• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انابیہ

سردیوں کے دن تھے۔ جن جانوروں نے سردی کی آمد سے پہلے ہی خوراک ذخیرہ کرلی تھی، وہ مزے سے گھر میں بیٹھ کر کھاپی رہے تھے، جنہوں نے کوئی انتظام نہیں کیا تھا، وہ سردی سے کانپتے ہوئے خوراک کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ لومڑی نے سردیوں کی آمد سے پہلے روٹی کے ٹکڑے جمع کرلیے تھے جو سردیوں کے دنوں میں اس وقت کام آتے جب کھانے کی کوئی چیز نہیں ملتی۔ ایک دن صبح سویرے لومڑی نےخوراک کی تلاش میں جنگل کا ایک چکر لگایا لیکن کھانے کو کچھ نہ ملا۔

وہ ناکام واپس لوٹی تو لومڑ بڑی بے چینی سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔ ”کچھ ملایا خالی ہاتھ لوٹ آئی ہو؟“ اس نے بڑی بے صبری سے سوال کیا۔ لومڑی نے اپنے نکھٹو شوہر و غصے سے دیکھ کر کہا۔ ”اس شدید سردی میں بھلا کیا مل سکتا ہے؟“

”تو کیا آج بھی روٹی کے ٹکڑے کھانے پڑیں گے لومڑ نے جھنجھلا کر کہا ۔” خود بھی خوراک تلاش کر لیا کرو۔“ یہ کہتے ہوئے لومڑی نے روٹی کے باسی ٹکڑے نکالے اور لومڑ کے آگے رکھ کر بولی۔”جب تک خوراک کا بندوبست نہیں ہو جاتا ان ہی پر گزارا کرو۔“میرا تو دل چاہ رہا ہے کہ آج گوشت کھاؤں، مجھے امید ہے کہ میری خواہش ضرور پوری ہوگی۔“ لومڑ نے کہا۔

بھوکے لومڑ نے کچھ دیر تک اپنے سامنے رکھے روٹی کے ٹکڑوں کی طرف دیکھا تک نہیں لیکن جب بھوک نے ستایا تو منہ بناتے ہوئے ایک ٹکڑا اٹھا کر چبانے لگا۔ابھی وہ ٹکڑا چباہی رہا تھا کہ آسمان پر پھڑپھڑاہٹ کی آواز سنائی دی، پھر چار بطخیں نیچے زمین پر اتر آئیں۔ انہوں نے لومڑ اور لومڑی کو روٹی کے ٹکڑے کھاتے دیکھا تو ان کے قریب آگئیں کہ شاید وہ روٹی کے کچھ ٹکڑے انہیں بھی کھانے کو دے دیں۔ 

لومڑ نے روٹی کا ایک بڑا ٹکڑا بطخوں کی طرف پھینک دیا۔ چاروں بطخیں روٹی کے ٹکڑے پر لپکیں۔ ان میں سے جو صحت مند بطخ تھی، اس نے روٹی کا ٹکڑا جھپٹ لیا۔ لومڑ نے دوسرا ٹکڑا پھینکا تو وہ بھی اسی بطخ نے کھا لیا، یہ دیکھ کر لومڑی ،لومڑ پر چلائی۔”پاگل تو نہیں ہو گئے جو روٹی کے ٹکڑے اس طرح ضائع کر رہے ہو۔‘‘لومڑ نےسنی ان سنی کرتے ہوئے تیسرا ٹکڑا بھی بطخوں کی طرف پھینک دیا۔

تگڑی بطخ یہ ٹکڑا بھی کھا گئی۔ اس نے اتنا کھا لیا کہ چلنا بھی مشکل ہوگیا۔موٹی بطخ ٹکڑوں کے لالچ میں لومڑ کے قریب آچکی تھی۔ لومڑ بھی جان بوجھ کر ٹکڑے اپنے قریب گرا رہا تھا۔ جیسے ہی وہ تھوڑا سا قریب آئی، اس نے اچھل کر بطخ کو پکڑ لیا۔ اس نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس سے بھاگا نہ گیا، یہ دیکھ کر دوسری بطخیں فوراً اڑ گئیں۔

لومڑ مزے سے لالچی بطخ کو منہ میں دبائے لومڑی کے پاس لے گیا۔ اس نے بطخ کے پر نوچے اور گوشت لومڑی کو پیش کرتے ہوئے کہا۔ ”میں نکھٹو اور کام چور سہی لیکن اتنا احمق بھی نہیں، اب تمہاری سمجھ میں آگیا ہو گا کہ میں سارے ٹکڑے اس لالچی بطخ کو کیوں کھلا رہا تھا۔ آؤ ،اس سرد موسم میں بطخ کے گرم گرم گوشت کا مزا اڑائیں۔“ لومڑی جو کچھ دیر پہلے لومڑ پر بے حد خفا تھی، اب اسے لومڑ دنیا کا عقلمند جانور دکھائی دے رہا تھا۔ دونوں نے مل کر لالچی بطخ کے مزیدار گوشت کی دعوت اڑائی۔