اسلام آباد (نمائندہ جنگ)آڈیو لیکس کیس میں وزیراعظم آفس نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جواب جمع کرایا ہے کہ شہریوں کی ٹیلی فونک گفتگو ریکارڈ کرنا غیرقانونی نہیں ‘اس کا لیگل فریم ورک موجود ہے‘.
وزیراعظم آفس انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حساس روزمرہ امور میں مداخلت نہیں کرتا ، ایسا کرنا قومی سلامتی کے مفاد میں نہیں ، وزیراعظم آفس انٹیلی جنس ایجنسیز سے آئین اور قانون کے مطابق عوامی مفاد میں کام کرنے کی امید رکھتا ہے‘.
شہریوں کی قانون کے مطابق ریکارڈ کی گئی گفتگو کو خفیہ رکھنا اور لیک ہونے سے روکنے کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ اس بات کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ ریکارڈ کی گئی گفتگو کو کسی اور مقصد کیلئے استعمال نہ کیا جا سکے۔
ٹیلی گراف ایکٹ 1885میں بھی پیغامات پڑھنے کیلئے وفاقی یا صوبائی حکومت سے اجازت کو لازم قرار دیا گیا ہے۔
پیکا آرڈی نینس اور رولز کے تحت بھی حاصل کئے گئے ڈیٹا یا ریکارڈ کو خفیہ رکھنا لازم ہے۔ پیر کو وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری نے عدالتی سوالات پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں تحریری جواب جمع کرایا ہے جس میں کہا گیا کہ عدالت نے سوال پوچھا تھا کہ کس ایجنسی کے پاس شہریوں کی گفتگو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت موجود ہے؟ تحریری جواب کے مطابق انوسٹی گیشن فار فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 شہریوں کی گفتگو ریکارڈ کرنے کی اجازت دینے کا میکنزم فراہم کرتا ہے۔
وزیراعظم آفس کا انٹیلی جنس ایجنسیز کے کام اور آپریشنز کی تفصیل میں جانا ملک کو اندرونی و بیرونی خطرات سے بچانے والی انٹیلی جنس ایجنسیز کے مفاد میں نہیں۔عدالت نے سوال پوچھا کہ شہریوں کی گفتگو کس نے ریکارڈ اور لیک کیں؟ تحقیقات کیلئے کیا اقدامات کئے گئے؟
تحریری جواب میں بتایا گیا کہ شہریوں کی ٹیلی فون پر کی گئی گفتگو ریکارڈ کر کے لیک کرنے کا معاملہ وفاقی حکومت کے علم میں ہے۔ وفاقی حکومت نے سینئر ججز پر مشتمل اعلیٰ سطح کا انکوائری کمیشن قائم کیا ہے۔ انکوائری کمیشن لیک کی گئی آڈیوز کے مصدقہ ہونے کی انکوائری کرے گا۔
واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان کے بیٹے نجم الثاقب نے آڈیو لیکس معاملے پر پارلیمانی کمیٹی جبکہ سابق خاتون اول بشریٰ بی بی نے توشہ خانہ تحائف سے متعلق زلفی بخاری سے گفتگو کی آڈیو لیک ہونے پر ایف آئی اے میں طلبی کے نوٹس کو چیلنج کر رکھا ہے۔ عدالت نے درخواست گزاروں کو طلب کئے جانے والے نوٹس معطل کر کے کیس کی سماعت 11 دسمبر تک ملتوی کی تھی۔