• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچ طلبا کی عدم بازیابی، اسلام آباد ہائیکورٹ کا نگراں وزیراعظم، وزیر دفاع و وزیر داخلہ اور سیکرٹریز کو بدھ کو پیش ہونے کا حکم

اسلام آباد (رپورٹ :عاصم جاوید) اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم وزرا کمیٹی کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے گمشدہ بلوچ طلبا کی عدم بازیابی کی صورت میں نگراں وزیرعظم انوار الحق کاکڑ کوبدھ 29نومبر کو عدالت طلب کر لیا ہے۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ ، سیکرٹری دفاع ، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کو بھی آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیا۔ دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ نگران وزیراعظم اور وزیر داخلہ بلوچستان سے ہیں ، انہیں احساس ہونا چاہئے تھا کہ یہ بلوچ طلبا کا معاملہ ہے‘ کیا ہم یہ معاملہ اقوام متحدہ کو بھیج دیں اور اپنے ملک کی بے عزتی کروائیں؟ عدالت متعدد فیصلے دے چکی ہے ، اکیسویں سماعت پر بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے روز تھے ، لاپتہ افراد کمیشن نے کوئی کام نہیں کیا ، یہ بہت بڑا المیہ ہے ، کیا یہ کمیشن صرف عدالتی فیصلوں کو بائی پاس کرنے کیلئے بنا ہے؟یہ معاملہ وزیر اعظم کو بھیجا گیا ‘ ہم سمجھے وہ آ کر کہیں گے یہ ہمارے بچے ہیں ، اگر ان کیخلاف کوئی کریمنل کیس تھا تو رجسٹرڈ کرتے ۔ بدھ کو سماعت کے دوران بلوچ لاپتہ طلبا کی جانب سے ایڈووکیٹ ایمان مزاری عدالت کے سامنے پیش ہوئیں۔ دوران سماعت اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن نے وزرا کمیٹی اجلاس کی ایک صفحے پر مشتمل چھ نکات کی رپورٹ پیش کی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مسترد کر دی اور رپورٹ کی کاپی واپس کرتے ہوے کہا کہ اس عدالت کیلئے یہ شرم کا مقام ہے۔ فاضل جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل کوعدالت طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کر دیا۔ دوبارہ سماعت کے دوران عدالتی حکم پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت میں پیش ہوگئے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ پہلے تو آپ کو بتا دیں کہ یہ کیس ہے کیا تاکہ صورتحال واضح ہو جائے ، آج اس کیس کی اکیسویں سماعت تھی ، اس سے قبل جسٹس اطہر من اللہ چیف جسٹس تھے اور ان کے پاس یہ کیس تھا ، عدالت کے حکم پر کمیشن قائم ہوا اس میں سوالات پیش کئے گئے ، معاملہ جبری گمشدگیوں کا تھا اس لئے وفاقی حکومت کو بھیجا گیا ، یہ صرف ایک کا نہیں 51بلوچ طلبا کا معاملہ ہے جو ملک کے وزیر اعظم کو بھیجا گیا ، وزیر اعظم کو خود احساس ہونا چاہئے تھا ، ہم سمجھے وہ آ کر کہیں گے یہ ہمارے بچے ہیں ، اگر ان کیخلاف کوئی کریمنل کیس تھا تو رجسٹرڈ کرتے ، آپ رپورٹ پڑھیں جو ہمیں پیش کی گئی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ جو بھی معاملہ ہو وہ متعلقہ وزارت دیکھتی ہے یا سب کمیٹی کے سامنے بھیجا جاتا ہے ، کمیٹی پھر معاملہ وزیر اعظم اور کابینہ کے ساتھ شیئر کرتی ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ اس ہائیکورٹ نے وزیراعظم کو بلایا ، جو کمیشن تھا اس میں کافی ہائی پروفائل لوگ شامل تھے ، سب لکھا گیا۔ عدالت نے استفسار کیاکہ معاملے میں کوئی پیشرفت کیوں نہیں ہوئی؟ کمیشن کا اصل مقصد لاپتہ افراد کو بازیاب کرانا تھا ، یہ عدالت کتنے فیصلے دے چکی ہے ، لاپتہ افراد کمیشن نے کوئی کام نہیں کیا ، یہ بہت بڑا المیہ ہے ، کیا یہ کمیشن صرف عدالتی فیصلوں کو بائی پاس کرنے کیلئے بنا ہے؟ عدالت نے تو اپنا کام کرنا ہے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے ، آج اکیسویں سماعت پر بھی ہم اسی جگہ پر کھڑے ہیں جہاں پہلے روز تھے ، ہم سمجھے آہستہ آہستہ چیزیں تبدیل ہونگی اور لوگ واپس آجائیں گے ، یہ ریاست کی ذمہ داری ہے وہ کہتی اب وہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں ہیں ، ہم بھی پچھلے کئی سالوں سے یہی دیکھ رہے ہیں ، عدالت نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم وزرا کمیٹی کی رپورٹ مستردکرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم کو نوٹس جاری کریں گے‘ جو کام ایگزیکٹو کا تھا وہ عدالت کر رہی ہے ‘ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے وزیر اعظم اور وزرا کو طلب نہ کرنے کی استدعا کی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ، سب مذاق بنایا جا رہا ہے ، اس سے بڑھ کر لوگوں کی اور کیا توہین ہو گی کہ وہ لاپتہ ہو رہے ہیں؟ عدالت نے استفسار کیاکہ وزارت دفاع سے کون ہے؟ اس پر وزارت دفاع کا نمائندہ عدالت میں پیش ہو گیا۔ عدالت نے کہاکہ وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کو کہیں اگلی سماعت پر پیش ہوں ، ان کی پیشی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم استدعا کر رہے ہیں وزرا کو نہ بلایا جائے۔

kk

اہم خبریں سے مزید