کراچی (ٹی وی رپورٹ) سینئر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ توقع سے کم سیٹیں آنے کی وجہ سے ن لیگ نواز شریف کی بجائے شہباز شریف یا کسی دوسرے کو وفاق میں وزارت عظمیٰ کے نامزد کرے.
نون لیگ کے اندر ایک رائے یہ سامنے آرہی ہے کہ مرکز میں وزارت اعظمیٰ نہ لی جائے زیادہ توجہ پنجاب کے اوپر دی جائے اور مرکز پیپلز پارٹی کو دے دی جائے، یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ جیل میں غیر مقبول ہوجائے اور یہ گھر بیٹھے بیٹھے مقبول ہوجائیں۔
ان خیالات کا اظہار سینئر تجزیہ کار و رپورٹر مظہر عباس، ارشاد بھٹی اور اعزاز سید نے جیو نیوزپر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ اعداد و شمار آگئے ہیں اور ٹرن آؤٹ صرف چند حلقوں میں غیر معمولی رہا مثلاً ڈیفنس لاہور کے حلقے میں جس میں لطیف کھوسہ جیتے ہیں اس میں ٹرن آؤٹ غیر معمولی ہے اسی طرح دوسرا وہ حلقہ جہاں عون چوہدری جیتے ہیں، جو یہ خیال تھا کہ تحریک انصاف قطار در قطار نکل آئیگی ایسا نہیں ہوا ہے.
نو ن لیگ کے ووٹ بینک میں کمی آئی ہے، ملک کا جو سب سے بڑا سیاسی مسئلہ تھا اس کا نون لیگ کے پاس حل نہیں تھا کہ عمران خان اور تحریک انصاف کا کیا کرنا ہے۔2018 کے مقابلے میں ووٹر بہت زیادہ نہیں بڑھا ۔پی ٹی آئی کا سارا بیانیہ پی ڈی ایم کے خلاف تھا لیکن پی ڈی ایم کی جماعتیں اس وقت اکثریت میں ہیں۔
نون لیگ کبھی پنجاب حکومت اورپیپلز پارٹی کبھی سندھ حکومت قربان نہیں کریگی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت شاید اسحاق ڈار کو کوئی اور عہدہ دیا جائے گا اور وزیر خزانہ کے طوپر کوئی نیا چہرہ متعارف کرایا جائیگا۔
جہلم سے بلال اظہر، احسن اقبال ہوسکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے پاس نوید قمر ہیں انکے علاوہ کراچی والے سینیٹر ہیں وہ ہوسکتے ہیں۔
سینئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ایک چیز اس الیکشن نے واضح کر دی ہے کہ اگر پی ٹی آئی اپنے لیڈر اور نشان کے ساتھ الیکشن لڑتی تو تحریک انصاف کلین سوئپ کرتی۔