کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان علینہ فاروق کے سوال مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کا حکم برقرار، پاکستان کا جواب کیا ہونا چاہئے؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ بھارت انسانی حقوق اور جمہوریت کے معاملات پر اپنی ساکھ کھوچکا ہے، مقبوضہ کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ نہیں ہے، مقبوضہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے،پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام پر زیادہ ردعمل نہ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔اعزاز سید نے کہا کہ کشمیر پر جس طرح ہندوستان کشمیریوں کو اعتماد میں نہیں لے رہا ہم بھی کشمیریوں کو جگہ نہیں دے رہے، بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب پاکستان کی ان کے ساتھ بیک ڈور بات چیت چل رہی تھی، پاکستان کو علم تھا کہ بھارت اس طرح کا کوئی کام کرنے جارہا ہے لیکن ہم نے بیان دینے کے سوا کچھ نہیں کیا، چیئرمین پی ٹی آئی کے دور میں کشمیر پر معاملات کافی آگے بڑھ گئے تھے، اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی متحدہ عرب امارات اور قطر میں ہندوستان کے ساتھ اس قدر گہرے رابطے تھے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کا دورہ کرنے پر تیار ہوگئے تھے جس کے بعد باقاعدہ مذاکرات شروع ہوجاتے، لیکن وزیراعظم عمران خان نے اپنی مقبولیت کم ہونے کے ڈر سے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھنے دیا، پاک انڈیا امن پراسس میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ کی پوری اجازت شامل تھی، میری معلومات کے مطابق پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام پر زیادہ ردعمل نہ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی، جنرل مشرف اور جنرل باجوہ کے ادوار میں کشمیر پر پراسس بہت آگے بڑھا تھا، نواز شریف تسلسل کے ساتھ پاک بھارت امن عمل کی کوشش کرتے رہے۔ ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کروانے کیلئے بھارت کے ساتھ عسکری یا سفارتی جنگ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے،تمام بڑے اسلامی ملک نریندر مودی کے بزنس پارٹنر ہیں اور بڑے سویلین ایوارڈز انہیں دے چکے ہیں۔