فلسطینیوں کے لیے مسلسل آواز بلند کرنے والی پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ اشنا شاہ نے سوشل میڈیا پر جاری اسرائیلی مصنوعات کے خلاف بائیکاٹ مہم کا صحیح اور مؤثر طریقہ شیئر کر دیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اشنا شاہ نے ساتھی اداکارہ تمکنت کی ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں انہوں نے اسرائیل کے خلاف دنیا بھر میں جاری بائیکاٹ مہم میں مؤثر انداز میں حصہ بننے کا طریقہ صارفین کو سمجھایا۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیو میں تمکنت کو یہ بتاتے ہوئے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر کے صارفین متحد ہو کر چند عالمی کمپنیوں (جو اس نسل کشی میں اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہیں) کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے اسرائیل پر اس جارحیت سے باز رہنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنی مرضی سے کچھ مصنوعات کا بائیکاٹ شروع کر دیں اور سوشل میڈیا پر دوسروں کو بھی اس پر زور دیں تو اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ چند افراد کسی چیز کا بائیکاٹ کریں گے تو چند کسی اور چیز کا۔
انہوں نے بتایا کہ بائیکاٹ ڈی انویسٹمنٹ اینڈ سینکشنز (بی ڈی ایس) ایک تحریک ہے جو فلسطینوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف 2005ء میں شروع کی گئی اور اس کے تحت چند مخصوص کمپنیوں کو منتخب کیا گیا جو بلا واسطہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں، بی ڈی ایس نے ان ہی چند مخصوص کمپنیوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ دنیا بھر کے لوگوں سے کیا ہے، ایسا ماضی میں بھی کیا گیا تھا جو کامیاب رہا۔
تمکنت نے بتایا ہے کہ حالیہ اسرائیل فلسطین کشیدگی کے بعد بی ڈی ایس کی جانب سے 3 عالمی کمپنیوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا، تاکہ معاشی طور پر دباؤ ڈال کر ان کمپنیوں کو اپنی اسٹریٹیجی تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا سکے اور پھر ان کی دیکھا دیکھی دیگر کمپنیاں بھی اپنی اسٹریٹیجی تبدیل کریں اور اسرائیل کی مدد کرنے سے باز رہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے غزہ میں اسرائیلی وحشیانہ بم باری کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں شہداء کی تعداد 11 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، ان میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔
گزشتہ ایک ماہ سے اقوامِ متحدہ سمیت دنیا بھر کے سیاسی رہنما اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی سے روکنے میں ناکام رہے، تاہم اب دنیا بھر کے ساتھ پاکستان میں بھی اسرائیل کی حامی عالمی کمپنیوں کے خلاف بائیکاٹ مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔
عوام کی بڑی تعداد اس بائیکاٹ مہم میں اپنا حصہ ڈالنے کو کوشش کر رہی ہے اور سوشل میڈیا پر پوسٹس کے ذریعے دیگر صارفین کو بھی اس مہم کا حصہ بننے کا درس دے رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم اسرائیلی ظلم کو روک نہیں سکتے تو کم از کم ان کو معاشی طور پر نقصان پہنچا کر مزاحمت تو کر سکتے ہیں۔