لاہور( تجزیہ: آصف محمود بٹ) پاکستان کے تمام صوبوں میں سے پنجاب کی بیورو کریسی سب سے طاقتور سمجھی جاتی ہے۔
پنجاب چونکہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اس لئے یہاں تعینات تمام افسر خواہ ان کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (سابقہ ڈی ایم جی گروپ) سے یا پھر صوبائی سول سروس (پروونشل مینجمنٹ سروس) سے ہو کو سیاسی قیادت سے اچھے ورکنگ ریلیشن شپ کی خواہاں ہوتی ہے اور انہیں اپنی مرضی سے نہیں ہانکا جاسکتا۔
اعلی عہدوں پر تعینات بیورو کریٹس کا خیال ہے کہ چونکہ حالیہ انتخابات میں چونکہ پنجاب میں (ن) لیگ نے اکثریت حاصل کر لی ہے تو اگر شہباز شریف وزیر اعظم نہیں بنتے تو وہ بطور وزیر اعلی ان کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ بہتر طریقے سے انتظامی امور سر انجام دے سکتے ہیں۔
سینئر افسران کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر مریم نواز یا مسلم لیگ (ن) میں سے کوئی بھی ایسا شخص جو وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لئے سامنے آتا ہے تو اسے بھی پنجاب میں شہباز شریف کی طرز حکمرانی کو دیکھتے ہوئے بیوروکریسی کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔
پنجاب میں افسر شاہی کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ رکھنے سے صوبے کی ترقی کے حوالے سے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اعلی افسران کا خیال ہے کہ شہباز شریف نے وزارت اعلی کے دوران انہیں سپورٹ اور اعتماد فراہم کیا جس کی وجہ سے پنجاب نے دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ تیزی سے ترقی کی۔
پنجاب کا جو بھی نیا چیف ایگزیکٹو ہوگا اگر اس نے سپورٹ اور اعتماد میں توازن قائم نہ کر پایا اور بیورو کریسی کو ہانکنے کی کوشش کی تو اسے مزاحمت کا سامنا کر نا پڑسکتا ہے۔
شہباز شریف آپریشنل سکلز کے حامل ہیں۔ بزدار دور میں آپریشنل قیادت نہ ہونے کی وجہ سے صوبے کی آؤٹ پٹ نہ ہونے کے علاوہ شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے کئی سوالات نے جنم لیا۔ نگراں دور حکومت میں پنجاب میں پنجاب کی بیورو کریسی کو سپورٹ ملی تو چار سو ارب سے زائد کے ترقیاتی کام کروائے جن کو عوام میں پذیرائی ملی۔
پنجاب کی بیوروکریسی کا خیال ہے کہ سیاسی منتخب حکوت کے پانچ سالہ دور میں ترقی کے سٹریٹیجک پلان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے۔ شہباز شریف بیوروکریسی کی Tenure Postingکے دوسروں سے زیادہ حامی ہیں اور افسران کو کارکردگی دکھانے کے لئے وقت اور سپورٹ دونوں دیتے ہیں۔
بیورو کریسی کا یہ بھی خیال ہے کہ شہباز شریف پنجاب کے مختلف شہروں کی ترقی کا ایک ایسا انفراسٹرکچر بنا چکے ہیں کہ آنے والا نیا وزیراعلی اس پر مزید کام کرکے صوبے کو ترقی کے حوالے سےنیا رول ماڈل بنا سکتا ہے۔
2018ء سے لے کر آجتک پنجاب کی ترقی میں سست روی کو دور کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے صوبے کے نئے چیف ایگزیکٹو کو نہ صرف افسران پر اعتماد کرنا پرے گا بلکہ کارکردگی اور سٹینڈرڈ برقرار رکھنے کے لئے انہیں سپورٹ وقت بھی دینا ہوگا۔