تاریخی ملک، یونان کی سیّاحت کے دوران وہاں کی قدیم و جدید بود و باش، رہن سہن، طور اطوار کا قریب سے جائزہ لینے کے علاوہ اہم، چیدہ چیدہ مقامات سے آشنائی کا بھی موقع ملا۔ اگرچہ کم وقت میں دوستوں نے بہت کچھ دکھادیا، مگر پھر بھی تشنگی کا احساس جاگزیں تھا۔ بہرحال، آگے فرانس کے شہر، پیرس کا سفر درپیش تھا۔ سو، یونان کی حسین و خوش گوار یادیں ذہن میں بسائے اگلی منزل، پیرس کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ وہی شہرِمحبت ہے، جہاں رنگوں کی قوسِ قزح فضا کو ہمہ وقت حسین و رنگین بنائے رکھتی ہے، جس کی گلیوں، شاہ راہوں، دریاؤں، پُلوں، اور قدیم و جدید مقامات، غرض ہر جگہ، ہرہر گوشے سے گویا اظہارِ محبّت و الفت کا باقاعدہ اعلان ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
یورپی ممالک کے مابین سفر کے لیے کئی ائرلائنزمناسب کرائے پر خدمات فراہم کرتی ہیں۔ بعض اوقات تومحض 30یورو ہی میں ایک مُلک سے دوسرے مُلک کے سفر کا پیکیج مل جاتا ہے، لیکن اس کے لیے مقررہ تاریخ سے چند ہفتے قبل ٹکٹ بُک کروانا ضروری ہے۔ جب کہ خاص مواقع پرمختلف ہوائی کمپنیز رعایتی نرخ پر بھی ٹکٹس فراہم کرتی ہیں۔ ہوائی سفر کے علاوہ یورپی مُمالک کی ٹرینیں بھی بہت آرام دہ اور سُبک رفتارہیں، مگر اُن کا کرایہ نسبتاً زیادہ ہے۔ پھر ایک مُلک سے دوسرے مُلک جانے میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے۔
ہمارے اس دورے کے لیے برادرم، آصف علی رامے نے ایتھنزسے پیرس، پیرس سے بارسلونا اور بارسلونا سے روم کے ٹکٹس پہلے ہی سے بُک کرواکر بڑی آسانی کردی تھی۔ یونان سے پیرس تک ساڑھے تین گھنٹے کی اس پرواز میں مسافروں کو خورونوش کے لیے کوئی چیز پیش نہیں کی جاتی، تو ائرہوسٹسز کا آنا جانا قدرے بے معنی محسوس ہوتا بے۔ جہاز کے اُڑان بھرنے کے بعد ائرہوسٹس ہر سیٹ پر ایک مینیوکارڈ رکھ دیتی ہے، جس میں چائے، کافی، پانی اور دیگر لوازمات کے ساتھ ان کے نرخ بھی درج ہوتے ہیں اور یہ نرخ اتنے ہی بلند ہوتے ہیں، جتنی بلندی پر جہاز اُڑتا ہے، لہٰذا دو سو مسافروں میں سے بمشکل دوچار ہی کوئی آرڈر دیتے ہیں۔
ہم جس جہاز میں محوِ پرواز تھے، اُسے پیرس کے مرکزی ائرپورٹ ’’چارلس ڈیگال ائرپورٹ‘‘ پراُترنا تھا، جب کہ ہمارے میزبان دوست، آصف علی کو برطانیہ سے آنا تھا اوراُن کی پروازتقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر بووے Beauvais) ( ائرپورٹ پر اُترنا تھی۔ حُسنِ اتفاق، دونوں پروازوں کا وقت ایک ہی تھا۔ آصف علی کو مضافاتی شہربووے سے بذریعہ بس پیرس پہنچنا تھا، جب کہ ہمیں ائرپورٹ سے محسن احسان بھائی ریسیو کرنےآنے والے تھے۔ پائلٹ نے فرانس کی فضائی حدود میں داخل ہونے کی اطلاع دی، تو دھیان شہر ِمحبّت، پیرس سے جمال و کمال کی پہچان رکھنے والے مُلک فرانس کی طرف نکل گیا، جو فنونِ لطیفہ میں عالمی پہچان بنانے والے عظیم فن کاروں، ادیبوں اور فلسفیوں کا وطن ہے۔
گزشتہ دو ہزار برس سے قائم فرانس کا شہر، پیرس آج دنیا کا اہم کاروباری و ثقافتی مرکز ہے اور عالمی سیاسیات، تعلیم، تفریح، ابلاغ، فیشن، علوم اور فنون پر اس کے گہرے اثرات ہیں، جو اسے بڑے عالمی شہروں میں ممتاز حیثیت کا حامل بناتے ہیں۔ شہر میں کئی بین الاقوامی اداروں کے دفاتر واقع ہیں، جن میں یونیسکو، انجمن اقتصادی تعاون و ترقی (OECD)، بین الاقوامی ایوانِ تجارت (ICC) اور پیرس کلب کے دفاتر شامل ہیں۔
یہ سیّاحت کے لحاظ سے دنیا کے معروف ترین شہروں میں سے ایک ہے اور سالانہ 4کروڑ 50لاکھ افراد یہاں سیر و سیّاحت کی غرض سے آتے ہیں، جن میں سے60فی صد غیرملکی ہوتے ہیں۔ اِس کی شان دار تاریخی عمارات، عالمی سطح پر معروف ادارے اور مشہور باغات دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے سیّاح گویاکھنچے چلے آتے ہیں۔ فرانس کا دارالحکومت ہونے کی وجہ سے ملک کے صدر اور وزیراعظم کی رہائش گاہیں، فرانسیسی پارلیمان کے دونوں ایوان اوراعلیٰ ترین عدالتیں بھی یہیں موجود ہیں۔ دریائے سین کے قریب واقع اس شہرکا موسم معتدل اور نیم مرطوب ساہے۔ گرمیوں کے دن عموماً گرم اور خوش گوار ہوتے ہیں، زیادہ تر دھوپ نکلی رہتی ہے۔
تاہم، موسمِ سرما میں شاذ و نادر ہی دھوپ نکلتی ہے۔ یہ مُلک علمی، ادبی اور تہذیبی قدروں سے بھی مالا مال ہے۔ فرانس صدیوں سے فلسفے، طبیعی علوم اور فنونِ لطیفہ کا عالمی مرکز ہے۔ آرٹ، شاعری، موسیقی، فنِ اداکاری، مصوّری اور رقص کے شعبوں میں عالمی سطح پرپہچان بنانے والوں کی ایک بڑی تعداد اسی سرزمین پر پیدا ہوئی، جیسے پینٹنگ میں کلاڈ مونٹ (Claude Monet)، اور جارجز سیورٹ (Georges Seurat)، فنِ اداکاری میں جین راک فورٹ (Jean Rochefort) اور ایلن ڈیلون (Alain Delon)، برجی باردوت(Brigitte Bardot) اور میتھلڈا مے(Mathilda May)، فن موسیقی اور گلوکاری میں جونی ہالیڈے(Johnny Hallyday) اور ایدتھ پیاف(Édith Piaf)۔
اسی طرح فرانسیسی ڈراما نگاروں، مزاح نگاروں، ناول نگاروں، فلسفیوں، ادیبوں اور مصنّفین کی تو ایک طویل فہرست ہے، جنہوں نے اپنی تحریروں، خیالات ونظریات سے عالمی سطح پر شہرت حاصل کی۔ اُن میں والٹیئر، ژاں ژاک روسو، بالزاک، الیگزنڈر ڈوما، وکٹرہیوگو، گستاف فلابیر، جولس ورن، ایمائل زولا، اناطول، موپاساں، روماں رولاں، آندرے ژید، مارسل پروست، روگرمارٹن ڈو گاڈ، فرانسیوس ماریک، ژاں پال سارتر، سیمون دی بوویئر، ہینری ترویات، البرٹ کاموس، کلائوڈ سائمن، مارگریٹ دورس اور جین میری گستاولی کلیزیو نمایاں ہیں، جب کہ ان میں سے سات ادیب ، فلسفی (روماں رولاں، روگرمارٹن ڈوگاڈ، فرانسیوس ماریک، ژاں پال سارتر، البرٹ کامو، کلائوڈ سائمن اور جین میری کلیزیو) نوبل انعام یافتہ بھی ہیں۔ اورہاں، ناسٹرا ڈیمس کا تعلق بھی(جن کی پانچ صدی قبل کی پیش گوئیوں میں سے متعدد درست ثابت ہوئیں) اسی سرزمین سے ہے۔
ہم پیرس کے ’’چارلس ڈیگال ائرپورٹ‘‘ پر اُترے، تو ایک لمحے کے لیے ششد رہ گئے۔ وسیع و عریض اور بلندو بالا ائرپورٹ سے دنیا جہان کے مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے سیّاح اپنی اپنی منزلوں کی طرف گام زن تھے۔ ائرپورٹ پر لوگوں کا ازدحام دیکھ کر یوں محسوس ہورہا تھا، جیسے پوری دنیا اس ایک چھت کے نیچے سما گئی ہے۔ اس ائرپورٹ کا نام، دوسری جنگِ عظیم کے دَور کے سیاست دان، چارلس ڈیگال کے نام پر رکھا گیا اوراسے مسافروں کے لیے 1974ء میں اسے کھولا گیا۔ مسافروں کی تعداد کے لحاظ سے یہ دنیا کا نواں اوریورپ کا تیسرا مصروف ترین ہوائی اڈا ہے۔ پیرس میں دو ائرپورٹس اوربھی ہیں، لیکن سب سے بڑا اور سب سے مصروف ائرپورٹ یہی ہے، جہاں ہم کھڑے تھے،اور جہاں قدم قدم پر خودکار زینے، لفٹس اور راہ داریاں موجود تھیں۔ الیکٹرانک بورڈزمسافروں کی رہنمائی کے لیے روشن تھے۔
مختلف یونی فارم میں ائرپورٹ انتظامیہ، پولیس اور دیگر شعبوں کے اہل کار پوری طرح مستعد اور متحرک نظر آئے۔ ایک ہی منظر میں اتنا کچھ دیکھ کر ہماری مثال میلے میں آئے اس سادہ لوح دیہاتی کی سی ہوگئی، جو میلے کی رونقوں میں اپنا کھیس (چادر) گنوا بیٹھا تھا، لیکن اس سے پہلے کہ ہمارا کھیس، بلکہ خود ہم اس رنگ و نور میں گُم ہوجاتے، فون کی گھنٹی بج اُٹھی۔ دوسری طرف محسن احسان بھائی تھے، انہوں نے گیٹ نمبر پانچ سے باہر آنے کی ہدایت کی۔ ہم نے بورڈ پر نظر دوڑائی اور ایک برقی زینے کے ذریعے بالائی منزل پرآگئے۔ وہاں سے باہر نکلے، تو دُور سے محسن احسان بھائی آتے دکھائی دیئے۔ قریب آتے ہی بڑے خلوص ومحبت سے گلے لگا کر خوش آمدید کہا۔
محسن بھائی گزشتہ دو دہائیوں سے پیرس میں مقیم اور انٹیریئر ڈیکوریشن کے شعبے سے منسلک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں عزّت، دولت کے ساتھ قابلِ رشک صحت اور بہترین حسِ مزاج سے نواز رکھا ہے۔ ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھاکراپنے رہائشی علاقے ’’بوندی‘‘ لے آئے۔ قریب ہی ایک ترکش ہوٹل کے سامنے گاڑی روکی۔ ہوٹل سے نہایت لذیذ کھانے سے لُطف اندوز ہونے کے بعدباہر نکلے تو رِنگ روڈ کے قریب پوخت مایو(Port Maillot) کے مقام پرآصف علی ہمارے منتظر تھے۔آصف صاحب، ایگزیکیٹو نامی ہوٹل میں ہمارے لیے کمرا پہلے ہی بُک کرواچکے تھے۔ یہ ہوٹل اپنے محل وقوع، دیگر سہولتوں خصوصاً وسیع لان کی بِنا پر رہائش کے لیے بہترین جگہ ہے۔
گویا ہم اسیرِ محبّت، ’’شہرِ محبّت‘‘ میں پہنچ چکے تھے، جسے روشنیوں اور خوشبوئوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ دارالحکومت ہونے کے علاوہ پیرس کو فرانس کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہونے کا اعزازبھی حاصل ہے۔ 105مربع کلومیٹر پر محیط شہر کی آبادی لگ بھگ 22لاکھ 40ہزار ہوچکی ہے۔ پیرس کو’’شہرِ محبّت‘‘ اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی فضا میں محبّت کا ایک خاص رچائو سا محسوس ہوتا ہے۔ قدیم تاریخ سے جدید دَور تک، پیرس، احساسِ محبّت رکھنے والوں اور اپنی چاہت و الفت کا برسرِ عام اعلان کرنے، جشن منانے والوں کا شہر ہے۔ لوگ اس کے عمومی رومانی ماحول کے سبب بھی اسے ’’شہرِ محبّت‘‘ کہتے ہیں۔
محسن احسان بھائی کو کاروباری مصروفیت کی بِنا پر چند گھنٹے کے لیے جانا تھا، لہٰذا ہم نے فوری ایفل ٹاور جانے کا پروگرام بنالیا۔ 1889ء میں تعمیر کیے جانے والے اس عظیم الشّان ٹاور کا نام اس کے موجد’’ الیگزینڈر گستاف ایفل‘‘ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ایفل ٹاور جانے کے لیے ہوٹل کے استقبالیے سے معلومات حاصل کیں اور چند ہی قدم کی مسافت پر گریزیو ریلوے اسٹیشن سے ٹرین پر سوار ہوگئے۔ یہ بیس منٹ کا سفر تھا، جو بہت یادگار رہا۔ ٹرین میں ہر عُمر کے مردو خواتین، چہروں پرمسکراہٹ سجائے، بہت اطمینان اور بے فکری کے ساتھ موبائل فون یا اپنے کسی ساتھی کے ساتھ گپ شپ میں مشغول تھے۔
اسٹیشن آنے سے چند منٹ قبل انائونسمنٹ ہوئی، تو دل کے نہاں خانوں میں ایفل ٹاور دیکھنے کی خواہش جوش مارنے لگی۔ جلدی جلدی زیرِ زمیں اسٹیشن سے باہر نکلے، بائیں جانب دریائے سین بہتا نظر آرہا تھا اور چند قدم کی مسافت کے بعد دائیں طرف ایفل ٹاورپوری شان و شوکت سے اِستادہ دکھائی دیا۔ اس عظیم الشّان، تاریخی اہمیت کے ٹاور کو دیکھتے ہی دل سے شُکر کے کلمات جاری ہوئے کہ مالکِ کائنات نے آج ہمیں اپنی کائنات کا ایک خُوب صُورت مقام دیکھنا نصیب فرمایا۔
ایفل ٹاور اپنی تمام تر خُوب صورتیوں، رعنائیوں کے ساتھ ہمارے سامنے تھا، تو ہم کتنی ہی دیرمبہوت کھڑے اس لوہے کے مینار کو دیکھتے رہے۔ سہ پہر کا وقت تھا، مگر سورج اپنی پوری آب وتاب سے روشن تھا۔ فضا اپنے اندر لاکھوں محبّتوں کے راز سموئے سانسوں میں خوشبوئیں سی بھر رہی تھی۔ یہ پُل اوراس کے نیچے بہتا دریائے سین نہ جانے کتنے عہدو پیماں، اظہارِ محبّت کا امین تھاکہ ہرروز پوری دنیا سے ہزاروں سیّاح اس مقام کا نظارہ کرنے پہنچتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف 2020ء میں 58لاکھ افراد یہاں سیّاحت کی غرض سے آئے۔ ایفل ٹاور کے سامنے آنے جانے والی ٹریفک کو اپنی اپنی حدود میں رکھنے کے لیے دو رویہ سڑک کے درمیان ایک فٹ کی سفید لائن لگائی گئی ہے، لیکن اکثر سیّاح اس لائن پر کھڑے ہوکر ٹریفک سے بچتے بچاتے تصاویر بنا نے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
کیمرے کے فریم میں ٹاور کی مکمل تصویرلینے کے لیے کئی مقامات ہیں۔ ہم نے اسی لائن پر سفید لباس میں ملبوس ایک روسی خاتون کو سیلفی لینے کی تگ و دو کرتے دیکھ کر رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں، تو موصوفہ نے شکریے کے ساتھ اپنا موبائل فون ہمارے حوالے کردیا۔ ہم محترمہ کی تصاویر لے رہے تھے اور آصف صاحب ہماری رضاکارانہ سرگرمیوں کو اپنے موبائل فون کے کیمرے میں محفوظ کر رہے تھے۔تصاویرکھینچنے کے بعد ہم موصوفہ کو موبائل فون واپس کرکے مڑنے لگے، تو انہوں نے قریب آنے کا اشارہ کیا۔
اپنا موبائل فون آصف کو دیا اورپھر ہمارے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تصویر اُتروائی۔ اس کے بعد تو گویاایک لائن سی لگ گئی، اکٹھے کئی سیّاحوں نے ہم سے تصاویر اُتارنے کی درخواست کردی۔ ان لمحات میں ہم خود کودل ہی دل میں ایک عظیم فوٹو گرافر سمجھ رہے تھے۔ ایفل ٹاورکے اِرد گرد بہت سے بھارتی اور پاکستانی خوانچہ فروش، مشروبات خصوصاً مشروبِ مغرب اور بسکٹس، چاکلیٹس کے ساتھ ٹاور کا یادگاری ماڈل اور اسی نوعیت کی دیگر اشیاء بیچتے بھی نظر آئے۔ (جاری ہے)