کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان علینہ فاروق کے سوال عمران خان کی مذاکرات کی خواہش کا اظہار، سیاسی حل یا مقصد کچھ اور؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ عمران خان سمجھتے ہیں اقتدار کا راستہ راولپنڈی کے ذریعہ آتا ہے، سیاستدان جب تک ساتھ بیٹھ کر گیم کے رولز طے نہیں کریں گے تب تک انہیں اسٹیبلشمنٹ کے رولز کے مطابق کھیلنا پڑے گا، اسٹیبلشمنٹ کے رولز یہی ہیں کہ ایک سیاستدان اقتدار میں تو دوسرا جیل میں ہوتا ہے۔بینظیر شاہ نے کہا کہ عمران خان سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھنے کیلئے ابھی بھی تیار نہیں ہیں، عمران خان کا اکانومسٹ میں آرٹیکل پڑھیں تو لگتا ہے ان کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، عمران خان مذاکرات میں سنجیدہ ہیں تو انہیں سیاسی جماعتوں کو پیشکش کرنی ہوگی، عمران خان کو آن دا ریکارڈ کہنا ہوگا کہ میں آصف زرداری اور نواز شریف کے ساتھ بات کرنا چاہتا ہوں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں کچھ سیاستدان سمجھتے ہیں کہ عمران خان سے بات کرنی چاہئے، سیاستدان جب تک ساتھ بیٹھ کر گیم کے رولز طے نہیں کریں گے تب تک انہیں اسٹیبلشمنٹ کے رولز کے مطابق کھیلنا پڑے گا، اسٹیبلشمنٹ کے رولز یہی ہیں کہ ایک سیاستدان اقتدار میں تو دوسرا جیل میں ہوتا ہے۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ عمران خان کی بڑی سیاسی غلطیوں میں ایک سیاستدانوں کے ساتھ نہ بیٹھنا ہے، عمران خان جن سیاستدانوں کو چور ڈاکو کہتے رہے ان کے ساتھ نہ صرف ماضی میں بیٹھے بلکہ اتحاد کا بھی حصہ رہے ہیں، 2007ء میں عمران خان، نواز شریف اور قاضی حسین کے ساتھ اتحاد کا حصہ تھے، انتخابات میں 18دن رہ گئے کسی سیاسی جماعت نے سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے اپنا موقف نہیں بتایا۔عمر چیمہ نے کہا کہ عمران خان کا جب دل کرتا ہے مذاکرات کی بات کرتے ہیں جب دل چاہے انکار کردیتے ہیں، عمران خان حسب سابق مذاکرات کے حوالے سے کنفیوژ نظر آرہے ہیں ان کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لینا چاہئے۔اعزاز سید کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنے علاوہ تمام سیاستدانوں کو چور سمجھتے ہیں، عمران خان سمجھتے ہیں اقتدار کا راستہ راولپنڈی کے ذریعہ آتا ہے، عمران خان نے سیاستدانوں کو اتنا مطعون کیا ہے کوئی ان پر اعتماد کیلئے تیار نہیں ہے، سیاستدان جانتے ہیں اسٹیبلشمنٹ اس وقت کسی صورت عمران خان سے ہاتھ ملانے کیلئے تیار نہیں ہے اس لیے وہ بھی ان کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ دوسرے سوال کیا انتخابی منشور میں تاخیر سے متعلق ن لیگ کا موقف درست ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ ن لیگ اپنے منشور سے زیادہ پریشان پنجاب میں ملنے والے انتخابی فیڈ بیک سے ہے، نواز شریف کی باڈی لینگویج ماضی جیسی نظر نہیں آرہی ہے، پنجاب کے علاوہ پاکستان میں نواز شریف کے جلسے ہوتے نظر نہیں آرہے۔ عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے انتخابی میدان میں نہ ہونے سے ن لیگ بے فکر ہوگئی ہے، ن لیگ کو لگتا ہے اب انہیں انتخابی مہم چلانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، ن لیگ کی 27جنوری کو منشور لانے کی بات مضحکہ خیز ہے۔ ، ن لیگ سنجیدہ ہوتی تو منشور پہلے ہی بن جانا چاہئے تھا۔ اعزاز سید نے کہا کہ سیاسی قیادت پارٹی منشور کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھتی ہیں اس لیے عملدرآمد بھی نہیں کرتیں، سیاسی جماعتیں چونکہ عوام کے ووٹوں کے بجائے ایک یقین دہانی پر آگے بڑھتی ہیں کہ ہماری ڈیل ہوگئی ہے تو پھر منشور کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔