اسلام آباد (فاروق اقدس/خصوصی جائزہ رپورٹ) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ شہباز شریف آج (ہفتہ) کو راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے ہیں، اس تاریخی جلسہ گاہ میں ان کا یہ پہلا خطاب ہوگا۔
یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف جو چوتھی مرتبہ اس منصب کے حصول کیلئے انتخابی جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے فراہم کردہ ان کے انتخابی جلسوں کے شیڈول میں آج مسلم لیگ کے قائد نے راوالپنڈی کے لیاقت باغ میں خطاب کرنا تھا تاہم بعد میں اس شیڈول میں تبدیلی ہوئی
آج مسلم لیگ (ن) کے ہونے والے انتخابی جلسے کے بعد جس کے مرکزی مقرر شہباز شریف ہوں گے، اتوار کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی یہیں لیاقت باغ میں انتخابی جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔
اگر اس تاریخی جلسہ گاہ لیاقت باغ کی تاریخ کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو راولپنڈی کے تاریخی ’’لیاقت باغ‘‘ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی غیر منقسم ہندوستان میں برطانوی راج کی تاریخ۔ اس باغ میں انگریز فوجی مشقیں کیا کرتے تھے، اسی مناسبت سے اس کا نام ’’ایسٹ انڈیا کمپنی گارڈن‘‘ پڑ گیا۔
ریکارڈ کے مطابق تقسیمِ ہند سے قبل، یہاں جن تاریخ ساز شخصیات نے خطاب کئے، اُن میں مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو، مولانا آزاد اور مولانا ظفر علی خان شامل ہیں، جبکہ پاکستان بننے کے بعد، 16 اکتوبر 1951ء کو مُلک کے پہلے منتخب وزیرِاعظم، نواب زادہ لیاقت علی خان نے اسی باغ میں ایک قاتلانہ حملے کے دوران جامِ شہادت نوش کیا، جس کے بعد اس باغ کو ان کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔
لیاقت علی خان کی شہادت کے حوالے سے بے شمار پُر تجسّس واقعات موجود ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان پر حملہ سیّد اکبر نامی شخص نے کیا (بعد میں جس کے مصدقہ شواہد بھی سامنے آگئے) اور گولی چلانے کے بعد وہاں مشتعل ہجوم نے اسے بھی ہلاک کردیا۔ نواب زادہ لیاقت علی خان کی شہادت کی خبر مُلک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ خواجہ ناظم الدّین (جنہوں نے لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان کے دوسرے وزیرِاعظم کی ذمّہ داریاں نبھائیں) اُس وقت نتھیا گلی میں آرام فرما رہے تھے، جبکہ غلام محمّد، پنڈی ہی میں موجود تھے، لیکن دونوں شخصیات نے نواب زادہ لیاقت علی خان کے جلسے میں شرکت نہیں کی
البتہ ان کی شہادت کی خبر سُنتے ہی مشاورتی عمل میں شریک ہوگئے اور مشتاق گورمانی، جو وزیر داخلہ بھی رہے، اُن کی گاڑی جلسہ گاہ میں اُس وقت داخل ہوئی، جب لیاقت علی خان کا جسدِ خاکی جلسہ گاہ سے باہر لایا جارہا تھا۔ پھر ان کی شہادت کی تصدیق کے بعد مشتاق گورمانی ان کے جسد ِخاکی کے ساتھ اسپتال تک گئے۔ جو حلقے پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم کے قتل کو ایک منظّم سازش قرار دیتے اور اس وقت کی تین اہم شخصیات کے گرد اس سازش کا تانا بانا بُنتے ہیں، (جو اُس وقت راولپنڈی میں موجود بھی نہیں تھیں) اُن میں اُس وقت کے سیکرٹری دفاع،اسکندر مرزا، اُس وقت کے فوجی سربراہ، جنرل ایوب خان اور سیکرٹری خارجہ، اکرام اللہ شامل ہیں۔
اسکندر مرزا کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اس وقت کراچی میں ٹینس کھیلنے میں مصروف تھے، جنرل ایوب خان لندن کے ایک اسپتال میں تھے اور اکرام اللہ ایک خاص مشن پر ہالینڈ میں موجود پاکستان سے آنے والی کسی کال کے منتظر تھے۔
نواب زادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پھر کمپنی باغ سے لیاقت باغ کا ایک نیا حوالہ بنا ۔خواجہ ناظم الدّین، چوہدری محمّد علی سمیت تحریکِ پاکستان کی کئی شخصیات نے، جن میں قومی اسمبلی کے اسپیکر، فضل اللہ چوہدری بھی شامل تھے، لیاقت باغ میں خطاب کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین، ذوالفقار علی بھٹّو غالبا ًوہ واحد شخصیت ہیں، جنہوں نے چار مرتبہ یہاں عوامی جلسوں سے خطاب کیا۔
انہوں نے یہاں سے پہلا جلسہ پارٹی کے بانی چیئرمین کی حیثیت سے11جنوری 1970ءمیں کیا،جب کہ بہ طور صدرِ پاکستان اور وزیرِاعظم پاکستان بھی جلسوں سے خطاب کیا۔ بیگم نصرت بھٹّو نے شوہر کو پھانسی دیئے جانے کے بعد پارٹی کی چیئرپرسن ہونےکی حیثیت سے یہاں خطاب کیا۔اُس وقت جنرل ضیاء الحق مُلک میں عام انتخابات کا اعلان کر چُکے تھے، لیکن بیگم نصرت بھٹّو کے خطاب کو جس انداز میں پذیرائی حاصل ہوئی اور جتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے پورے جوش وخروش سے جلسے میں حصّہ لیا ۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے اپنے رفقا کے مشورے سے انتخابات کی تاریخ ملتوی کر نے کا اعلان اس جلسے کی وجہ ہی سے کیا تھا۔
محترمہ بے نظیربھٹّو نے 80 کی دَہائی میں جلا وطنی کے خاتمے کے بعد پہلا اور 27 دسمبر 2007ء کواپناآخری خطاب بھی لیاقت باغ ہی میں کیا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ لیاقت علی خان اور محترمہ بے نظیر بھٹّو کی شہادت میں یہ مماثلت پائی جاتی ہے کہ دونوں شخصیات کے قتل اور قاتلوں کا آج تک کچھ پتا چلا اور نہ ہی اصل اسباب کا۔ بس پُراسراریت کے دبیز پردوں میں چُھپی کہانیاں ہی ہیں۔ لیاقت باغ میں شہید ہونے والی یہ دونوں شخصیات سندھ میں مدفون ہیں۔
راول پنڈی کے شیخ رشید احمد وہ واحد شخص ہیں، جنہوںنے عیدین کی نمازوں سے لے کراپوزیشن کے رہنما کی صُورت میں حکومتی حیثیت میں بھی لیاقت باغ میں درجنوں خطاب کیے۔
لیاقت باغ کسی زمانے میں بہت وسیع وعریض ہوا کرتا تھا اور یہاں اُسی شخصیت کے جلسۂ عام کو کام یاب تصوّر کیا جاتا تھا، جس کا جلسہ اس کے وسط سے لے کر تمام اطراف میں شرکا سے بھرا ہوا ہو۔ اس تعداد کو ایک لاکھ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سابق وزیرِاعظم، محمّد خان جونیجو (مرحوم) اپنی خواہش کے باوجود یہاں جلسہ نہ کرسکے۔
البتہ، ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے تحریک ِاستقلال کے سربراہ کی حیثیت سے اوراسلامی جمہوری اتحاد اور پاکستان قومی اتحاد کے رہنماؤں ،جن میں پیر پگارااورمولانا شاہ احمد نورانی شامل تھے، یہاں مختلف جلسوں سے خطابات کیے۔ جب کہ راول پنڈی کے اِسی لیاقت باغ میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ، خان عبدالولی خان خطاب کے لیے تشریف لاتے ہوئےمعجزانہ طور پر ایک سانحے سے محفوظ رہے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹّو کا دَور ِحکومت تھا، فیڈرل سیکیورٹی فورس (FSF) کو بھٹّو صاحب کی ہدایت پر تشکیل دیا گیا تھا۔ اپنے اقدامات کی وجہ سے یہ فورس بدنامی کی حد تک اپنی ساکھ خراب کر چکی تھی۔
3 مارچ 1973ءکو خان عبدالولی خان نے لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کا فیصلہ کیا ،تو صوبۂ سرحد سےلے کر کراچی تک کے پختون اس جلسے میں شرکت کے لیے لیاقت باغ پہنچے ۔
ولی خان ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے لیاقت روڈ پر لیاقت باغ سے محض چند منٹوں کی مسافت پر تھے ،تو لیاقت باغ میں فائرنگ شروع ہوگئی ، جس کے بعد اپنے قائد کی تقریر سننے کے منتظر ہزاروں کارکنوں میں بھگدڑ مچ گئی۔
خان ولی خان کو ان کے رفقا نے جلسہ گاہ کے قریب روک لیا، لیکن وہ بضد تھے کہ کارکنوں کے پاس ضرور پہنچیں گے اور پھربمشکل تمام ان کی گاڑی کا رُخ موڑا گیا۔ وہ وہ لیاقت باغ میں خطاب تو نہ کرسکے ، لیکن وہاں رنج والم کی ایک اور تاریخ چھوڑ گئے۔
مبیّنہ طور پر بھٹّو صاحب کی ’’جاں نثار فورس‘‘ ایف ایس ایف کی گولیوں سے 50کے لگ بھگ اے این پی کےکارکن ہلاک ہوئے،اس فورس کے سربراہ، مسعود محمود تھے۔
تاہم، بات صرف یہیں ختم نہیں ہوئی، بلکہ جو کارکن صوبۂ سرحد کے مختلف علاقوں سے بسوں میں آئے تھے ،جب وہ فائرنگ کے بعد جان بچانے کیلئے اپنی اپنی بسوں میں بیٹھ کر افراتفری میں بھاگنے لگے ،تو ان کی بسوں پر مٹی کا تیل پھینک کر آگ لگا دی گئی، نتیجتاً کئی کارکن بسوں میں خاکستر ہوگئے۔ سیاسی جلسوں سے ہٹ کر بھی لیاقت باغ مختلف سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ ایک زمانے میں یہاں میلے ٹھیلے بھی لگتے تھے۔
پنجاب کے ان روایتی میلوں میں ماضی کے معروف گلوکار، عالم لوہار، عنایت حُسین بھٹّی سمیت اُس وقت کی کئی مقبول گلوکارائیںبھی گائیکی کا مظاہرہ کرتی تھیں ۔
یہ میلے ہر سال لگائے جاتے ، جو پوٹھوہار کی سرزمین، راول پنڈی کی ایک ثقافتی تاریخ کا حصّہ بن گئے تھے۔ بعد میں یہاں ایک جدید ہال تعمیر کیا گیا ،جسے نواب زادہ لیاقت علی خان کی یاد میں ’’لیاقت میموریل ہال‘‘ کا نام دیا گیا۔
راول پنڈی کے اس واحد اور جدید مطلوب سہولتوں سے آراستہ ہال میں بے شمار یادگاری تقاریب منعقد ہوئیں، جن میں بہت سی پاکستان کی تاریخ کا حصّہ ہیں۔
پھر یہ اسٹیج ڈراموں کا مرکز بن گیا۔ لاہور اور کراچی کے کم وبیش تمام ہی بڑے فن کاروںنے، جن میں فلم، ریڈیو، ٹی وی اور سٹیج کے ناموَر فن کار شامل ہیں، یہاں ڈرامے کیے۔ مُلک کے کئی معروف گلوکار، یہاں منعقدہ مختلف تقریبات اور کمرشل شوز میں اپنی آواز کا جادو جگاچُکے ہیں۔
لیاقت باغ کی سیاسی تاریخ میں بھٹّو خاندان کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ اس تاریخ ساز مقام پر اس خاندان کے افراد نے، جن میں ذوالفقار علی بھٹّو، نصرت بھٹّو، محترمہ بے نظیر بھٹّو شامل ہیں ،انتہائی کام یاب اور بھرپور جلسے کرکے تاریخ رقم کی۔ اور اب 27 دسمبر 2019ء کو بھٹّو خاندان کی تیسری نسل کے چشم وچراغ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ،بلاول بھٹّو طے شدہ شیڈول کے مطابق یہاں جلسۂ عام کرنے آرہے ہیں، جو لیاقت باغ میں ان کا دوسرا جلسہ عام ہوگا۔
پہلا جلسہ محترمہ بے نظیر بھٹّو کی 11 ویں برسی کے موقعے پر منعقد کیا گیا تھا۔ گیارہ سال قبل پاکستان ہی کی نہیں، بلکہ عالم ِاسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کو27دسمبر 2007ءکو جب محترمہ بے نظیر بھٹّو لیاقت باغ میں جلسۂ عام سے خطاب کے بعد اپنی گاڑی میں اسلام آباد کے لیے روانہ ہو رہی تھیں شہید کردیا گیا تھا۔
محترمہ بے نظیر کی ’’مبیّنہ اور متنازع وصیّت‘‘ کے مطابق، ان کے بعد پارٹی کی قیادت ان کے صاحب زادے ،بلاول بھٹّو کے سپرد کر دی گئی،جو اس وقت محض 19برس کے تھے۔
اپنی والدہ کی 11ویں برسی کے موقعے پر راول پنڈی کے لیاقت باغ میں جلسۂ عام کا فیصلہ بلاول بھٹو ہی کا تھا۔ یقیناً اس جگہ سے ان کی جذباتی وابستگی بھی ہے، جہاں ان کے نانا نے بھی تقریریں کیں ،جنہیں لیاقت باغ سے محض تین کلومیٹر کی مسافت پر واقع اُس وقت کی سینٹرل جیل میں تختۂ دار پر لٹکایا گیا اور ان کی ماں کو جلسۂ عام میں، ہزاروں لوگوں کے ہجوم میں شہید کر دیا گیا۔
تو اب سوال یہ ہے کہ کیا بلاول بھٹّو عوامی جوش وخروش اور پارٹی کارکنوں کی اتنی ہی تعداد کو لیاقت باغ میں لاکر پنجاب میں پارٹی کو دوبارہ سرگرم اور فعال کرنے میں کام یاب ہوسکیں گے…؟؟