عاصمہ ثاقب
ایک چوہا سڑک کےکنارے لگےدرخت کی جڑ میں اپنے بل کے باہر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ روز گاڑیوں کی آمدورفت دیکھا کرتا، اُس کا بھی دل چاہتا تھاکے بس کی سیر کرے۔ اچانک ایک بس اُس کے سامنے آکررکی، اُس نے دیکھا ایک عورت اور مرد بس میں سوار ہونے کے لیے آگے بڑھ رہےہیں ، عورت نے لمبا کوٹ پہن رکھا تھا، چوہے کے ذہن میں جھٹ ایک ترکیب آ ئی، وہ عورت کے کوٹ پر آہستہ سےچڑھنے لگا ، عورت ،مرد بس میں چڑھنےکی جلدی میں تھے، ان کو چوہے کی کارگزاری کا علم نہ ہوا اور وہ بڑے اطمینان سے کوٹ کی جیب میں بیٹھ کر ان کے ساتھ بس کے اندر پہنچ گیا۔
ڈرائیور نے کہا۔ اپنا اپنا کرایہ اس صندوقچی میں ڈال دیں۔ چوہے نے دیکھا کہ پہلے مرد نے اور پھر عورت نے کچھ پیسے صندوقچی میں ڈال دیئے، وہ سوچنے لگاکہ یہ کرایہ کیا بلا ہے۔ چوہا ڈرائیور کے پاؤں کے پاس جا کھڑا ہوا اور کئی دفعہ کوشش کی کہ اُس سے کچھ کہہ سکے، اس نے ڈرائیور کو اپنی طرف متوجہ بھی کیا لیکن وہ بس چلاتا رہا ۔ چوہے نے سوچا یہ تو سنتا ہی نہیں کیوں نہ اس کی ٹانگوں پر چڑھ کر گھٹنے پرچڑھ جاؤں تو پھر میری بات سنے گا۔
جب وہ ڈرائیور کے گھٹنے پر پہنچا تواُس نے الٹے ہاتھ سے اس طرح اچھالا کہ وہ ایک موٹی عورت پر جاگرا، وہ ایک دم چلائی اوئی چوہا اور کھڑی ہو کر ادھر اُدھر ہونے لگی ، چوہا جھٹ بھاگ کر نشستوں کے نیچے جا چھپا ، لیکن عورتوں میں بھا گدڑ مچ گئی، ڈرائیور نےبس روک دی۔ سب لوگ چوہا تلاش کرنے لگے ، مگر وہ ایسی جگہ چھپا بیٹھا تھا کہ اس پر کسی کی نظر نہ پڑ سکی۔ جب سب لوگ بیٹھ گئے تو اُس نے اطمینان کا سانس لیا۔
ڈرائیور نے بس چلادی، چوہے نےادھر اُدھر سےجھانک کر باہر دیکھنے کی کو شش کی نشستوں کے نیچے چل پھر کر دیکھا ،تاکہ باہر کانظارہ کر سکے لیکن کامیابی نہ ہوئی، صرف مسافروں کے پاؤں نظرآرہے تھے۔اتنے میں اُنھیں ایک چمکیلی سلاخ نظر آئی جو بس کے اندر چھت تک لگی ہوئی تھی، اس کے سہارے وہ چھت پر چڑھ گیا۔ چھت پر بیٹھ کر چوہے کو باہر کی ہر چیز دکھائی دینے لگی، دفعتاََ بس ایک موڑ پر مڑی جس سے دھچکا لگا، چوہا خود کو لڑھکنے سے نہ بچا سکا اور گھنٹی کی زنجیر پر آ گرا۔ گھنٹی بجنی شروع ہوگئی، ڈرائیور نے خیال کیا، کوئی مسافر اترنا چاہتا ہے ، اگلے موڑ پر بس روک دی چوہا اچھل کروہیں بیٹھ گیا ،جہاں سے گرا تھا۔
گھنٹی بجنی بند ہو گئی، جب کوئی نہ اترا تو ڈرائیور نے پھربس چلادی، وہ دھچکے سے چلی چوہا پھر گھنٹی کی زنجیر پر آ گرا اور ٹن ٹن کر کے گھنٹی پھر بجنے لگی۔ چوہےنے سوچاشاید ڈرائیور مجھے پریشان کرنے کے لیے بار بار گھنٹی بجا رہا ہے۔ ڈرائیور نے اگلے موڑ پر پھربس روک دی، چوہا زنجیر سے چھلانگ لگا کر پھر سلاخ پر چڑھ گیا، گھنٹی بجنی بند ہو گئی، جب کوئی نہ اترا تو ڈرائیور نے بس چلادی۔
اچانک چوہے کے کان کے پیچھے خارش سی ہوئی اور اُس نے کھجانے کےلیےاپنا پاؤںاٹھایا، لیکن خود کو سنبھال نہ سکا اور ایک بار پھر زنجیر پر گر پڑا ، گھنٹی بجنے لگی، اُس نے خیال کیا یہ بھی عجیب بس ہے۔ ڈرائیور نے پھر موڑ پر بس روکی لیکن کوئی نہ اترا، چوہا دل میں کہنے لگا، بڑی سست رفتار بس ہے، اس سے زیادہ تیز تو میں پیدل چل سکتا ہوں، اگلے موڑ پر اتر جاؤں گا، چنانچہ جب ڈرائیور نے اگلے موڑ پر بس روکی تو وہ چمکتی ہوئی سلاخ سے نیچے اترآیا اور پچھلے دروازے سے چھلانگ لگا کر باہر نکل گیا۔
نیچے اتر کر چوہے نے ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے اسے مفت میں بس کی سیر کرادی لیکن ڈرائیور نے کچھ بھی نہ سنا اور بس چل پڑی ۔ آئندہ کےلیےچوہے نےبس میں سفر کرنے سے توبہ کر لی۔