کراچی (اسٹاف رپورٹر ) سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز" کیا شہر تھا کیا لوگ تھے" کراچی کی زندہ آوازیں کے عنوان سے منعقدہ اجلاس میں زہرا نگاہ، پیرزادہ قاسم رضا صدیقی،شکیل عادل زادہ، انور شعور، انور سن رائے نے قیام پاکستان سے اب تک کراچی کی ان آوازوں کی خدمات پراظہار خیال کیا جنہوں نے علم وادب فن و ثقافت میں اپنی گرانقدر خدمات انجام دیں، فراست رضوی نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیے، معروف ادیبہ و نقاد زہرہ نگاہ نے کہا کہ تقسیم ہندوستان کے بعد کراچی برصغیر میں اردو کی ترقی و ترویج کا سب سے بڑا مرکزاور اس میں پیرالہیٰ بخش کالونی اور ناظم آباد ادیبوں اور عالموں کا مرکز تھا، لیکن کچھ لوگوں نے جن کا تعلق ادب سے نہیں تھا اس شہر کو ایسا چہرہ دیا جو دہشت گردی کا چہرہ تھا، بیسیوں تہذیب یافتہ شہر اجڑے اور کراچی آباد ہوا، اس زمانے میں ادب پر بہت زیادہ کام ہوتا تھا،مشاعروں میں ہزاروں افراد شامل ہوتے تھے، لوگ اس زمانے کو یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ بات نہیں رہی، وہ بات کیسے رہے گی زمانہ بدل گیا، قدریں ہی بدل گئیں، اس بات پر خوشی ہوتی ہے کہ نوجوان پرانی باتوں کو سننا چاہتے ہیں، پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ سن 50 سے اب تک بہت شخصیات سے قربت رہی لیکن اس وقت پروفیسر کرار حسین کی یاد آتی ہے اس طرح کا وائس چانسلر کوئی نہیں دیکھا،عزیز حامد مدنی بھی بڑے آدمی تھے، شکیل عادل زادہ نے کہا کہ 129 مانک جی اسٹریٹ پر رئیس امروی کا گھر تھا جو علم و ادب کا مرکز بن چکا تھا، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں زبردست ادبی اور علمی فضاءقائم ہوئی، ادبی، علمی اور نظریاتی اختلافات تو ہوتے تھے لیکن دشمنی نہیں تھی، اس وقت دنیا اردو جون ازم کے حصار میں ہے، پیر حسام الدین راشدی، جون اہلیا، سلیم الزماں صدیقی اور کئی لوگ درسگاہ کا درجہ رکھتے ہیں ، انور شعور نے کہا کہ کراچی صرف اردو والوں کا شہر ہی نہیں پورے ملک کے لوگ شامل ہیں، جنہوں نے کراچی میں خدمات انجام دیں وہ سب کراچی کے محسن ہیں،جون ایلیا اپنے عہد کے بڑے آدمی اور سب سے زیادہ مقبول شاعر تھے۔