میزبان: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی
تصاویر : محمد اسرائیل انصاری
" ٹیکس آمدن میں اضافہ کیسے؟"
زبیر طفیل
(سابق صدر، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری، FPCCI)
عبدالقادر میمن
(سرپرست/سابق صدر، پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن)
ڈاکٹرظفر ناصر
قائم مقام وائس چانسلر، انڈس یونی ورسٹی کراچی
ڈاکٹر حمیرا جبیں
(چیئرپرسن، ڈیپارٹمنٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن، انڈس یونی ورسٹی)
انڈس یونی ورسٹی میں "ٹیکس آمدن میں اضافہ کیسے؟" کے موضوع پر منعقدہ جنگ فورم کی رپورٹ
ٹیکس دو ہی طبقے دیتے ہیں پہلا تن خواہ دار، کیوں کہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ان کا ادارہ پہلے ہی ٹیکس کاٹ لیتا ہے اور دوسرا انڈسٹری، ان کا بھی نظام ایسا ہے کہ وہ آسانی سے چوری نہیں کرسکتے، زراعت کی بات کریں تو زمین دار کو ٹیکس دینے میں کوئی دلچسپی نہیں حالانکہ ان کی آمدنی بہت بڑھ چکی ہے،ایف بی آر کا نظام بڑا پیچیدہ ہے، اس ادارے کے افسران ادارے کے لیے ٹیکس وصول کرنے کی بات کم اپنی ذات کےلیے زیادہ کرتے ہیں
زبیر طفیل
اگر پاکستان میں سیاسی استحکام رہے گا تو معیشت مستحکم ہوگی اور ترقی کے سارے مسائل خودبخود بہتر ہوں گے،ٹیکس کا بڑھنا اسی سے جڑا ہے، پوری دنیا میں قانون ہے کہ جہاں آمدنی ہوگی وہاں ٹیکس ہوگا،پاکستان ٹیکس ریٹ زیادہ رکھنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔
زراعت پر ٹیکس آئینی طور پر صوبائی معاملہ ہے، فیڈریشن کو چاہیے کہ وہ زرعی ٹیکس لینے کے لیے صوبوں کومضبوط کرے، آٹومیشن ٹیکس کلیکشن بڑھانے کے لیے سب سے بہترین طریقہ ہے، ایک این آئی سی نمبرڈالنے پر سارا ریکارڈ سامنے آجائے گا۔
عبدالقادر میمن
اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت کے پاس کوئی مشینری ہے،کوئی پرنٹنگ پریس ہے جس سے روزانہ پیسے پرنٹ ہوتے ہیں اور پھر لوگوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے، ٹیکسیشن ایک نظام ہے جو ساری دنیا میں ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں ٹیکس دینے کا رواج نہیں ہے۔
ڈاکٹر ظفر ناصر
عوام حکومت پراعتماد نہیں کرتے، وہ سوچتے ہیں کہ جوہم دے رہے ہیں اس رقم کا استعمال کیاواقعی ٹھیک طرح سے ہوگا، دوسری اہم بات عوام کو کسی بھی فورم سے ٹھیک سے اس کے متعلق سمجھایا نہیں جاتا،میں خود اس نظام کا حصہ ہوں مجھے ٹیکس کے حوالے سے کوئی کورس نظر نہیں آتا۔
ڈاکٹر حمیرا جبیں
آج ہمارا موضوع پاکستان کے مالی وسائل کیسے بڑھ سکتے ہیں اور ٹیکس نیٹ کیسے بڑھ سکتا ہے۔پاکستان کا شمار ان چندملکوں میں ہوتا ہے جس کا ٹیکس ٹو جی ٹی پی ریشو 10فیصد سے کم ہے اس کے مقابلے میں انڈیا میں 17 فیصد سے زائد ،جاپان 33 فیصد، کوریا 29 فیصد،جارجیا کا ساڑھے 22 فیصد،چین 21فیصد، برطانیہ 20فیصد، بنگلہ دیش 13فیصد اورامریکا کا اٹھارہ فیصد ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی و خوش حالی کے لیے اس کا ٹیکس ریونیواچھا ہونا بہت ضروری ہے۔
تاکہ وہ یہ آمدنی اپنی عوام پر خرچ کرسکے۔لیکن جب پیسے ہی نہیں جمع ہوں گے تو خرچ کیسے کریں گے۔حالانکہ ہم نے متعدد بارٹیکس نیٹ 15فیصد تک لے جانے کی منصوبہ بندی کی لیکن ہم گیارہ سے بارہ فیصد پر پہنچ کر واپس پرانی پوزیشن پر چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ٹیکس حصول کے بڑے شعبوں میں زراعت کا 25فیصد حصہ ہے،لیکن ٹیکس کلکیشن میں ایک فیصد بھی نہیں ملتا، ٹرانسپورٹ سیکٹربہت بڑا کاروبار ہے لیکن وہاں سے بھی کوئی ٹیکس نہیں ملتا۔ٹریڈرزبھی ہیں لوگ بڑے شاپنگ مال میں خریداری کرنے جاتے ہیں، ہول سیلرز، ریٹیلرزکا بھی 20فیصد سے زائد کا حصہ ہے لیکن یہ بھی صرف ایک فیصد ٹیکس دیتے ہیں۔
سب سے زیادہ ٹیکس صنعتوں سے حاصل ہوتا ہے جس کا حصہ 20فیصد ہےلیکن 28فیصد ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ ہمارا ٹیکس نیٹ کیسے بڑھ سکتا ہے اورکن وجوہات کے سبب ہم ٹیکس وصولی میں ناکام ہیں، ہم یہ سمجھنے کی بھی کوشش کریں گے کہ اب تک ہمارا نظام بڑے سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں کیوں ناکام ہے۔
ہمارے ساتھ گفتگو کے لیے موجود ہیں زبیر طفیل جوسابق صدر، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری ہیں دوسرے مہمان عبدالقادرمیمن جو سرپرست اور سابق صدرپاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن رہ چکے ہیں، ڈاکٹر ظفر ناصرانڈس یونی ورسٹی کے ایکٹنگ وائس چانسلرہیں اور ڈاکٹر حمیرا جبیں جو چیئرپرسن ہیں ڈیپارٹمنٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن انڈس یونی ورسٹی بھی شریک گفتگو ہیں۔
گفتگو کا آغاز ڈاکٹر ظفر ناصر سے کریں گے۔
جنگ: ہماری ٹیکس وصولی کم ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟
ڈاکٹر ظفر ناصر: ٹیکس حکومت کی آمدنی بڑھانے کا نظام ہے،ہم سب ٹیکس دیتے ہیں،ٹیکس سے مراد جو کماتے ہیں اس میں سے کچھ حصہ حکومت کو دیاجاتا ہے، اس جمع آمدنی کو حکومتیں نظم و نسق، ترقیات اور دیگر ریاستی ضرورتوں پرخرچ کرتی ہیں۔ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کے پاس کوئی مشینری ہے، کوئی پرنٹنگ پریس ہے جس سے روزانہ پیسے پرنٹ ہوتے ہیں اور پھر لوگوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ٹیکسیشن ایک نظام ہے جو ساری دنیا میں ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں ٹیکس دینے کا رواج نہیں ہے۔حکومت زیادہ ٹیکس صنعت سے وصول کرتی ہے یا نجی اور سرکاری ملازمین سے جن سے براہ راست کٹوتی ہوجاتی ہے۔
بڑے شاپنگ مال سے بھی کچھ پیسے وصول ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود ٹیکس میں حکومتی خسارہ ختم ہوکے نہیں دیتا اور شاید ترقی کی رفتاربہت سست ہونے میں ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اس خطے کے دوسرے ممالک سری لنکا، انڈیا، بنگلہ دیش ہم سے بہتر ہیں۔لہذاہمیں کسی نہ کسی طرح اپنے ٹیکس کےنظام کو ٹھیک کرناہوگا۔ہم زرعی ملک ہیں اور زراعت پر ٹیکس نہیں ظاہر ہے اس کی وجہ کسی کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے۔ حکومتیں اس میں بہتری کےلیے کوشش کرتی ہیں لیکن تاحال صورت حال جوں کی توں ہے۔
جنگ: وہ کون سی رکاوٹیں ہیں جن کے باعث لوگ ٹیکس نہیں دینا چاہتے؟
حمیرا جبیں: میں سمجھتی ہوں اس کی بنیادی وجہ اعتماد کافقدان ہے۔عوام حکومت پراعتماد نہیں کرتے،وہ سوچتے ہیں کہ جوہم دے رہے ہیں اس رقم کااستعمال کیاواقعی ٹھیک طرح سے ہوگا۔ دوسری اہم بات عوام کو کسی بھی فورم سے ٹھیک سے اس کے متعلق سمجھایا نہیں جاتا،میں خود اس نظام کا حصہ ہوں مجھے ٹیکس کے حوالے سے کوئی کورس نظر نہیں آتا میں نے خود بھی باقاعدہ ٹیکس نہیں پڑھا ہے۔
اگر یہ ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہم حیثیت کا حامل ہے تو اسے تعلیم کاحصہ بھی بنانا ہوگا۔ جب ہم جیسے اس کے متعلق نہیں جانتے توملک کی وہ عوام جو تعلیم سے بھی دور ہیں ،وہ ٹیکس کے متعلق کتنا جانتے ہوں گے۔ ٹیکس کیا ہے اسے کیوں وصول کیا جاتا ہے اسے کیسے استعمال کیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ، حکومتوں کی طرف سے ٹیکس آگاہی کے لیےتعلیم و شعور دینے کی ضرورت ہے۔
ٹیکس آمدنی بڑھانے کےلیے ہماری معیشت کے وہ فیکٹرز بھی ہیں جوشاید کسی کو ابھی نظر نہیں آرہے،ای اکنامی ہمارا ایک ابھرتا سلسلہ ہے اس کی مدد سے لوگ فری لانسنگ مارکیٹ میں جارہے ہیں،اس سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہم میں سے کئی سے زیادہ اچھا کمارہے ہیں۔ لیکن وہ ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں،تو ابھی ایسی کئی مارکیٹ موجود ہیں جسے ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے اس سے صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔
جنگ: کیا لوگ ٹیکس نظام کی پیچیدگی سے گھبراتے ہیں؟
حمیرا جبیں: جی ایسا بھی ہے،میرے واقف کار ٹرانسپورٹر ہیں میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ ٹیکس کیوں نہیں دیتے،ان کا کہناتھا کہ میں ٹیکس کے لیے خودان کے دفتر گیا تھا لیکن وہاں اتنا مشکل طریقہ ہے کہ میں تھک گیا، میرا پورا دن ضائع ہوا تھا، وہاں کوئی بھی ٹھیک سےرہنمائی کرنے والا نہیں تھا۔
اس کے بعد میں نے اپنے وکیل کو بتایا تو اس کا بھی یہ کہنا تھا کہ آپ اپنا وقت کیوں ضائع کرنے گئے، بس آپ مجھے اتنے پیسے دیں اور یہ ہوجائے گا۔ یہ وہ اصل حقائق ہیں جو ہمیں کسی اور ذریعے سے معلوم ہوتی ہیں، ہمارے اپنے ایکسپرٹ لوگوں کو ٹیکس سسٹم سے بچنے کا مشورے دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ حالات ہیں جوہم ٹیکس کلچر پیدا نہیں کرپا رہے۔
جنگ: اس وقت پاکستان کو پیسوں کی بہت ضرورت ہے،کئی برسوں سے ہمارا بجٹ خسارہ بلند سطح پر ہے،مافیاز ہیں جو ہمارے قابو میں نہیں آرہے، ہم ٹیکس کلچر پیدا کرنے میں ناکام ہیں،ابھی آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان آئی ہوئی ہے وہ ایف بی آر کو ٹیکس وصولی کے طریقوں سے آگاہ کرے گی۔
عبدالقادر میمن: دو ہزار چالیس میں جب ہم جارہے ہوں گے تو ہماری آبادی کا بڑا حصہ 67فیصد نوجوان ہوں گے،ٹیکس کی وصولی ایک موضوع ہے اور اس کے اخراجات اس کا دوسرا حصہ ہے۔دنیا میں ٹیکس کی مد میں آمدنی دو وجہ سے بڑھی ہیں، اول وجہ جب معیشت ترقی کررہی ہوتی ہے اوردوئم وجہ سیاسی استحکام۔ کیوں کہ مقامی سرمایہ کاری توجاری رہتی ہے، لیکن غیر ملکی سرمایہ کارجوکسی بھی معیشت کے انجن ہوتے ہیں وہ اس بات کوبنیادی اہمیت دیتے ہیں۔
اگرچین کی مثال لیں تو ان کے پاس تین عوامل ہیں، پہلا ان کی اپنی بچت جو بہت زیادہ ہے،دوسرا ان کے پاس غیرملکی سرمایہ کاری جو بہت زیادہ ہے، تیسری ان کی تعلیم میں سرمایہ کاری بہت زیادہ ہے۔ اگر پاکستان میں سیاسی حکومت ہوگی سیاسی استحکام بھی رہے گا معاشی پالیسی مستحکم ہوگی تو گروتھ کے سارے مسائل خودبخود بہتر ہوں گے، ٹیکس کا بڑھنا اس سے جڑا ہے، اگر مالی گروتھ ہورہی ہے اور کوئی شخص ٹیکس نہ دے یہ ناممکن ہے۔ میں پاکستان کو مواقعوں کی سرزمین کہتا ہوں۔
پوری دنیا میں قانون ہے کہ جہاں آمدنی ہوگی وہاں ٹیکس ہے۔کسی شعبے اور جگہ کی مدد کےلیے کچھ عرصے ترغیبات دی دیاجاتی ہیں، لیکن ایسا کہیں بھی نہیں ہے کہ کسی سیکٹر سے ٹیکس ہی نہیں لیا جائے گا۔ پاکستان کی اکنامی کا اسٹرکچر کچھ اس طرح سے ہے ہماری 20فیصد کے قریب زرعی انکم ہے جس میں ٹیکس کا حصہ ایک فیصد ہے، ٹرانسپورٹ کا 17فیصد ہے لیکن ٹیکس وصولی زیادہ سے 2سے تین فیصد ہے، ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر 17سے اٹھارہ فیصد ہے لیکن ٹیکس میں حصہ تین سے چارفیصد ہے۔
لہذا آخر میں سارا بوجھ صنعت پرآتا ہے ۔دنیا میں جہاں بھی ٹیکس زیادہ وصول ہورہا ہے وہ ان کی انکم کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے ٹیکس دیا تو ٹیکس کا جی ڈی پی ریشو بھی بڑھتا ہے۔ دنیا میں فیڈریشن اور صوبوں کے ٹیکس ملاکر ٹیکس ٹوجی ڈی پی بنتا ہے وفاق تو ٹیکس وصول کرلے گا لیکن جب صوبے نہیں کرپاتے توٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشونیچے چلاجاتا ہے ہماری انکم بڑھتی چلی جاتی ہے لیکن دوسرے سیکٹر ٹیکس نہیں دیتے۔ہماری پہلی ترجیح یہ ہو کہ جو سیکٹر ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں انہیں سہولتوں کے ساتھ اس میں شامل کیا جائے۔
ایڈم اسمتھ نے اپنی کتاب دی ویلتھ میں لکھا ہے اتنا ٹیکس وصول کیا جائےجتنا اس کے دینے کی صلاحیت ہو۔ ٹیکس اس طرح وصول کیا جائے جو آسان زبان میں ہو،ٹیکس ایسے وصول کیا جائے جس سے لوگوں کو کوئی تکلیف نہ ہو اور حکومت بھی اتنا ہی ٹیکس وصول کرے جتنی اس کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں بڑے مواقع ہیں ٹیکس آمدنی بھی بڑھ جائے گی۔ہم نے ایکسپورٹ کا ایک پلیٹ فارم بنایا ہے، ہمیں معلوم ہوا کہ ہماری معدنیات کروم 70ڈالر میں چین خریدتا ہے اور 173ڈالر میں آگے فروخت کرتا ہے۔ ہمارے حکمراں اگر ان سب چیزوں پر سنجیدگی دکھائیں توبہت کچھ ہوسکتا ہے۔
جنگ: یہاں امیرطبقہ ٹیکس کم اور غریب ترین زیادہ دیتا ہے تنخواہ دار طبقہ اسی میں آتا ہے،ہمارے یہاں ان ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح 70فیصد اور ڈائریکٹ 30 فیصد ہے ڈائریکٹ ٹیکس لینے میں کیا دشواریاں ہیں۔
عبدالقادرمیمن: یہ بڑی بدقسمتی ہے امپورٹ پر ان ڈائریکٹ ٹیکس لیا جاتا ہے،کوئی بھی امپورٹر جو چیز منگواتا ہے تو وہ پہلے ہی سارے اخراجات اس شے پر ڈال دیتا ہے اور قیمت لوگوں سے وصول کرتا ہے۔ یہ اس وقت ہوگاجب ہرآدمی ٹیکس دے گا، دوسرا یہ معاشی تھیوری ہے امیر کا حصہ زیادہ ہے غریب کا کم،اگر معاشرے میں دولت کی تقسیم مساوی ہو۔ہم نے ان ڈائریکٹ ٹیکس کا ایسا ماڈل بنایا رکھا ہے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہےکہ ہمارے ریونیو افسران روایتی انداز میں کام چلارہے ہیں جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جب ٹیکس کا ریٹ کم کریں گے تو آمدنی کم ہوجائے گی جب کہ ایسانہیں ہے۔دنیا میں کوئی بھی بڑے سے بڑا شخص سرمایہ کاری ایسے ملک میں کرتا ہے جیسے امریکا، چین، ہانگ کانگ وغیرہ یہاں ریٹ آف ٹیکس کم ہے۔
پاکستان ٹیکس ریٹ زیادہ رکھنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ جرمنی میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا تھا تو اس وقت معاشی پالیسی بنائی گئی انہوں نے ریٹ آف ٹیکس کم کردیا جس سے معیشت میں ترقی ہوئی اورٹیکس آنا شروع ہوا، تاجر حضرات کے رہنماوں سے گزارش ہے کہ وہ پالیسی سازوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کریں۔
ہمارے ایک دوست نے وزیر خزانہ سے کہا تھا کہ آپ ریٹ آف ٹیکس کم کردیں جو فرق آئے گا اس کا مجھ سے پیشگی چیک لےلیں لیکن کچھ نہیں ہوسکا، ہمیں روایتی متھ کو ختم کرنا ہوگا۔ حکومت کو بہتری کےلیے چھوٹے چھوٹے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کاروبار میں لگے پیسے پانی کی طرح ہوتے ہیں، سرمایہ کاری پانی کے بہاو کی طرح ہوتی ہے،سرمایہ کار کو جہاں سہولت ملے گی جہاں ریٹ آف ٹیکس کم ہوں گے وہ وہیں جائے گا۔
جنگ: ٹیکس صنعت کاردے رہا ہے یا تنخواہ دار گھوم پھر کرانہی پربوجھ ڈالا جاتا ہے کوئی نئی راہ تلاش نہیں کی جاتی پھر ہم ٹیکس نیٹ کیسے بڑھائیں۔
زبیر طفیل: ٹیکس دو ہی طبقے دیتے ہیں ایک تنخواہ دار کیوں کہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ان کا ادارہ پہلے ہی کاٹ لیتا ہے اور دوسرا انڈسٹری ان کا نظام ایسا ہے کہ وہ آسانی سے چوری نہیں کرسکتے، مثلا آٹو موبائل انڈسٹری کو لیں وہ جتنی کار بنائیں گے وہ سسٹم میں رجسٹرڈ ہیں تو وہ ٹیکس دینے پر مجبور ہیں۔ زراعت کی بات کریں تو زمیندار کو ٹیکس دینے میں کوئی دلچسپی نہیں حالانکہ ان کی آمدنی بہت بڑھ چکی ہے وہ بڑی بڑی گاڑیاں رکھتے ہیں۔
ایف بی آر کا نظام بھی بڑا پیچیدہ ہے۔مجھے یہ کہتے ہوئے بہت افسوس ہورہاہے کہ اس ادارے کے افسران ادارے کےلیے ٹیکس وصول کرنے کی کم بات کرتے ہیں، اپنی زات کے لیے زیادہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں جو ٹیکس دینا ہیں وہ دیں لیکن مجھے کیا دیں گے۔95 فیصد افسران ایسے ہی ہیں۔ وہ مشورے دیتے ہیں کہ میں آپ کو ٹیکس میں چھوٹ دے دوں گا اگر مجھے پیسے دے دیں، ٹیکس کی کمی کے ذمے داروں میں ایف بی آر افسران بھی شامل ہیں، بیرون ملک میں کھپت پر ٹیکس لگایا جاتا ہے، ہمارے نظام میں پوری طرح ٹیکس نہیں لیا جاتا۔
مثال کے طور پر اگر آٹوموبائل پر ٹیکس لینا ہے تو جو گاڑی خریدار ہے تو چیک کیا جائے کہ وہ ٹیکس میں رجسٹرڈ ہےکہ نہیں اگر نہیں تو اس سےزیادہ ٹیکس لیا جائے اسی طرح کی دیگر استعمال کی اشیا جس پر لوگ ٹیکس نہیں دیتے وہیں پر صارف سے ٹیکس لے لیا جائے یا جو لوگ پاکستان سے بیرون ملک سفر کرتے ہیں انہیں آسانی سے چیک کیا جاسکتا ہے، ہمارے یہاں سے زیادہ تر مزدور بیرون ملک جارہے ہوتے ہیں لہذا ائیرپورٹ پر موجود افسران انہیں تنگ کرنا شروع کردیں گے۔اس لیے مزدور کو جانے دیں باقی دیگرکو چیک کریں۔
جنگ: جو لوگ زیادہ بیرون ملک سفر کرتے ہیں انہیں چیک کیا جاسکتا ہے؟
زبیرطفیل: بعض اوقات ایسی خبریں ملتی ہیں کہ ائیرپورٹ سے کسی کو پکڑا گیا ہے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سال میں تیس چالیس مرتبہ دبئی جاچکے ہیں،یہ لوگ منی کیئریر ہوتے ہیں،یہ لوگ بیگ میں ڈالر بھرتے ہیں اور کسی کسٹم آفیسر کے ساتھ معاملات طےکرلیتے ہیں کہ ان کا بیگ چیک نہیں کیا جائےگا، پانچ ہزار سے زیادہ ڈالر آپ ملک سے باہر نہیں لے جاسکتے۔
لیکن اس کے باوجود لاکھوں ڈالر ملک سے باہر جارہے ہوتے ہیں، لے جانے والے پاکستانی ہوتے ہیں جو ہمارے ٹیکس سسٹم میں بھی نہیں ہوتے لیکن وہ باہر ڈالر منتقل کررہے ہوتے ہیں، آج سے تین چارسال پہلے تک ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی 12فیصد تک گیا تھا پھر دوبارہ دس پر آگیا ہے۔پاکستان 25 کروڑ آبادی والا ملک ہے اور ہماری ٹوٹل ایکسپورٹ تیس ارب کے قریب ہوگی اور تیس ارب روپے ڈالر بیرون ملک مقیم پاکستان بھیجتے ہیں تو اس طرح وہ 60ارب ڈالر ہوجاتے ہیں۔
جنگ: ترقی یافتہ جن ممالک میں ٹیکس آمدنی زیادہ ہے وہاں ٹیکس چوری بہت بڑا جرم ہے امریکا میں پھانسی کی سزا صرف ٹیکس چوری پر ہے باقی کسی جرم میں موت کی سزا نہیں ہے تو پاکستان میں ٹیکس چوری روکنے کےلیے ایسے قوانین ہیں۔
زبیرطفیل: پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتایہاں جوبھی کرلیں بس پیسے دیں اورنکل جائیں،شمالی یورپ میں اسکینڈے نیویاز ممالک میں ٹیکس وصولی 50فیصد سے زائد ہے لوگ آسانی سے ٹیکس دیتے ہیں جس کے بعد حکومت ان کے بچوں کوتعلیم ،میڈیکل اور دیگر سہولیات مفت فراہم کرتی ہے۔اتنا ٹیکس دینے کے باوجود وہاں کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ مجھ سے اتنا ٹیکس لے کر زیادتی کی جارہی ہے کیوں کہ ہرآدمی ٹیکس دے رہا ہے۔
پاکستان میں الٹا ہے کوئی شخص بغیر ٹیکس دے کر اچھی زندگی گزاررہا ہے اور کوئی ٹیکس دینے کے باوجود مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔لہذا ہمیں اس نظام میں بہتری لانی پڑے گی۔عوام میں آگہی کے لیے نصاب میں ٹیکس کے حوالے سے پڑھانے کی ضرورت ہے جس میں بتایا جائے کہ جب آپ کمائیں تو پھر اس کے مطابق ٹیکس دینا آپ کی لازمی ذمہ داری ہے۔
پاکستان میں آدھی سے زیادہ ٹیکس آمدنی ٹیکسٹائل سے آتی ہے اس کے بعد آئی ٹی کی صنعت ہے اس صعنت میں تین بلین ڈالر کی ریمی ٹینس آرہی ہے،آئی ٹی میں اور بھی تیزی سے ترقی آسکتی ہے کیوں کہ ہمارے پڑوسی ملک انڈیا کی آمدنی 170بلین ڈالر کے قریب ہے۔توہماری آئی ٹی کی آمدنی بڑھنے سے ٹیکس میں اضافہ ممکن ہے۔
جنگ: لوگوں کا حکومت پر اعتماد بھی نہیں ہے لوگ کہتے ہیں اگر ہم ٹیکس دیں تو ہمیں اس کے بدلے حکومت سےکیا ملے گا۔
زبیرطفیل: بداعتمادی بھی صحیح ہے،کیوں کہ ان پیسوں کا استعمال بھی درست جگہ نہیں ہوتا۔
جنگ: جو سیکٹر اب تک ہمارے ٹیکس نیٹ میں نہیں آئے اسے کیسے لایاجائے دنیا نے اس کےلیے ایسے کون سے اقدامات کئے ہیں۔
عبدالقادر میمن: زراعت پر ٹیکس آئینی طور پر صوبائی معاملہ ہے،لہذا پہلے تو فیڈریشن کو چاہیے کہ وہ زرعی ٹیکس لینےکےلیے صوبوں کومضبوط کرے،ہم ہول سیل اور ری ٹیل کے شعبے پراعتماد نہیں کرتے۔ اعتماد سے مراد آج ہی ان شعبوں سے کہہ دیں آپ نے جو ٹیکس دینا ہے وہ دیں، بس آپ ایک سرٹیفیکٹ لگائیں اور کوارٹرلی ایک ریٹرن جمع کرادیں آپ سے کوئی نہیں پوچھے گا اس میں کیا غلط بھرا اور کتنا درست ذکر کیا ہے اس طرح وہ ٹیکس نیٹ میں آجائیں گے۔
تازہ اعداد وشمار کے مطابق 51لاکھ ٹیکس دینے والے ہوگئے ہیں جو پچھلے سال45لاکھ تھے۔1992 میں عالمی بینک نے سب سے بڑی گرانٹ دی تھی اس کا 80 فیصد حصہ آٹو میشن ٹیکس ریفارمز کےلیے تھا، لیکن وہ سارا سرمایہ کہیں اور چلاگیا، آٹومیشن ٹیکس کلیکشن بڑھانے کےلیے سب سے بہترین طریقہ ہے۔
اگریہ ہوجائے تو جھوٹ بولنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ ایک این آئی سی نمبرڈالنے پر سارا ریکارڈ سامنے آجائےگا۔ روک تھام کے لیے میں ایک مثال دیتا ہوں۔ لاس ویگاس میں دنیا کے بڑے کیسینو ہیں اور اس کے باہر ایک بھی پولیس والا نظر نہیں آئے گا لیکن ان کا نظام ایسا ہے کہ وہاں کوئی ہار کر چلاگیا یا کوئی غنڈہ گردی کی تو پولیس اگلے لمحے موقع واردت پر پہنچ جاتی ہے، اور سزا ملتی ہے۔ تو روک تھام کا طریقہ یہ ہی ہے کہ کسی خوف یا دباؤ کے بغیر جس کے خلاف کارروائی کرنی ہے وہ میں کرسکوں۔
اقصیٰ: ٹیکس وصولی کا سارا بوجھ کاروباری طبقے پر ہے جس سے کاروباری اخراجات میں اضافہ ہورہا ہے پھر اس پر ود ہولڈنگ ٹیکس، ہمارے ٹیکس وصول کرنے والے ادارے اس پر کیوں نہیں سوچ رہے؟
عبدالقادر میمن: ودہولڈنگ ٹیکس ہے کیا اگر آپ ماضی میں جائیں گے تو یہ ایسی جگہوں سے وصول کیا جاتا تھاجہاں سے ٹیکس نہیں لے سکتے تھے جیسے شراب، جنگلوں سے لکڑی تو جب آپ دوسو سال پہلے کے قانون دیکھیں گے تو معلوم ہوگا ودہولڈنگ ٹیکس کیا ہے۔ لیکن اب بدقسمتی سے کوئی امپورٹ کرتا ہے تو وہ ٹیکس اس پر لگتا ہے تو یہ ٹیکس بھی اس شےپر شامل ہوجاتا ہے تواس میں کمی کی ضرورت ہے۔
ود ہولڈنگ ٹیکس لینا بہت آسان ہے اس کےلیے حکام کو کچھ نہیں کرناپڑتاوہ خود بخود آتا ہے۔اس وقت دنیا کے37ملکوں میں ودہولڈنگ ٹیکس کا جونظام ہمارے پاس ہے وہ وہاں بھی ہے۔ آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
زبیرطفیل: آپ نےکہا ٹیکس کلیکشن کاروباری حضرات کو منتقل کردیا ہے، زیادہ تر کمپنیاں ایمانداری سے ود ہولڈنگ ٹیکس کاٹتی ہیں اور حکومت کے پاس جمع کرادیتی ہیں،بزنس مین ودہولڈنگ جمع بھی کرتا ہے جمع بھی کرادیتا ہے پھر ٹیکس ڈیپارٹمنٹ سے ایک اور آدمی آکرکہتا ہے جو آپ نے ٹیکس کاٹا ہے میں اس کا آڈٹ کرنے آیا ہوں۔
وہ پھر کام کے بجائے اپنی دکان کھولتا ہے اور کہتا ہے کہ میں کوئی نہ کوئی چیزنکال دوں گا لہذا مجھے اتنے پیسے دو۔بزنس میں ودہولڈنگ ٹیکس جمع نہیں کرنا چاہتا لیکن حکومت نے قانون بنادیا ہے تو یہ کرنا پڑتا ہے۔
ناجیہ: ہمارے یہاں سیاسی کے ساتھ فوجی حکومتیں بھی رہیں ہیں اور وہ بہت طاقت ور بھی ہوتی ہیں ان کے لوگ ہرجگہ موجود بھی ہوتے ہیں تو ٹیکس وصولی کی جن خرابیوں کا ہمیں پچھلے ستر سالوں سے سامنا ہے وہ اپنی طاقت یہاں کیوں استعمال نہیں کرسکے اور سسٹم ٹھیک کیوں نہیں کرسکے؟
زبیرطفیل: ہمیں 70سالوں میں جتنا کرنا چاہیے تھا اس طرح نہیں ہوارفتار سست رہی ہے۔ اور بہتری بھی آئی ہے۔ اگر ہم سب ایمان داری سےٹیکس دےرہے ہوتے تو ان پیسوں سے ہماری اپنی عوام ہی مستفید ہوتی۔
اشرف: ہماری تاجر برادری ٹیکس پر فیوڈلز کے سامنے کیوں ڈھیر ہوجاتے ہیں۔
عبدالقادر میمن: کبھی بھی ڈھیر نہیں ہوتے ہمیشہ بات کی جاتی ہے۔ابھی ایک قانون بن گیا ہے کہ اگر آپ ٹیکس پئیر نہیں ہیں لیکن موبائل استعمال کررہے ہیں تو آپ یوٹیلٹی کنکشن ختم کرنے کا قانون بنایا ہے۔ لیکن جب ایسا ہوگا تو لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے تو مضبوط حکومت کو اس کے باوجود ایکشن لینا پڑے گا۔
ثنا سلیم: ہمیں بتایا گیا کہ ٹیکس کلیکشن آسان زبان میں ہونا چاہیے وہ آسان زبان کیا ہے۔
عبدالقادرمیمن: دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے جوبھی فارم بھرے جاتے ہیں،فارم بھرنے سے پہلے اس پر وقت لکھا ہوتا ہے،آسان سے مراد بھی یہ ہی ہے کہ میں وہ فارم بھرسکوں اور مجھے یہ معلوم ہو کہ اس کےلیے اتناوقت لگے گا۔
انزلناعلینا: جو سیکٹر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں اور حکومت باوجود کوشش کے انہیں نہیں لاپارہی تو ایسی حکومت کیا فائدہ اور جو دے رہے ہیں وہ کیوں دیں۔
عبدالقادر میمن: جن لوگوں کے مفادات ہیں وہ یہ نہیں کرنےدیتے ۔
زبیرطفیل: میرا اپنا مشاہدہ ہے انڈیا میں غریب لوگ بھی ٹیکس دیتے ہیں۔
عبید رضوان: میں مستقبل میں بزنس کرنا چاہتا ہوں لیکن جب ٹیکس کے متعلق سنتا ہوں تو پریشان ہوجاتا ہوں، آپ کے خیال میں دوستانہ انداز میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کےلیے حکومت کیا کرے؟
عبدالقادر میمن: نئے قانون کے مطابق جو لوگ کاروبار کا آغاز کرنا چاہتے ہیں، ان کے کےلیے حکومت کی طرف سے ٹرن اوور ایک فیصد ٹیکس کا قانون ہے جو دنیا میں سب سے کم شرح ہے۔ تو آپ بے خوفی سے اپنے کام کا آغاز کریں۔
سلمان وسیم: کس طرح کی ٹیکس ریفارمز ہوں جس سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو اور ہمیں بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
عبدالقادر میمن: ہمارے یہاں ٹیکس ریجن کے مطابق ہے اتنا زیادہ نہیں ہے کسی ملک میں 25فیصد ہوگا لیکن ٹیکس ہرجگہ ہے۔ ہمار اٹیکس کا نظام آسان نہیں ہے پریشان زیادہ کیا جاتا ہے۔
جنگ: اگر کوئی مشین منگواتا ہے تو وہ امپورٹ پر ہی ٹیکس لےلیتے ہیں، کیا ایسا نظام ممکن نہیں کہ پہلے اس مشین سے کچھ کمالوں اس کے بعد وصول کرلیں۔
زبیرطفیل: پورٹ پر ود ہولڈنگ ٹیکس نہیں لینا چاہیے اس طرح کے بہت کم ملک ہیں۔ ہمارے یہاں پہلے ہی اندازہ لگالیتے ہیں کہ آپ اس سے اتنا کمائیں گے جو سراسر ناجائز ہے۔
محمد فراز: پاکستان کے ٹیکس سسٹم میں کرنٹ چیلنجز کیا ہیں ؟
عبدالقادرمیمن: حکومت کو نوجوانوں کو نئے مواقعوں کےلیےحوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
جنید: آئی ٹی سیکٹر خصوصا فری لانسنگ سے نوجوان اچھی آمدنی حاصل کررہے ہیں تو کیا وجہ ہے حکومت اسے ٹیکس نیٹ میں نہیں لارہی؟
ڈاکٹر حمیرا جبیں: میرا خیال ہے شاید حکومت اب تک اس سیکٹر کو پوری طرح سمجھ نہیں سکی وہ ابھی اس شعبے کو سمجھنے کی کوشش کررہی ہے۔
ڈاکٹرعبدالقادر میمن: اس میں دو طرح کے کام ہورہے ہیں ایک آن لائن بزنس جو کوویڈ کے بعد تیزی سے ترقی کرگیا ہے، آن لائن بزنس کو دنیا بھرمیں دیکھا جارہاہے کے اسے ٹیکس نیٹ میں کیسے لایا جائے۔
جنگ:ہمارے یہاں نقد اکانومی زیادہ ہے ہم پیسے جیب میں لیے پھرتے ہیں پھر جیب کٹتی بھی ہے اور ڈاکو لوٹتے بھی ہیں دنیا میں اب لوگ کارڈ استعمال کررہے ہیں جس سے ہر چیز چیک ہوجاتی ہےلوگ خود بہ خود ایک نظام میں آجائیں گے ہمارے یہاں ایسا کیوں ممکن نہیں ہورہا،: کارڈز کی مدد سے ہرشخص ٹیکس نیٹ میں آسکتا ہے۔
زبیر طفیل: امریکا میں نقد لین دین انتہائی محدود ہوگیا ہے۔ امریکی ائیرپورٹ پر مجھ سے کیش میں وصولی سے انکار کردیا گیا تھا۔
عبدالقادر میمن: ہمارے یہاں بھی کیش اکانومی میں بتدریج کمی آرہی ہے۔