حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے تو اسرائیل کی کون کون سی مصنوعات سے بچو گے۔ مسلمان اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ’’اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلائو گے‘‘اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر ایمان والے خوب شکرادا کرتے ہیں مگر کچھ ایسے ناشکرے بھی ہیں جو دنیاوی مصنوعات کو اپنے لئے نعمت عظمیٰ سمجھ کر اسے ہی اپنے لئے واجب اورلازم و ملزوم کر لیتے ہیں۔ آج مسلمان دوغلی پالیسی، منافقت اور بے ایمانی کی زندگی سے نہایت مطمئن اور پرسکون ہیں، مسلمانوں کی یہ کیٹگری کھاتی پیتی سوسائٹی کہلاتی ہے، غربا کا طبقہ پیٹ کی خاطر حرام حلال میں فرق نہیں سمجھتا تو عربی و اسرائیلی مصنوعات کی پہچان کیسے رکھے گا۔ پیٹ کے ایندھن پابندی سے آزاد ہوتے ہیں، مسلمانوں کا وہ طبقہ جسے امرا کہا جاتا ہے وہ آج کہاں کھڑا ہے چاہے وہ کسی بھی دنیاوی مصنوعات خواہ وہ یہود و نصاریٰ کی جانب سے ہو اسے ہی اپنے لئے اہم نعمت سمجھ کر واجب کر لیتے ہیں کہ انکے بغیر جینا محال ہے۔ چلئے دیکھتے ہیں ان انواع و اقسام میں سے مسلمان کس چیز کوضروری نہیں سمجھتے ہیں۔ دراصل یہ ہریہود ونصاریٰ کی نعمتوں کے عادی ہو چکے ہیں ہر نعمت کو اپنے پر طاری و سوار کر چکے ہیں۔ ارے یہ تو وہ لوگ ہیں جو یہودیوں سے اپنی پسند کی اشیا کوحلال کرانا جانتے ہیں، اگرکھانے پینے کی بات شروع کریں توسب سے پہلے میکڈونلڈ دیکھ لیجئے کہ مسلمانوں کا نظریہ اس کے بارے میں یہ ہے کہ اسکے کھانے سے کبھی کوئی شکایت نہ ہوئی کہ کبھی جو پیٹ خراب ہوا ہو تو اسے حلال کر دیا جائے۔ اس کے بعد برگر کنگ ہے جو کئی اسلامی ممالک میں حلال اور شوق سے کھایا جانے والا جنک فوڈ ہے، پھر اگر آپ نے پیزا کھانا ہے تو پھر پیزا ہٹ سے بہتر توکسی بھی نعمت کا نعم البدل نہیں، اسے آپ غذائی لحاظ سے گھر کی روٹی پر فوقیت دیتے ہیں تو پھر یہ بائیکاٹ کی رسم کیسے آگے بڑھے گی۔اب ذرا نہایت ہی حساس قسم کے ذائقے داربچوں اوربڑوں کے شوق کی بات ہو جائے کہ امرا کے بچے اسے کھانا اپنااسٹیٹس سمجھتے ہیں مندرجہ بالا اشیا کی طرح تووہ مختلف قسم کی چاکلیٹس ہیں۔ چاکلیٹ یوں تو ہر ملک کی پراڈکٹ ہوگی مگر کچھ پراڈکٹ برینڈ کا رتبہ پا چکی ہیں اور ہر دلعزیز ہیں۔ مارس، بنٹی، سنیکرز، ٹوئکس، گلیکسی، ایم اینڈ ایم ایس اور کئی اور بھی ہیں جنہیں بہت سے لوگ KFC اور پیزا ان کی طرح کھانا نہیں چھوڑ سکتے، یہ بھی فیصلہ کیجئے کہ اور مان بھی لیجئے کہ آپ کی صبح کا ناشتہ بھی یہود کے مقبول ترین سیریلز سے ہوتا ہے۔ آپ کے ہر قسم کے واشنگ پائوڈر سے لے کر آپ کی دوائوں تک کی سہولت اسرائیل کی مرہون منت ہے۔ جس گلے کو پھاڑ پھاڑ کر بائیکاٹ کا ڈھونگ رچا رہے ہو تو اس گلے کی چوسنے والی کھٹی میٹھی گولیاں تک وہ آپ کو دیتا ہے کہ کرو احتجاج کہ تمہارے ہاتھ میں گلے کی گولی بنانے کی سکت نہیں تو بڑی بڑی اشیا بنانے کا ہنر کہاں سے لائو گے کہ ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے رہو کہ آسمان سے من وسلویٰ اورزمین سے یہودی مصنوعات کا جلوہ تمہارے لئے بہت ہے۔ہم لوگ اسرائیلی مصنوعات کے عادی ترین لوگ ہیں ہماری نوجوان نسل جو بھی جوتے پہن کر قدم اٹھاتی ہے وہ جوگر ہوں یاکپڑے وہ سب یہود و نصاریٰ کے ڈیزائن کردہ انہیں کی کمپنیز کے ہیں تو پھر بتایئے کہ ان کے نام ک اور کام کا ڈنکا کیوں نہ بجے، ہم نے اپنی نوجوان نسل کو غیر مذہب والوں کی برینڈڈ چیزوں کاعادی بنایا، کچھ بھی خریدنے سے پہلے وہ اس برینڈ کا نام دل و دماغ میں رکھتے ہیں، ارے ہم نے تو اپنی نوجوان نسل کیلئے کچھ ایسا نہ کیا کہ جس پر فخر کیا جاسکے، ہماری تیسری دنیا کے مسلمان تو ابھی تک اپنے طمع و لالچ، اندرونی دشمنیاں، سیاست کی گھتیاں سلجھانے میں مصروف ہیں ان کے اپنے ملکی مسائل کے دلدر دور ہو کر نہیں دے رہے تو ترقی نوجوانوں کیلئے اور ملک کیلئے یہ کیا کریں گے کہ جنہیں اچھے حالات سے زیادہ بدحالی میں رہنے کی عادت ہو۔ اب آجایئے ذرا امیر ترین عرب ممالک کی طرف کہ عیاشی روز اول سے لے کر تاحال ان کی نس نس میں بسی ہے۔ غریب مسلمان ممالک و عوام کو حقارت سے دیکھنے والے اللہ، رسولﷺ کے برابری کے اصول و پاسداری کو یکسر نظرانداز کرنے والے آج اپنی تیل کے کنوئوں کی دولت سے مالا مال اپنے شہروں کو جنت نما جدید بنا رہے ہیں۔ بس دولت کی ریل پیل نے ان سے انسانی ہمدردی کا جذبہ چھین لیا۔ ان کے شہزادے اور شہزادیاں اپنی قیمتی ترین گاڑیاں، اپنا ہیرے جواہرات سے مزین محل کی زیبائش اور اپنی ذاتی آرائش کی چکا چوند ان پر نشے کی طرح طاری ان کا بھی اسرائیل کی ترقی سے متاثر ہونا لازمی ہے مگر ان جیسی محنت اور ترقی میں خود کفیل ہونا یہ اسرائیل سے نہیں سیکھتے مگر ان کی طرح طرح کی مصنوعات خرید کر انہیں مزید مضبوط کرنا ان کا شیوہ ہے۔اب آپ خود ہی انصاف کیجئے کہ کون کونسے اسلامی ممالک میں یہود کی مصنوعات سے گریز کیا جا رہاہے، ہم سے اچھا تو پرتگال کی نمائندگی کرنے والا فٹ بالر کرسٹیانو رونالڈو ہے کہ جس نے سرعام اپنے سامنے رکھی کوکاکولا کی بوتلیں اپنے سامنے سے ہٹاکر پانی پینے کو ترجیح دی تھی کہ بائیکاٹ کرنے کی اس سے بڑی جرأت کا مظاہرہ عرب کے کسی بھی شہزادے نے نہیں کیا کہ اسرائیل کو واضح پیغام ملتا ہماری یکجہتی کا کہ ہم مسلمان بھی آپ لوگوں کی طرح ایک ہی سا جذبہ رکھتے ہیں فلسطینیوں سے ہمدردی کا اسی لئے ہم سب کی طرف سے یکساں بائیکاٹ ہے۔