اسلام آباد (رپورٹ : رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سندھ حکومت کو بحریہ ٹاؤن کی اراضی کا سروے کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا کام یہاں بیٹھ کر تجارت کرنا نہیں، آپ کے موکل نے اچھا سودا پکڑا یا غلط، ذمہ داری ان کی اپنی ہے، وکیل بحریہ ٹاؤن سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کو دو کروڑ 72 لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے جبکہ وہی اراضی ایک اور بلڈر کو ایک لاکھ روپے فی ایکڑ کے عوض دی گئی ہے ،بحریہ ٹاؤن کو مارکیٹ سے زیادہ قیمت لگا کر تعصب کا نشانہ بنایا گیا جو میرے موکل کے ساتھ امتیازی سلوک ہے، تفصیلات کے مطابق عدالت عظمی نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ایک سابق فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران سندھ حکومت کو بحریہ ٹاؤن کراچی کے زیر قبضہ مکمل اراضی کا سروے کوانے کا حکم جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 23 نومبر تک ملتوی کردی۔ جبکہ انگلینڈ سے موصول ہونے والی مبینہ 190ملین پاؤنڈز کی رقم سے متعلق دائر کی گئی آئینی درخواست اور بحریہ ٹاؤن کی جانب سے کراچی میں نیشنل پارک اور جنگلات کی اراضی پر مبینہ ناجائز قبضہ کرنے سے متعلق دائر کی گئی آئینی درخواست کو بھی آئندہ سماعت پر اسی مقدمہ کے ساتھ مقرر کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ جبکہ زائد اراضی پر ناجائزقبضہ سے متعلق پہلے سے ہی دائر ایک درخواست کے درخواست گزار محمود نقوی کو بھی نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے سندھ حکومت اور ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو بحریہ ٹاؤن کراچی کے زیر قبضہ تمام اراضٰی کا تصاویر اور گوگل میپ کی مدد سے سروے کرنے کی ہدایت کی ہے کہ سروے کے دن اور تاریخ سے بحریہ ٹاؤن کو پیشگی آگاہ کیا جائے جبکہ سروے کے دوران اس چیز کا سراغ لگایا جائے کہ بحریہ ٹاؤن کے قبضے میں کتنی سرکاری، کتنی پرائیوٹ اور کتنی نیشنل پارک یا محکمہ جنگلات کی اراضی ہے۔ عدالت نے اپنے شعبہ اکاؤنٹس کے عملہ کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں بحریہ ٹاؤن کے حوالے سے ہی باہر سے آنے والی رقوم کے اکاؤنٹ نمبروں کی تفصیلات مشرق بینک کے وکیل کے ساتھ شیئر کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ بینک انتظامیہ کو سراغ لگا کر عدالت کو اکاؤنٹس ہولڈرز کے نام اور ان سے متعلق مکمل تفصیلات فراہم کرسکے۔ عدالت نے کھاتہ داروں کے نام سامنے آنے کے بعد انہیں بھی نوٹسز جاری کرنے کی ہدایت کی ہے۔ دوران سماعت عدالت نے بحریہ ٹاؤن کے چیف ایگزیکیٹو ملک ریاض کے وکیل سلیمان اسلم بٹ کو ہدایت کی کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے موکل سے ہدایات لیں کہ کیا وہ مقدمے میں صرف ان کی حد تک وکالت کریں گے یا ان کے دیگر اہل خانہ کی نمائندگی بھی کریں گے؟ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں موجود رقم کو مزید نہیں رکھنا چاہتی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہرمن اللہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بدھ کے روز کیس کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے سندھ حکومت اور ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی کی دوستی ہوگئی ہے، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں رقم کا ایک حصہ بحریہ ٹاؤن نے جمع کرایاہے جبکہ دوسرا بیرون ملک سے آیا ہے، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور سندھ حکومت دونوں کہتے تھے پیسے انہیں دیئے جائیں لیکن اب دونوں کا اتفاق ہو گیا ہے کہ رقم سندھ حکومت کو منتقل کی جائے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ایم ڈی اے نے بحریہ ٹاؤن کو تمام متعلقہ منظوریاں دی تھیں؟ جس پر ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ سولہ ہزار 896 ایکڑ کے مطابق لے آؤٹ پلان کی منظوری دی تھی، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی نے قانونی عمل کے بغیر زمین کیسے بحریہ ٹاؤن کے حوالے کر دی تھی؟ زمین عوام کی تھی، ایم ڈی اے کی ذاتی اراضی تو نہیں تھی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی نے زمین کی پیمائش کی ہے؟ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ بحریہ کے پاس زمین زیادہ ہے، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ زمین کی پیمائش نہیں کی گئی لیکن الزام کے ساتھ کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔ دوران سماعت مشرق بینک کے وکیل راشد انور پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل بینک کو عدالت کا نوٹس جاری ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے 80ہزار کے قریب اکاؤنٹ ہولڈرز ہیں، بینک نے اپنے پاس سے تو کوئی رقم نہیں بھجوائی جبکہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ کس کے اکاؤنٹ سے بھجوائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کے اکاؤنٹس کے شعبہ کے کسی اہلکار کو کہا جائے کہ وہ ہمیں متعلقہ اکاؤنٹس نمبر فراہم کریں تاکہ ہم ان کی روشنی میں کھاتہ داروں سے متعلق تفصیلات فراہم کرسکیں۔ جس پر عدالت نے اپنے شعبہ اکاؤنٹس کے عملہ کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں بحریہ ٹاؤن کے حوالے سے بیرون ملک سے آنے والی رقوم کے اکاؤنٹ نمبروں کی تفصیلات مشرق بینک کے وکیل کے ساتھ شیئر کرنے کی ہدایت کی۔