• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد مجیب

ایک عقاب بادلوں کو چیرتا ہوا کوہ قاف کی چوٹیوں پر پہنچا اور ان کا چکر لگا کر ایک صدیوں پرانے دیودار کے درخت پر جا بیٹھا۔ وہاں سے جو منظر دکھائی دے رہا تھا، اس کی خوبصورتی میں وہ محو ہوگیا۔ اسے ایسا معلوم ہورہا تھا کہ دنیا ایک سرے سے دوسرے سرے تک تصویر کی طرح سامنے کھلی رکھی ہے۔ کہیں پر دریا میدانوں میں چکر لگاتے ہوئے بہہ رہے ہیں۔ 

کہیں پر جھیلیں اور اُن کے آس پاس درختوں کے کنج پھولوں سے لدے ہوئے بہار کی پوشاک میں رونق افروز ہیں۔ کہیں پر سمندر خفگی سے اپنے ماتھے پر بل ڈالے کوے کی طرح کالا ہو رہا ہے۔

عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا ’’ اے اللہ میں تیرا کہاں تک شکر ادا کروں۔ تو نے مجھے اڑنے کی ایسی طاقت دی ہے کہ دنیا میں کوئی بلندی نہیں ہے، جہاں میں پہنچ نہ سکوں، میں فطرت کے منظروں کا لطف ایسی جگہ بیٹھ کر اٹھا سکتا ہوں جہاں کسی اور کی پہنچ نہیں۔‘‘

ایک مکڑی درخت کی ایک شاخ سے بول اٹھی۔ ’’تم کیوں اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہو؟ کیا میں تم سے کچھ نیچی ہوں؟‘‘

عقاب نے مڑ کر دیکھا۔ واقعی ایک مکڑی نے اس کے چاروں طرف شاخوں پر اپنا جالاتان رکھا تھا اور اسے ایسا گھنا بنا رہی تھی کہ گویا سورج تک کو عقاب کی نظر سے چھپا دے گی۔

عقاب نے حیرت سے پوچھا ’’تم اس سربلندی پر کیسے پہنچی؟ جبکہ پرندے بھی جنہیں تجھ سے زیادہ اڑنے کی طاقت ہے، یہاں تک پہنچنے کا حوصلہ نہیں کرتے؟ تم توکمزور ہو، کیا تم رینگ کر یہاں آئی ہو؟‘‘

مکڑی نے جواب دیا۔ ’’نہیں ایسا تو نہیں ہے۔‘‘

’’تو پھر یہاں کیسے آئیں؟‘‘

’’جب تمُ اُڑنے لگے تھے تو میں تمھاری دم سے لٹک گئی اوتم نے خود مجھے یہاں پہنچا دیا۔ لیکن میں یہاں اب تمھاری مدد کے بغیر ٹھہر سکتی ہوں، اور اس لئے میری گزارش ہے کہ تم اپنے آپ کو بے کار بڑا نہ سمجھو ۔۔۔‘‘

اتنے میں ایک طرف سے ہوا کا جھونکا آیا اور اس نے مکڑی کو اڑا کر زمین پر گرا دیا۔ میرا خیال ہے اور آپ کو بھی مجھ سے اتفاق ہوگا کہ دنیا میں ہزاروں لوگ ہیں جو اس مکڑی سے بہت مشابہ ہیں۔ ایسے لوگ بغیر کسی قابلیت اور محنت کے کسی بڑے آدمی کی دم میں لٹک کر بلندی پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر ایسا سینہ پھیلاتے ہیں کہ گویا خدا نے ان کو عقابوں کی سی طاقت بخشی ہے، مگر ضرورت صرف اس کی ہے کہ کوئی زرا پھونک دے اور وہ پھر زمین پر پہنچ جاتے ہیں۔