• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ دور میں کسی بھی ملک کی طاقت ٹیکنالوجی کے ساتھ اس ملک کے جوان افرادی قوت پرانحصار کرتی ہے لیکن پاکستان ترقی کو فروغ دینے کے لئے جدت کو اپنانے میں پیچھے رہ گیا ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، جس کی ترقی کی رفتار اس کے نوجوانوں کی درست سمت میں رہنمائی اور پیشرفت سے ہی مشروط ہے۔ نوجوان، جو مُلک کی تعمیر و ترقّی میں ایندھن کی سی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن اگر مشین ہی زنگ آلود یامشین چلانے والاہی اناڑی ہو تو ایندھن بھی بھلا کس کام کا تو یہی کچھ حال وطنِ عزیز کی نسلِ نو کا بھی ہے۔ یہاں سال تو بدلتے جا رہے ہیں، لیکن نوجوانوں کے حالات کسی طور نہیں بدل رہے۔

ہر نئے برس کی آمد پر بھلائی وبہتری کی کچھ اُمیدیں وابستہ کی جاتی ہیں، لیکن سال کے اختتام پر اعداد و شمار کچھ اور ہی کہانی سُنا رہے ہوتے ہیں۔ آج کے نوجوان جو ملک میں حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں ان ہی میں سے بیشمار نوجوانوں نے دوسرے ممالک میں نہ صرف اپنی صلاحیتیں دکھائیں بلکہ نام پیدا کیا لیکن افسوس وطن عزیز میں انہیں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے مواقع میسر نہیں ملے۔ اسلام کے نام پر بننے والے وطن عزیز پاکستان میں ہم ایسا نظام قائم نہیں کر سکے، جس میں ہر پاکستانی محفوظ ہو، جہاں سب کو انصاف میسر ہو جہاں حکمران عوام کے خادم ہوں ،جہاں نوجوانوں کو باعزت روزگار ملے۔

ماضی پر نگاہ ڈالیں تو ایسے کئی واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں کہ بڑوں نے ارادہ کیا تو نوجوانوں نے ارادے کو عملی جامہ پہنایا۔ بڑے منزل کی طرف بڑھے تو نوجوانوں نے منزل پر پہنچ کر دم لیا۔ بڑوں نے اشارہ کیا تو نوجوانوں نے اشارے کو منزل کا نشان سمجھ لیا۔آج کی نوجوان نسل کیااپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے نشان منزل تک نہیں پہنچ سکتی؟ نیپولین نے کہا تھا کہ،’’ کوئی قوم اتنی دیر تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کے نوجوان ارادوں کے مضبوط نہ ہوں اور شعوری طور پر بیدار نہ ہوں۔‘‘

پاکستان کواللہ نے ہر نعمت سے نوازا ہے ،جس میں بہترین موسم سرسبز پہاڑ اور معدنیات کی دولت شامل ہے، مگر ہمارے حکمران اور ارباب اختیار رب کائنات کی طرف سے عطا کئے گئے ان خزانوں مستفید ہونے کی بجائے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف دیکھتے ہیں۔ پوری دنیا میں معیار زندگی بہتر ہو رہا ہے، مگر افسوس کہ ہمارے ملک کی سیاسی و معاشی فضا ناقابل برداشت حد تک ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان غیر تعلیم یافتہ نوجوانوں سے زیادہ مایوسی کا شکار نظر آ تے ہیں۔

معاشرے میں افراتفری، ہیجان اور ابہام رہے گا تو یہ نوجوان مایوسی سے نہیں نکل پائیں گے۔ ملازمت کے حوالے سے شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اہل نوجوانوں کی جگہ نااہل نوجوان اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر براجمان ہیں۔ ایسے میں اہل نوجوان سوچتے ہیں کہ ایسے ملک میں کیوں رہیں ، جہاں انہیں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا، وہ ایسے ملک کا انتخاب کرتے ہیں، جہاں بہتر مواقع میسر ہوں۔ 

بہتر مواقع مضبوط معیشت کے بغیر ممکن نہیں اور مضبوط معیشت مستحکم سیاسی حالات کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمارے نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیت صرف اسی وقت ابھر کر سامنے آ سکتی ہیں جب اعلیٰ و معیاری تعلیمی نظام پر سرمایہ کاری کی جائے اور ایسا نظام قائم کیا جائے، جس سے تعلیمی عوامل کو سماجی واقتصادی ترقی سے منسلک کیا جاسکے۔

یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اگرزراعت اور صنعت کے شعبوں پر توجہ مرکوز نہ کی گئی تو پاکستان میں روزگار کا مسئلہ مزید سنگین سے سنگین صورتحال اختیار کر جائے گا۔ ابھی یہ حال ہے کہ ، ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم تک درآمد کرنا پڑ جاتی ہے،اگر زراعت کو جدید سائنسی خطوط پر استوارکر دیاجائے گا تو نہ صرف معیشت مستحکم ہو گی بلکہ براہ راست نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی کھلیں گے کیوں کہ مضبوط معاشی نمو کےلئے تکنیکی موافقت لازمی ہے۔ 

ترقی یافتہ دنیا کی کامیابی اسی لئے ہے کہ اس نے ٹیکنالوجی میں مستقل طور پر سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستانی نوجوان زرخیز تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مزید اجاگر کر کے سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن جیسے شعبوں میں ایک انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ 

بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ افرادی قوت کے درست اور بروقت استعمال کے ساتھ پاکستان تیز ترین معاشی و سماجی ترقی کی مزید نئی جہتوں پر گام زن ہوسکتا ہے۔ لیکن صرف سوچ پر انفرادی طور پر کام ممکن نہیں۔ ان کے لیے ایسے ماحول کو پروان چڑھانا ہوگا، جہاں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

عدم تحفظ کے احساس سے نکل کر ملک کی تعمیر و ترقی کی نئی بلندیوں سے ہم کنار کرائیں اور اپنی توانائیاں اپنے ملک پر نچھاور کریں۔ یاد رکھیں دنیا میں اڑنے والے پرندوں کے دو ہی پر ہوتے ہیں لیکن ہر پرندہ آسمان کی بلندیوں پر نہیں اڑ پاتا۔ کیونکہ بلند فضائوں میں پرواز کرنےکے لئے مضبوط پروں کی نہیں بلند حوصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس وقت سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ نوجوان بیدار مغزی کا ثبوت دیں، اپنے خوابیدہ دل کو بیدار کریں،مرد مومن اور مرد آہن کی صفات پیدا کریں، اندھیرےکا شکوہ کرنے کے بجائے اپنے حصّےکا چراغ جلا کر روشنی کی شروعات کریں۔