتائج سب کو اچھےچاہییں یہ کی دانش ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ فیصلہ وہ ایس ایچ او کرتا ہے جس کا اس میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔