• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزرے دنوں میں پان دان کیا تھا۔ پورا گھر ہوا کرتا تھا۔ تڑے مڑے نوٹ، اٹھنیاں، چونّیاں، کٹے پٹے کاغذ، دوا کی گولیاں، ہرن چھاپ تمباکو، کٹی ادھ، کٹی جھالیہ، کبھی بہت گیلا تو کبھی بہت سوکھا کتھا چونا۔ جسے کھرچتے ہوئے ساس صاحبہ اپنی بہوؤں کو ہلکی آواز میں خوب ہی سناتیں اور اس کے ساتھ پاندان کی پوری تاریخ دہرانے لگتیں ارے جہیز کا ایسا پاندان تو اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔ 

چھ مرتبہ قلعی کرایا پھر نیا سا نکل آیا۔ اب بھیا مجھ میں طاقت نہیں کہ بازار جا کر قلعی کراتی پھروں۔ خود کلامی کا یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جاتا اور بات کہیں سے کہیں نکل جاتی۔ ارے خوب جانتی ہوں۔ ادھر میری آنکھ بند ہوئی اور یہ گیا اساٹور میں۔ اسلم کی بیوی کو تو خدا واسطے کا بیر ہے میرے پاندان سے اور میرے خاندان سے۔

اب کوئی پوچھے اس سے، تمہاراکیا بگاڑا ہے اس نے؟۔ پاندان کا ذکر ہو اور خریداری کی بات نہ ہو ،جب میری شادی کا جہیز آرہا تھا تو پھپھو رشیدہ نے کہا کہ پاندان تو میں لا کر دوں گی ثریا کو ۔ ۔۔لو بھیا، پھوپھا عنایت نکل پڑے دکانیں چھان ماریں۔ تب کہیں جا کر ملا یہ پورے پانچ سیری کا پاندان۔ 

شادی کے دوسرے دن جب میں چوتھی کر کے سسرال آئی تو ساس بولیں: اے بہو ! جہیز میں سب سے بھاری تم ہو اور اس کے بعد تمھارا یہ پاندان۔ ایک دن کی بیاہی تھی۔ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔ 

وہ تو جب دوسرے روز ساس کا دو سیری کا گندا بسندا پاندان دیکھا تو ساس کی ساری قلعی اتر گئی۔ پان دان اپنے اندر ایک تاریخ رکھتا ہے۔ کبھی شہر سے باہر شادی ہوتی تو ساتھ بھی چلا جاتا جس کو موقع لگتا پورا پان یا پھر تھوڑی چھالیہ لے نکلتا۔

ویسے شادیوں میں شوخ و چنچل مزاج لڑکیاں پان چھالیہ تنگ کرنے کے لیے کھایا کرتی تھیں اور پھر خود ہی آکر شکایت لگاتیں کہ خالہ ۔۔۔ سلمی نے ہمارے سامنے پان کا بڑا پتہ اور ڈھیر ساری چھالیہ کھائیں اور باہر جاکر فورا تھوک دیں۔ گھر میں چھوٹے پوتا پوتی اگر اکیلے میں پاندان کی طرف چلے جاتے تو شور مچ جاتا۔ 

ارے پکڑو، سنبھالو، کہیں تمباکو نہ کھا لے۔ ایسے موقع پر بہوؤں کو ساس کا پاندان زہر لگتا۔ اگر گھر میں پاندان والی کی کوئی ہم عمر رشتے دار یا محلے والی آجاتی تو سمجھیں کہ کوئی نہ کوئی اپنی یا محلے کی بہو زیرِ عتاب آئی ہی آئی۔ 

وہ وہ پینڈورا بکس کھلتے کہ بس اللہ ہی جانے۔ منہ میں پان اور اس پر چھالیہ کی کتر کتر الگ مزہ دیتی۔ گھنٹوں گزر جاتے۔ دوپہر کے کھانے کا وقت آجاتا۔ جہاں مہمان نے جانے کا کہا۔ فورا جواب آتا: ارے ابھی تو آئئ ہو، بیٹھو۔ کھانا کھا کر جانا۔ ادھر بہوؤں کا غصے سے برا حال ہو رہا ہوتا، مگر یہ سب زمانے لَد گئے ہیں۔ 

بس رہ گئ ہیں تو باتیں اور یادیں ۔ دنیا کو گلوبل ولیج بنایا جارہا ہے۔ پرائیویٹ لائف، گھریلو سکون اور بچوں کی تعلیم کے لیے اب خاندان چھوٹے چھوٹے یونٹس میں بٹ رہے ہیں جہاں پاندان تو دور کی بات والدین کے رہنے کی جگہ نہیں بن رہی ہے۔ 

واقعی خاندان تھے تو پاندان تھے۔ مجید لاہوری مرحوم نے کہا تھا: جان ہے تو جہان ہے پیارے زندگی پاندان ہے۔ پیارے اب مجید لاہوری کو کون بتائے یہ پاندان زندگی سے بہت دور چلے گئے ہیں۔